عدم برداشت کو سماج کیلئے زہر سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ ایسا زہر جو دھیرے دھیرے پورے سماج کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے۔ اگر ابتدائی مرحلے میں عدم برداشت کا تدارک نہ کیا جائے تو آگے چل کر یہ سماج میں لاقانونیت اور انتہا پسندی کا باعث بنتا ہے‘ جس کے بعد سماج ایسے مقام پر آن کھڑا ہوتا ہے کہ معمولی بات پر قتل و غارت شروع ہو جاتی ہے۔ اگلے روز لنڈی کوتل مویشی منڈی میں پیسوں کے تنازع پر دو فریقوں کے درمیان لڑائی اور فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق اور پانچ افراد زخمی ہوگئے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ہم ہر روز ایسے کئی مظاہر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ سماجی پستی کو دور کرنے کیلئے ہمارے ہاں کوئی کام نہیں ہوا۔ جب تک یہ نہیں جان لیا جاتا ہے کہ عدم برداشت کے عوامل کیا ہیں اور ان کی نشوونما کیسے ہو رہی ہے تب تک ان عوامل پر قابو پانا بھی آسان نہیں ہوگا۔
مہذب معاشروں میں مختلف آرا اور سیاسی و مذہبی وابستگی کو کھلے دل سے قبول کیا جاتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے وجود کو معاشرے کیلئے اہم تصور کیا جاتا ہے تاکہ مخالف بیانیہ سامنے آتا رہے کیونکہ جب سماج میں مخالف بیانیہ ختم ہو جاتا ہے تو ایسے سماج کو جمود کا شکار کہا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایسی کئی توانا آوازیں موجود ہیں جو مقتدر قوتوں کے خلاف ببانگ دہل اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں مگر کبھی ان کی آواز کو خاموش کرانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسی روش نہیں پائی جاتی ہے‘ یہ سماجی رویے عدم برداشت کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ سیاسی قیادت جب عدم برداشت کا مظاہرہ کرتی ہے تو کارکنان قیادت سے دو ہاتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1965ء کے انتخابات میں جب ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح مدمقابل تھے تو محترمہ فاطمہ جناح کی آواز کو دبانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے‘حتیٰ کہ ان کی تقاریر کو ریڈیو پر نشر ہونے سے پہلے سنسر کیا جاتا رہا‘ ان کا راستہ روکنے کیلئے کئی فتوے حاصل کیے گئے کہ عورت سربراہِ مملکت بن سکتی ہے یا نہیں؟
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تمام خوبیوں کے باوجود مخالفین پر ذاتی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا‘ جسے نواز شریف اور ان کی جماعت میں شامل افراد نے عروج پر پہنچایا اور اب عمران خان نے اسے دوام بخشا ہے۔ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے دور میں سیاسی دشنام طرازیوں سے کافی حد تک گریز کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے بعد کے ادوار میں نسبتاً اس جماعت کی قیادت نے سبق سیکھ لیا تھا مگر عمران خان کی سیاست میں انٹری سے دشنام طرازی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ عروج کو پہنچ گیا۔ سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنہیں طاقتوروں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے وہ ہر حد پار کر جاتے ہیں‘ مذہب کارڈ کا استعمال‘ غداری کے سرٹیفکیٹ‘ ذاتی زندگی پر حملے ایسی جماعتوں کا خاصا ہے جنہیں کسی نہ کسی حوالے سے طاقتوروں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ سیاست اور سماج میں عدم برداشت کی ایک وجہ سیاسی جماعتوں کے اندر کارکنوں کی تربیت کا فقدان بھی ہے‘ اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتیں برابر ہیں‘ بلکہ ایسے کارکنان کو پسند کیا جاتا ہے جو حریف قیادت پر تنقید کا فن خوب جانتے ہوں۔ سیاسی قیادت ایسے رہنماؤں کو پسند کرتی ہے جو جارحانہ رویہ اپنانے میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے ہوں۔ ایسے افراد کو پروموٹ کر کے ایوان میں پہنچانے کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وزیر اور مشیر کی تقرری کیلئے بھی جارحانہ رویہ ہی اولین ترجیح بن گیا ہے تاکہ مخالفین کو زچ کیا جاسکے۔ لیگی رہنما عطا تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں سابقہ خاتون اول کی ایک دوست کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا ذکر کیا۔ اس پریس کانفرنس کا اصولی جواب دینے کے بجائے شہباز گل کی طرف سے لیگی رہنماؤں پر ایسے زبانی حملے کیے گئے جنہیں تحریر میں لانا ممکن نہیں۔
عمران خان سیاسی مقاصد کیلئے جب شریف فیملی کی کردار کشی کر رہے تھے تو انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ذاتیات پر حملوں سے گریز کیا جانا چاہیے مگر انہوں نے تواتر کے ساتھ شریف فیملی کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اب انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہاہے اوران کے حوالے سے بھی ویسی ہی بیان بازی کی جا رہی ہے جیسی وہ ماضی میں دوسروں کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔ جس طرح عمران خان کے تلخ رویے اور ذاتیات پر حملوں کی حمایت نہیں کی جا سکتی اسی طرح مسلم لیگ (ن) یا کسی بھی سیاسی رہنما کی جانب سے عمران خان یا اُن کی فیملی کی کردار کشی کی حمایت قطعی نہیں کی جاسکتی۔
عدم برداشت کا ایک مظہر گزشتہ دنوں دنیا نیوز کے سینئر تجزیہ کار ایاز امیر صاحب پرحملے کی صورت سامنے آیا۔ ایاز امیر پاکستان میں صحافت کا معتبر نام ہیں‘ ان کی صحافتی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے کے قائل ہیں اور صحافتی اصول اور آئینِ پاکستان انہیں پورا حق دیتے ہیں کہ وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر یں۔ ان کی رائے اور سوچ سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر دلیل اور مکالمے کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر ان کی آواز کو بند کرنے کی سوچ عدم برداشت جیسے منفی سماجی رویوں کو جنم دیتی ہے۔ عدم برداشت کے برعکس مکالمہ تفہیم کے راستے کھولتا ہے۔ دوسروں کے مؤقف کو یکسر مسترد کرنے کے بجائے ان کے علم اور تجربے سے سیکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔ جب ہم مکالمے کو اہمیت دیں گے اور دوسروں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہوں گے تو اندازہ ہوگا کہ بہت سی غلط فہمیاں تھیں جو ملنے سے دور ہو گئی ہیں۔
ہمارے سماج میں عدم برداشت موجود ہے جو یقینا ایک تکلیف دہ امر ہے مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم عدم برداشت کے رویوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ عدم برداشت کو پروموٹ کرنے میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے۔ سابق دورِ حکومت میں ذمہ دار میڈیا کو پس پشت ڈال کر سوشل میڈیا کو ترجیح دی گئی اوراہلِ دانش سے مشاورت اور ان کے تجربے سے استفادہ کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نوواردوں کو حکومتی قرب میں جگہ دی گئی۔ عمران خان کی سرپرستی میں لگایا جانے والا سوشل میڈیا کا پودا اب تن آور درخت کی شکل اختیار کر گیا ہے‘ جس میں مخالفین کی کردار کشی کیلئے ان کی کمزرویاں تلاش کرنے کیلئے ریسرچرز بھرتی کیے جاتے ہیں اوراس مقصد کیلئے بجٹ مختص کیے جاتے ہیں۔ مقابلے کے لیے حریف سیاسی جماعتیں بھی اسی راستے پر چل نکلی ہیں۔ یہ رویہ افسوس ناک ہے اور عدم برداشت کو فروغ دے رہا ہے۔ عدم برداشت کا خطرہ ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہے جس کے سدباب کی ضرورت ہے کیونکہ سماجی رویوں کی ابتدا عدم برداشت سے ہوتی ہے جبکہ ان کی انتہا لاقانونیت کی صورت میں سامنے آتی ہے۔