"RS" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کی مقبولیت کا تاثر!

عمران خان کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف نے بڑی مہارت سے یہ بیانیہ قائم کیا کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا ہے‘ دلیل میں وہ جلسے پیش کیے گئے جو عمران خان نے مختلف شہروں میں کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے بڑے جلسے کیے مگر اس میں شرکت کرنے والے تمام تر لوگ عمران خان کے فینز تھے اور فینز کی نفسیات یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کے جلسوں میں فینز کی بڑی تعداد شریک ہوئی؛ تاہم کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت کا اندازہ اس کے ووٹ بینک یا کارکردگی سے لگایا جاتا ہے۔تحریک انصاف کی پونے چار سالہ کارکردگی مایوس کن رہی ہے‘ ملکی تاریخ کے مجموعی قرضوں کا دو تہائی سے زائد تحریک انصاف کے دور حکومت میں لیا گیا‘ جس کا سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے ان الفاظ میں اعتراف کیا کہ ''قیام پاکستان کے بعد 70 برسوں میں جتنا قرضہ لیا گیا‘ اس کا 80فیصد نہیں بلکہ 76 فیصد تحریک انصاف حکومت نے لیا‘‘۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے قائدین خود بھی مقبولیت کے حوالے سے حقائق کا ادراک رکھتے ہیں اسی لیے فوری طور پر انتخابات کے بجائے محض سیاست کر رہے ہیں‘ تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ کوئی بھی سیاسی جماعت فوری انتخابات نہیں چاہتی‘ جہاں تک تحریک انصاف کی طرف سے فوری نئے انتخابات کا مطالبہ ہے تو قول و فعل میں کھلا تضاد موجود ہے کیونکہ اگر تحریک انصاف خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کر دے‘ بلوچستان اسمبلی سے تحریک انصاف کے اراکین استعفے پیش کر دیں‘ تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی فرداً فرداً اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفوں کا اعتراف کر لیں‘ اسی طرح سینیٹ سے بھی نکل جائیں تو حکومت کے پاس نئے الیکشن کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں رہے گا‘ یوں لگتا ہے ہر پارٹی اپنے طور پر سیاسی کارڈ کھیل رہی ہے تاکہ عام انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔چونکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی مدمقابل اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں کا سیاسی ڈھانچہ تحریک انصاف کے مقابلے میں قدرے کمزور ہے تو اس سے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے مقبول ہونے کا تاثر قائم ہوتا ہے‘ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پنجاب میں تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریوں کا فائدہ دیگر جماعتوں کو ہو رہا ہے اسی طرح کے پی میں بھی دیگر جماعتوں کی اندرونی کمزوریوں کا فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں اتحادی جماعتوں کی اندرونی کمزوریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے برعکس خیبرپختونخوا میں گورنر کا عہدہ تاحال خالی ہے حالانکہ سندھ اور پنجاب میں گورنر کے عہدے کیلئے حکومت کو سخت مسائل کا سامنا رہا جبکہ خیبرپختونخوا میں وزیر اعظم شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے فوری بعد تحریک انصاف کے تعینات کردہ گورنر شاہ فرمان ازخود مستعفی ہو گئے تھے۔
حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی کو چونکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر کوئی وزارت نہیں دی گئی ہے اس لیے توقع تھی کہ خیبرپختونخوا کی گورنر شپ اے این پی کو دی جائے گی مگر بوجوہ گورنر کا عہدہ خالی رہا‘ کچھ ناموں پر اتحادی جماعتوں کو اعتراض تھا‘ ابتداً جمعیت علمائے اسلام کو گورنر کا عہدہ دیا گیا؛ تاہم اکرم خان درانی نے عہدہ لینے سے معذرت کر لی تھی‘ اس کے بعد اتحادی جماعتوں کے درمیان مشاورت ہوئی اور آصف زردای کے اہم کردار کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین کے نام پر اتفاق ہو گیا‘ اس کی وجہ میاں افتخار حسین کی شخصیت بھی ہے جو سبھی جماعتوں کو قابلِ قبول ہے۔
اس پس منظرسے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اتحادی حکومت کے مدت پوری کرنے کے قوی امکانات ہیںکیونکہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا پرامن خاتمہ‘ لانگ مارچ کی نئی تاریخ کا اعلان نہ ہونا‘ حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور بجٹ پیش کرنا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اتحادی جماعتیں لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں‘ اتحادی حکومت کی خود اعتمادی بلاوجہ نہیں ہے‘ انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے‘ ورنہ سخت فیصلے کر کے اتحادی جماعتیں کبھی بھی ووٹرز کی ناراضی کا خطرہ مول نہ لیتیں۔ فی الوقت سیاسی جماعتیں مقبولیت کے اعتبار سے اس مقام پر کھڑی ہیں کہ کسی کو فیورٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر اتحادی حکومت اگست کے بعد عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی بھی ہو جاتی ہے تو امکان ہے کہ اتحادی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ وفاقی و صوبائی کابینہ اور اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران کے پٹرول کوٹہ میں 40 فیصد کمی سے حکومت کو اخلاقی حمایت حاصل ہوئی ہے‘ معاشی بحران کے باوجود عوام کو احساس ہوا ہے کہ مشکل کی گھڑی میں اعلیٰ حکام ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ آئندہ بھی ایسے ہی عوام دوست اقدامات کیے گئے تو اتحادی حکومت کی مقبولیت بڑھ جائے گی۔
اتحادی حکومت کو جو سازگار ماحول میسر آیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایوان میں مضبوط اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو مزاحمت کا سامنا نہیں ہے‘ تحریک انصاف کے جلسے بھی تھم چکے ہیں‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو بار اضافے کے باوجود عوام نے خاص ردعمل نہیں دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے مہنگائی کو بادل نخواستہ قبول کر لیا ہے‘ ایسے ماحول کا تقاضا ہے کہ اتحادی حکومت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔اس دوران اگر یوکرین جنگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے تو حکومت کی قسمت جاگ اٹھے گی اور وہ عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہو گی۔
تحریک انصاف کی ناکامی کی اہم وجہ خارجہ پالیسی تھی‘ اس کے مقابلے میں اتحادی حکومت نے آتے ہی خارجہ پالیسی پر زور دیا ہے۔کچھ ہی عرصے میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ چین جیسا دیرینہ دوست ملک وزیر اعظم شہبازشریف کی حمایت میں کئی اشارے دے چکا ہے کہ چین شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ مطمئن ہے۔ چینی حکومت نے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے کہ شہباز شریف اپنے گورننس کے فلسفے کی بنیاد پر ملک کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ یہی نہیں بلکہ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ چین نے نہایت کم شرح پر پاکستان کو دو ارب ڈالر دینے کی تصدیق کر دی ہے۔ چین کی طرف سے مالی تعاون کے بعد حکومت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے بچ جائے گی اور قرض کا حصول قدرے آسان ہو جائے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں؛ تاہم وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے بعد قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے پٹرولیم مصنوعات پر مکمل سبسڈی ختم کرنا ضروری ہے یوں پٹرول 27 روپے جبکہ ڈیزل 55 روپے تک مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ حکومت کو یہ کام 30 جون سے پہلے کرنا ہے‘ اگر حکومت اس ترتیب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتی ہے تو عوام اسے آسانی سے ہضم نہیں کریں گے‘ اس پر شدید ردعمل آ سکتا ہے۔عوامی ردعمل حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے‘ حکومت کو دیگر ذرائع سے خسارہ پورا کرنے کی منصوبہ بندی کرنی ہو گی تاکہ عوامی غیظ و غضب سے بچ سکے کیونکہ اتحادی جماعتیں پہلے ہی عمران خان کے چھوڑے ہوئے معاشی مسائل کا انبار اپنے کندھوں پر لاد کر اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا چکی ہیں‘معاشی بحران کے حوالے سے اتحادی حکومت کے حالیہ اقدامات کو اسی صورت اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے جب چند ماہ بعد عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں