تین باکمال انگریز

جب سے اسرائیل کی صہیونی حکومت نے 1940ء کی دہائی میں جرمن کے فاشسٹ آمر مطلق ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر مسلح‘ بے گناہ اور بے قصور شہریوں کا قتلِ عام شروع کیا ہے‘ امریکہ کے علاوہ جو دوسرا ملک اس کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کر رہا ہے وہ برطانیہ ہے۔ میں اس ملک میں 55 برس سے رہ رہا ہوں‘ اب یہ میرا دوسرا وطن ہے۔ پاکستان کی طرح‘ میں اس کا بھی شہری ہوں۔ بدقسمتی سے میرے آبائی وطن کی طرح میرا دوسرا وطن بھی میری وفاداری اور جذبۂ اخوت و احترام کا (بڑا سخت) امتحان لیتا رہتا ہے۔ افغانستان‘ عراق‘ شام اور لیبیا‘ ان چاروں ممالک میں امریکہ کے جارحانہ غیر قانونی اقدامات کی برطانیہ نہ صرف زبانی بلکہ عملاً بھی بھرپور حمایت کرتا رہا ہے۔ آپ کو غالباً یاد ہو گا کہ جن دنوں عراق کا آمر صدام حسین مغربی طاقتوں کا چہیتا اور آلہ کار تھا‘ امریکہ اور برطانیہ (اسرائیل بھی ان میں ضرور شامل ہوگا) نے دس سال ایران پر عراق کے جارحانہ حملے میں اُس کی (تباہ کن اسلحے سے) ہر ممکن مدد کی۔ برطانوی حکمرانوں کے ہاتھوں پر لاکھوں شہریوں‘ عورتوں اور بچوں کی خونِ ناحق کے داغ ہیں۔ صرف عراق میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ ابھی میرے دل پر لگے ہوئے مندرجہ بالا زخم ہرے تھے کہ ستم بالائے ستم کے مصداق ایک اور خبر سننے کو مل گئی۔ اس لحاظ سے میں بجا طور پر اپنے آپ کو قابلِ رحم سمجھتا ہوں کہ میرا آبائی وطن سیاسی طور پر بگڑی ہوئی صورتحال کو طاقت کے استعمال سے سدھارنے کے سبب بار بار میرا سر شرم سے جھکانے کا ذمہ دار بنا‘ دوسری طرف برطانیہ کا نامۂ اعمال دیکھیں۔ میرے دوسرے وطن کا طرزِ عمل بھی کم شرمناک نہیں۔ میرے پاس دونوں ممالک کے پاسپورٹ ہیں‘ اب آپ بتائیں کہ میں ان میں سے کس کو ترک کرکے اپنے دل میں لگی ہوئی آگ کو بجھائوں اور اپنے پاسپورٹ کی راکھ اپنے جسم پر مل کر سادھو بن جائوں اور قطب شمالی یا جنوبی کو اپنا مسکن بنا لوں۔ عمر کے آخری حصے میں مجھے غالبؔ کا ایک مصرع بار بار یاد آتا ہے:
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
مندرجہ بالا تحریر میں لکھے ہوئے دُکھڑے کے باوجود مجھے ایمان داری سے مان لینا چاہئے کہ سو سال پہلے کی تاریخ میں بہت سے عوام دوست‘ نیک دل اور باکمال افراد کے نام آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہیں اور گزشتہ نصف صدی میں برطانوی حکومتوں کے انسانیت سوز‘ چنگیز صفت اور بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اُڑانے والی قابلِ صد حیف کرتوتوں کے باوجود اُن ستاروں کی روشنی ماند نہیں پڑی جنہوں نے ہندوستان پر انگریزی راج کے دوران انگریز حاکموں کے بجائے ہندوستانی محکوموں کا ساتھ دیا اور حق کی آواز اُٹھائی۔ ان نیک افراد کا تعلق ظالموں کی قوم سے تھا مگر یہ نسلی تعلق اُنہیں اس خار زار میں اپنی آبلہ پائی کے باوجود جانے اور کانٹوں کی پیاس بجھانے سے نہ روک سکا۔ یہ روایت جن عظیم شخصیات نے برقرار رکھیں وہ تھے عالمی شہرت کے وکیل D.N. Pritt‘ جنہوں نے مولوی تمیز الدین کیس میں بلا معاوضہ وکالت کی۔ لارڈ Bertrand Russell‘ جنہوں نے ویتنام میں امریکی جرائم کی تحقیق کرنے والے ٹریبونل کی صدرات کی‘ ان کے قریبی رشتہ دار Lord Avebury‘ جو میری دعوت پر چار بار پاکستان اور آزاد کشمیر گئے اور آزادیٔ کشمیر کی وکالت کرنے کے سبب بھارتی ویزے سے محروم ہو گئے‘ اور اٹھارہویں صدی میں انگریز گورنر جنرل Warren Hastings کی لوٹ مار کا حتساب کرنے والے اور ہائوس آف لارڈز میں سات سالہ مقدمہ چلانے والے Edmund Burke۔ اب آئیے آج کے کالم کی طرف چلتے ہیں۔
آج میں آپ کا جن تین باکمال انگریز افراد سے تعارف کرائوں گا ان میں ایک مرد ہے اور سے دو خواتین۔ شروع انگریز مرد سے کرتے ہیں۔ نام تھا Mountstuart Elphinstone۔ (پیدائش:1779ء اور وفات: 1859ء) وہ نہ صرف ایسٹ انڈیا کمپنی میں بلند پایہ عہدے پر فائز رہے بلکہ تاریخ نویسی میں بھی کمال حاصل کیا۔ اُن کا تعلق جاگیردار اشرافیہ سے تھا اور وہ اپنے خاندان کے گیارہویں لارڈ ہونے کی وجہ سے برطانوی پارلیمان کے ایوانِ بالا‘ ہائوس آف لارڈز کے رکن تھے۔ وہ برطانیہ میں تعلیم مکمل کر کے 1795ء میں بنگال سول سروس میں شامل ہوئے اور 1803ء میں Assaye کی جنگ میں Wellesley کی مدد میں اتنی اعلیٰ خدمات سرانجام دیں کہ اُنہیں ناگپور (جہاں پورے ہندوستان کے سب سے عمدہ سنگترے اُگتے ہیں) میں برطانوی Resident سفیر مقرر کیا گیا۔ 1808ء میں اُنہیں کابل میں برطانوی سفیر مقرر کیا گیا اور 1810-17ء وہ پونا میں‘ مرہٹوں سے آخری جنگ میں انگریزوں کی فتح تک‘ Resident سفیر رہے۔ 1819-27ء تک وہ بمبئی کے گورنر جنرل مقرر کیے گئے۔ ان دنوں سندھ بھی بمبئی کا حصہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کراچی کے ایک مصروف اور معروف علاقے کا نام ایلفنسٹن سٹریٹ ہے۔ اُنہوں نے اس زمانے میں تعلیمی اداروں کے قیام اور سماجی خدمت کے بے شمار کاموں سے بڑا نام کمایا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ جب اُنہیں ہندوستان میں سب سے بڑے عہدے (وائسرائے) کی پیشکش کی گئی تو اُنہوں نے اس بنیاد پر یہ پیشکش قبول نہ کی کہ وہ تاریخ کی کتاب مکمل کر رہے ہیں جو اُنہیں یہ ذمہ داری قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ 1891ء میں اُن کی کتاب (تاریخِ ہند) شائع ہوئی۔ ہندوستان سے واپسی پر اُنہوں نے 30 سال گوشۂ تنہائی میں گزارے۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ ہندوستانی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہر اچھی تجویز کی حمایت اور ہر نقصان دہ فیصلے کی مخالفت کی۔ وہ ہر تقریر میں ہندوستان پر برطانوی راج کو ہر ممکن حد تک انسان دوست بنانے پر زور دیتے رہے۔ اُن کا شمار ہندوستان کے بہترین خیر خواہوں میں ہوتا تھا۔
دوسری باکمال شخصیت کا نام تھا Annie Besant (1847ء تا 1933ء)۔ وہ ایک پادری کی بیوی تھیں۔ 1873ء میں طلاق کے بعد وہ برطانیہ کی نیشنل سیکولر سوسائٹی کی نائب صدر اور برطانوی پارلیمان کے ایک روایت شکن اور باغی رکن (Charles Bradlaug) کی قریبی ساتھی بنیں۔ ان دونوں نے اشتراکی نظریات اور کلیسا کے اثر و رسوخ اور عمل دخل کو کم سے کم کرنے والے ہراول دستے کا کام کیا۔ 1889ء میں وہ ہندوستان چلی گئیں جہاں اُنہوں نے ہندوستانی سیاست میں بھرپور حصہ لیا، 1917ء سے 1923ء تک وہ انڈین نیشنل کانگریس کی صدر رہیں اور جب دیکھا کہ کانگریس انگریزوں سے آزادی کی تحریک میں بزدلانہ کردار ادا کرتے ہوئے بڑی کمزور اور بے اثر جدوجہد کر رہی ہے تو اُنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ مل کر Home Rule League بنائی۔ 85 برس کی عمر میں مدراس (موجودہ چنائی) میں وفات پائی اور اُن کی راکھ ہندوستانی دریائوں میں بہا دی گئی۔
تیسری باکمال شخصیت کا نام Madeleine Slade ہے۔ وہ برطانوی بحریہ کے افسر اعلیٰ (ایڈمرل) کی بیٹی تھیں۔ 1931ء میں اُن کے دل میں ایک عجیب خیال آیاکہ وہ برطانیہ میں بڑی آرام دہ اور امیرانہ زندگی کو خیرباد کہہ کر ہندوستان جا رہیں۔ یہاں پہنچ کر وہ گاندھی جی کی ذاتی معاون اور خدمت گزار بن گئیں۔ نام بدل کر ''میرا بہن‘‘ رکھا۔ وہ ہمیشہ سفید کھدر کی ساڑھی میں ملبوس رہتیں۔ گاندھی جی کے ایک مہاسبھائی ہندو کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد بھی وہ ہندوستان میں ہی رہیں۔Annie Basant کی طرح‘ 1982ء میں وفات کے بعد اُنکی میّت نذرِ آتش کی گئی تو وصیت کے مطابق راکھ گاندھی جی کی سمادھی کے قدموں میں چھڑک دی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں