موبائل فون بلاشبہ آج انسان کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے، اس کے بغیر کوئی بھی خود کوادھوراسا محسوس کرتا ہے۔ محض رابطہ کرنا مقصد نہیں رہا، اب ابلاغ کا موثر اور بہترین ذریعہ بھی یہی ہے‘ خاص طور پر سمارٹ فون نے ہر کسی کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی دیگر کام پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتا۔ وائی فائی اور انٹرنیٹ پیکیج کی بدولت ملنے والی معلومات تک بغیر کسی تاخیر کے رسائی حاصل کرنا انتہائی ناگزیر عمل بن گیا ہے۔ بڑے، بچے اور بوڑھے‘ سب نے جیسے سمارٹ فون پر تکیہ کر لیا ہے اور یہ زندگی کا جزو لاینفک سا بن گیا ہے۔ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے، کھانا کھاتے، ڈرائیونگ کرتے، راہ چلتے سڑک عبور کرتے حتیٰ کہ نماز پڑھنے کے فوری بعد بھی فون ہاتھ میں پکڑا نظر آئے گا۔ بچے بھی اب بڑوں سے پیچھے نہیں رہے‘ وہ خود اب سوشل میڈیا کا حصہ ہیں۔ یہی اب ان کی سماجی سرگرمی بھی بن گئی ہے، بچوں کے کھیل اور تفریح کی ترجیحات بدل گئی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کھلونوں میں ان کی دلچسپی بہت کم ہو گئی ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ اب کارٹون اور گیمز کے لئے بھی بچوں کے ہاتھوں میں سمارٹ فون آ چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو کلپ دیکھا جس سے نہ صرف اپنا بچپن یاد آگیا بلکہ اپنے بچوں کی سرگرمیاں دیکھ کر احساس ہوا کہ دس پندرہ سال پہلے بھی زندگی کچھ اور ہی تھی‘ اب نجانے ہم کس دنیا میں کھو گئے ہیں۔ کورونا نے بچوں کو کئی ماہ سے گھروں میں محدود کرکے رکھ دیا ہے، جس کے سبب ان کی دیگر تمام مصروفیات معطل ہوگئی ہیں نتیجتاً موبائل فون پر انحصار پہلے سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔
آج بھی چالیس سال پیچھے نگاہ چلی جاتی ہے لیکن ساتھ میں سب کچھ وہاں پہنچ جاتا ہے‘ جب ایک بے فکری تھی، کیوں نہ ہوتی؟ بچپن ہر کسی کا ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی یادیں کون بھول پاتا ہے؟ ذہن میں ایک انبار لگا ہے چیزوں کا، باتوں کا، قصوں کہانیوں اور کرداروں کا، یہ وہ دور ہوتا ہے بلکہ تھا‘ جب سب کچھ سادہ اور سچا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم جھوٹ نہیں بولتے تھے، لیکن اس کا احساس بھی تھا۔آج بیٹھے بیٹھے نجانے کیا کچھ اس ایک چھوٹے سے وڈیو کلپ نے یاد کرا دیا۔کئی سرد شامیں اور گرم دوپہریں ایک لمحے میں تازہ ہو گئیں۔
وہ ایک پیسہ، پانچ پیسے، دس پیسے، چونی، اٹھنی جنہیں اپنی مٹھی میں تھامے کتنے مسرور اور مطمئن ہوتے، ان سے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بڑی آسانی سے بازار سے خرید لیتے۔ امی ابو سے اپنی معصوم ضدیں بھی منوالیتے۔ پانی میں چلنے والی موٹر بوٹ جس میں موم بتی جلا کر چلاتے اور پولکا آئس کریم کی خواہش کسے بھولی ہوگی۔
گرمی کی چھٹیوں میں دوپہر کو بڑوں کی سونے کی تاکید کے باوجود چوری چھپے گھر کے صحن میں یا کسی دوست کے گھر جاکر اپنے کھیل کھیلنا، کبھی منع کرنے کے باوجود کانچ کی گولیوں سے دل بہلانا، کچھ بڑے ہوئے تو چھوٹی سائیکل ایک چونی کے عوض گھنٹہ کرائے پر لاکر چلانا۔ تب ٹائر کی ہوا نکلنے پر بڑی تگ ودو سے ہوا بھرنے کی مشقت میں بڑا مزہ آتا تھا۔ اس پمپ کو‘ بڑوں کی طرح کرتے کو منہ میں ڈال کر دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھاکر پھر ہوا کے دباؤ کے باعث اس کو نیچے دبانا۔
چھپن چھپائی کھیلنے کے دوران ایسی جگہوں پر جاکر چھپ جانا جنہیں کوئی ڈھونڈ نہ پاتا۔ حتیٰ کہ کئی ایسے مقام بھی ہماری پناہ گاہ ہوتے جہاں چھپنے میں خطرہ ہوتا۔
شام ڈھلے تفریح کے دوسرے دور کا آغاز ہوجاتا‘ یہ گھروں میں ٹی وی کا وقت تھا۔ جس میں کارٹونز کے ساتھ ساتھ بڑوں کے ڈرامے اور پروگرام آج بھی نہیں بھول پائے۔ سکس ملین ڈالر مین، چپس، سٹارٹریک،بائیونک وومن،دی سینٹ اور نائٹ رائیڈر پھر ففٹی ففٹی، الف نون، آنگن ٹیڑھا، بڑوں کے ڈراموں میں وارث، ایک محبت سو فسانے، بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر نیلام گھر دیکھنا پھر سوالوں کے جواب دینا۔ طارق عزیز ہو یا کسوٹی کے حمایت علی شاعر، قریش پور، افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ ...ان کے علاوہ ضیاء محی الدین کا شو بھی معلومات کا ذخیرہ ہوتا۔
بھارتی فلم دیکھنے کیلئے چھت پر چڑھ کر انٹینا ٹھیک کرنا اور پھر نیچے بار بار آواز دینا بتاؤ اب ٹھیک ہوگیا؟ آندھی، طوفان اور بارش میں سر پر پلاسٹک رکھ کر جانا مشکل ہوتا لیکن اپنے شوق کی تسکین کیلئے یہ سب بھی کر گزرتے۔
نازیہ حسن اور زوہیب حسن کو دیکھ کر جدید گائیکی کا شوق بھی چراتا اور فیشن کرنے کو دل بھی للچاتا۔ ٹی وی اناؤنسر جنہیں آج اینکر کہتے ہیں‘ وہ بھی بڑے بھلے اور اپنے اپنے سے لگتے۔ جن کے چہرے آج بھی شناسا سے لگتے۔1973 ء میں بھارتی چینل نے فلم دکھانے کااعلان کیا، رشتہ دار پنڈی سے لاہور پہنچ گئے، گھروں میں خاص اہتمام کیا گیا۔ آج یہ سن کر عجیب لگتا ہے۔
بچپن میں ہمارا بارش کے جمع ہونے والے پانی اور تالاب وغیرہ میں کاغذ کی کشتیاں چلانا کبھی ذہن سے نہیں جاتا، پھر کاغذی جہاز بنا کر اڑانا اور آپس میں مقابلے کرنا۔ ان دنوں ہر گھر کے دروازے پر نہیں‘ لیکن جس پر گھنٹی لگی ہوتی اس کو بجانے کا نجانے کیوں دل للچاتا اور پھر کسی محفوظ مقام پر چھپ جانا کسے بھولا ہو گا۔ یہ سب باتیں، حرکتیں، چیزیں اور کردار آج بھی کسی انداز میں سامنے آتے ہیں تو جیسے سب کچھ یاد آ جاتا ہے۔
آج لوگ زیادہ ہوگئے، چیزیں بے شمار، کردار یاد رکھنا مشکل، ہر کسی کی مصروفیت اتنی کہ پہلے کبھی وی سی آر پر فلم دیکھتے، واک مین پر گانے سنتے، اگرچہ یہ سب کمپوٹر بلکہ لیپ ٹاپ یا ہاتھ میں پکڑے موبائل میں آ چکا ہے۔ اب وڈیو سنٹر سے فلم لانے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی، آڈیوکیسٹ سنتے ٹیپ میں پھنسنے پر پنسل سے دوبارہ اس کی ریل چڑھانے کی خوشگوار مشقت بھی نہیں، سنگل کلک پر فلم، گانا، حتیٰ کہ حال، ماضی کی کوئی بھی یاد تازہ کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے۔
ذہن کی پرواز اگرچہ زیادہ بلند رکھنے کی کوشش رہتی ہے لیکن جس لاپروائی سے اس وقت اُڑان بھرتے وہ انداز شاید اب نہیں رہا۔ ایک دوسرے سے جتنے مخلص تب تھے‘ اب ہم چاہ کر بھی اخلاص پیدا نہیں کر پاتے۔ بچوں کی شرارتیں ایسی سادہ ہوتیں کہ بڑوں کو بھی بھلی لگتیں، کبھی کسی کا نقصان ہو بھی جاتا تو تھوڑی سے سرزنش کرکے آئندہ نہ کرنے کی نصیحت کے بعد معاف کر دیتے۔ اب بچے نہ جانے کیا کچھ کرتے اور دیکھتے ہیں، والدین بالکل لاعلم ہیں، کئی کئی گھنٹے فون پر کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں، ان کے ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ کچھ علم نہیں۔ اب ایسی گیمز بھی آ گئیں جنہوں نے بچوں کی جان تک لینا شروع کردیں۔ معصوم ذہن اپنی جان تک لینے کی حرکت کر گزرتے ہیں۔ موبائل فون ضرورت ہے‘ مگر کس قدر؟ اس کا تعین نہ بڑے کر پا رہے ہیں نہ بچے۔آج ہمیں ماضی کے مزار پر حاضری دینے یا اس پر چادر چڑھانے کی فرصت بھی نہیں۔ ایک نام نہاد دوڑ میں خود کو شریک کر لیا ہے، جس کا ہدف بھی شاید معلوم نہیں، لگے بندھے ٹارگٹ حاصل کرنے میں دن رات کو پکڑنے کی ناکام کوشش یا حسرت ہمیں اپنے کل سے مسلسل دور کرتی جا رہی ہے۔
اب تو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہی سوچ ذہن میں آتی ہے کہ وہ چیز، وہ کردار، وہ پرانے دوست، شناسا چہرے، وہ کھیل، وہ شرارتیں، وہ خوبصورت دن‘ رات کہاں چلے گئے، وہ دن جب ہم سب اکٹھے تھے، آپس میں محبت کرتے، ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اب کہاں ڈھونڈیں، اب جیسے خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں، انہیں کہاں تلاش کریں، وہ سب ہمیں کیسے ملیں گے۔