طویل جدوجہد اور بحث و تکرار کے بعد مئی 2018ء میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے متفقہ طور پر 31 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کا عمل مکمل ہو ا۔ توقع تھی کہ اب قبائلی اضلاع کے عوام کو بھی وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ملک کے دوسرے علاقوں کے عوام کو حاصل ہیں‘ کیونکہ امن و امان کی مخدوش صورتحال‘ بنیادی ضروریاتِ زندگی کا فقدان اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) قانون سے قبائلی عوام تنگ تھے۔اس قانون کو عرفِ عام میں کالا قانون کہا جاتا تھا کیونکہ پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہونے کی وجہ سے عوام کو اپیل کا حق بھی حاصل نہ تھا۔ 2008ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں اس کالے قانون کو ختم کرنے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل ہوتے ہوتے دس سال کا عرصہ لگ گیا۔
انضمام میں قبائلی عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انصاف کی آسان فراہمی کیلئے قبائلی اضلاع میں عدالتیں قائم کی جائیں گی جو ہائی کورٹ کے ماتحت کام کریں گی‘ اسی طرح یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت قبائلی اضلاع میں انفراسٹرکچر اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے خصوصی فنڈز جاری کئے جائیں گے جس میں وفاق اور تمام صوبے اپنا حصہ ڈالیں گے۔ انضمام کے وقت سے آئندہ دس سال کیلئے قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کیلئے صوبوں کے تعاون سے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کو یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن انضمام کو چار سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر تعمیر و ترقی کا وعدہ ایفا نہیں ہو سکا ۔
جب انضمام کا عمل مکمل ہو رہا تھا اس وقت 2018ء کی انتخابی مہم جاری تھی اس لئے قبائلی اضلاع میں انتخابات نہ ہو سکے‘ تاہم صوبائی سطح پر قبائلی اضلاع کیلئے 21 نشستیں مختص کر دی گئیں‘ جن میں 16 عام نشستیں ‘ چار خواتین کیلئے جبکہ ایک نشست اقلیتوں کیلئے مختص ہے۔ان نشستوں پر جولائی 2019ء میںانتخابات ہوئے جن میں عوام نے پہلی بار اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ 19 منتخب نمائندوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی سے حلف اٹھایا‘ قبائلی اضلاع کے عوامی نمائندے گزشتہ تین برسوں سے صوبائی ایوان کا حصہ ہیں جن میں بیشتر کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے جو اپنے اضلاع کے حقیقی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں‘ صوبائی ایوان میں قبائلی اضلاع کے نمائندوں کی آمد کے بعد توقع تھی کہ اب مسائل حل ہو جائیں گے‘ صوبائی حکومت کا بھی دعویٰ ہے کہ اس نے قبائلی اضلاع کی ترقی پر خصوصی توجہ دی مگر قبائلی عوام حکومت کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ انضمام کے بعد انصاف کا حصول ان کیلئے مزید مشکل ہو گیا ہے۔انضمام کے بعد ریاستی پالیسی ابہام اور تضادات کا شکار ہے۔Tribal Decade Strategy 2020-2030سمیت مختلف منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن زمینی سطح پرعوامی خدمات کے اداروں اورتعلیمی اداروں کا ناقص نظام ‘ ہسپتالوں کی عدم موجودگی یا صفائی اور صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ مختلف محکمے اور متعلقہ خدمات جیسا کہ صحت‘ تعلیم‘ سی اینڈ ڈبلیو کے دفاتر پشاور‘ ڈی آئی خان‘ بنوں یا ہنگو میں ہیں جو بہت دور پڑتے ہیں اور ان تک رسائی مشکل ہے۔ عوام کو مسائل کے حل کے لیے وقت اور پیسہ لگانا پڑتا ہے۔
یہ درست ہے کہ قبائلی عوام ایف سی آر کے قانون سے پریشان تھے مگر جرگہ سسٹم میں انصاف کا حصول بہت جلد اور آسان تھا سو ضروری تھا کہ انصاف کی آسان فراہمی کیلئے عدلیہ کا ایسا سیٹ اپ قائم کیا جاتا جو عوام کی پہنچ میں ہوتا‘ مگر بدقسمتی سے زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ اورکزئی کے لوگوں کو حصول ِانصاف کیلئے ہنگو شہر میں واقع عدالت تک رسائی کے لیے 200 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح کئی دور دراز کے لوگوں کو پشاور عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔اس صورتحال نے قبائلی اضلاع کے عوام کیلئے انصاف کا حصول مشکل تر بنا دیا ہے جس کا فوری طور پر تدارک کیا جانا چاہئے۔قبائلی اضلاع کے عوام اس بات کو بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ انضمام کے وقت فنڈز کی تقسیم کا جو فارمولہ پیش کیا گیا تھا اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایواڑ کے تحت صوبوں سے تین فیصد وصول کر کے قبائلی اضلاع کیلئے مختص کیا گیا تھا مگر صوبے اس معاہدے کی پاسداری سے انکاری ہیں جس سے قبائلی عوام میں واضح بے چینی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت کی طرف سے ہر بجٹ میں 100 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن پورا نہیں ہو سکا۔ یوں دیکھا جائے تو جن مقاصد کے تحت قبائلی علاقہ جات کا صوبے میں انضمام ہوا تھا وہ پورے نہیں ہو سکے۔
انضمام سے پہلے قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال نہایت مخدوش تھی‘ پاک فوج نے بڑی مہارت سے ان عناصر کا قلع قمع کیا جو بدامنی کا سبب بن رہے تھے‘ تاہم اس دوران عوام کی بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی اوربسیار کوشش کے باوجود آباد کاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا اور قبائلی اضلاع کے عوام روزگار کی تلاش میں ملک کے مختلف علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔اگر ان لوگوں کے پاس مقامی سطح پر روزگار کے مواقع دستیاب ہوتے تو یہ قطعی طور پر اپنی آبائی زمین کو نہ چھوڑتے۔حیدرآباد میں پختونوں اور سندھیوں کے درمیان پیش آنے والے ناخوشگوار لسانی واقعات پر کچھ لوگ یہ رائے پیش کر رہے ہیں کہ سندھ میں پختونوں کا کیا کام ہے؟ ایسے اعتراضات بالعموم وہی لوگ اٹھا رہے ہیں جو خیبرپختونخوا کی جغرافیائی حیثیت سے ناواقف ہیں۔ جب ہم فردِ واحد کے عمل کو پوری قوم سے منسوب کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہمیں لسانی بے چینی کیلئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا۔ انضمام کی تحریک میں قبائلی نوجوان پیش پیش تھے مگر اب جبکہ انضمام کے ثمرات حاصل نہیں ہو رہے ہیں اور نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے جو دعوے کئے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے تو سب سے پہلے نوجوان ہی متنفر ہو رہے ہیں‘ سو اعلانات سے آگے بڑھ کر قبائلی عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کی ضرورت ہے۔
حالیہ دنوں میں بارشوں نے قبائلی اضلاع اور خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بالخصوص ٹانک اور بنوں میں تباہی مچائی ہے جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے نقصانات کے ازالے کیلئے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔ انضمام کو چار برس سے زائد کا وقت ہو چکا ہے‘ ایک طرف مقامی لوگ انضمام کے ثمرات سے محروم ہیں دوسری طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں ان کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ انضمام کا فیصلہ واپس لیا جائے‘ اس ضمن میں دیکھا جائے تو ریاست ایسے دو راہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف قبائلی عوام کی توقعات پوری نہیں ہو سکیں جبکہ دوسری طرف ٹی ٹی پی قیادت انضمام کا فیصلہ واپس لینے پر زور دے رہی ہے۔یہاں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے کہنے پر انضمام کے فیصلے کو واپس لیا جاتا ہے تو اس کے محرکات کیا ہوں گے اور اگر ٹی ٹی پی کے مطالبے کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا؟کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سخت شرائط اور قبائلی نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی سے نمٹنے کا ایک ہی حل ہے کہ تعمیر و ترقی کے ان اعلانات پر عمل درآمد کیا جائے جن کا انضمام کے وقت قبائلی عوام کو یقین دلایا گیا تھا۔