"RS" (space) message & send to 7575

سیاست میں سرپرائزکی روایت

مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سولہویں صدی کے ممتاز سیاسی مفکر نکولو میکاؤلی نے کہا تھا‘سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ پاکستان کے سیاسی حالات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ سیاست کسی دور میں بھی مفادات کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے ‘ دور ِاقتدار کے دوست الگ جبکہ اپوزیشن کے دور میں الگ دوست ہوتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اتحادی جماعتوں نے خفیہ منصوبہ بندی سے اگرچہ تحریک انصاف کو اکثریت کے باوجود ناکامی سے دوچار کر دیا ہے تاہم دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ جوڑ توڑ سے عبارت ہے۔ اکثریت کی مقابلے میں کم ووٹوں والی جماعت کامیاب ہو جاتی ہے‘ سیاسی جماعتیں غلط یا صحیح اور اخلاقیات کا خیال رکھنے کے بجائے ایسی حکمت عملی تشکیل دیتی ہیں جس سے مقصد کا حصول ممکن ہو سکے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پندرہ نشستوں پر کامیابی کے بعد تحریک انصاف وزارت اعلیٰ کی حقدار تھی اور جمہوریت کی روح بھی یہی ہے کہ جس کی اکثریت ہو وہی حکومت بنائے تاہم اتحادی جماعتوں کی اقلیت اکثریت پر غالب آ گئی اور انتخاب سے محض چند گھڑیاں پہلے پنجاب کے ایوان کے اندر چوہدری شجاعت حسین سے منسوب ایک خط کی بازگشت ہونے لگی۔ یوں جس اجلاس کی کارروائی شام چار بجے شروع ہونی تھی اس میں تاخیر ہونے لگی‘ اسی دوران پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی ایوان سے چلے گئے‘ اس پر چہ مگوئیاں ہونے لگیں‘ پھر خبر آئی کی چوہدری شجاعت حسین ایک ویڈیو ریکارڈ کرا رہے ہیں‘ کچھ ہی دیر میں مونس الٰہی واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ '' میں بھی ہار گیا‘ عمران خان بھی ہار گئے‘ زرداری جیت گئے‘‘۔ مونس الٰہی نے دراصل ان ملاقاتوں کی طرف اشارہ کیا جو گزشتہ چند روز میں زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان ہوئی ہیں۔ مونس الٰہی کے اس بیان کے بعد پایا جانے والا ابہام کافی حد تک ختم ہو چکا تھا لیکن چونکہ ووٹنگ کا عمل نہیں ہوا تھا اس لئے کوئی بات حتمی نہیں تھی۔ کچھ دیر میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا تو گنتی میں پرویز الٰہی کو 186 ووٹ پڑے تھے جبکہ حمزہ شہباز 179 ووٹ حاصل کر سکے تھے اس اعتبار سے حمزہ شہباز کو شکست ہوئی تھی مگر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کے اس خط کی بنا پر (ق) لیگ کے 10 ووٹ مسترد کر دیے جو انہوں نے ڈپٹی سپیکر کے نام لکھا تھا۔ سابق وزیر قانون راجہ بشارت نے ڈپٹی سپیکر کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کو فوقیت حاصل ہو گی جبکہ ڈپٹی سپیکر مُصر تھے کہ پارٹی سربراہ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ ڈپٹی سپیکر کے اعلان کے مطابق حمزہ شہباز کو پرویز الٰہی کے مقابلے میں تین ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی‘ تاہم تحریک انصاف نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کے مقابلے میں چوہدری شجاعت حسین ہدایت دینے کے مجاز نہیں تھے۔ اس طرح یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکرکی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے ‘ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے بظاہر تحریک انصاف کی گیم ناکام بنا دی اور ایسی خفیہ منصوبہ بندی کی گئی کہ تحریک انصاف کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی کہ کیسا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔اسے سرپرائز بھی تعبیر کیا جا رہا ہے‘ تاہم سیاست میں ایسے سرپرائزز کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف خود اقلیت کا فائدہ اٹھا کر ایسے ہی کھیل کا حصہ رہی ہے۔ مارچ 2018ء میں سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کو 33 نشستوں کے ساتھ اکثریت حاصل تھی‘ پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹ میں 20‘ تحریک انصاف کی 12 ‘آزاد امیدواروں کی 17 جبکہ جماعت اسلامی‘ اے این پی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کی بھی چند نشستیں تھیں۔ اکثریت کا خیال رکھا جاتا تو مسلم لیگ( ن) کو حق حاصل تھا کہ وہ اپنی پارٹی کا چیئرمین سینیٹ منتخب کراتی مگر ایسا نہیں ہوا‘ آصف زرداری اور عمران خان کی ملی بھگت سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو سینیٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ‘ اس کے مقابلے میں صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ صادق سنجرانی کو 57 ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے۔ خفیہ رائے شماری کی وجہ سے بہت سے نام صیغہ راز میں رہے ‘ جن سے آج تک پردہ نہیں اٹھ سکا۔ ہمارے ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخاب 2018ء میں مولانا فضل الرحمان نے بھی زرداری صاحب کی حمایت کی تھی۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر شکست کے بعد مسلم لیگ (ن) نے مقتدرہ کی مداخلت کا اشارہ بھی دیا تھا‘ دوسری طرف تحریک انصاف سمیت اس کھیل میں شامل سیاسی جماعتیں شاداں تھیں۔ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ مداخلت واضح تھی‘ مگر تحریک انصاف نے اس پرخفگی کے بجائے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں نے 2019ء میں صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی کیونکہ اپوزیشن اتحاد کو ایوان بالا میں 64 ووٹ حاصل تھے اس کی بنا پر صادق سنجرانی صاحب کو ہٹانا آسان تھا۔ یکم اگست 2019ء کو جب تحریک عدم اعتماد کے نتائج آئے تو سب حیران رہ گئے‘ کیونکہ نتائج کے مطابق اپوزیشن اتحاد کے 64ووٹ ہونے کے باوجود تحریک کے حق میں 50ووٹ آئے تھے‘ جبکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 53 ووٹ درکار تھے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ 2021ء میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کیلئے ایک بار پھر منصوبہ بندی کی گئی‘ اس وقت مسلم لیگ( ن)‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ جے یو آئی ایف اور دیگر جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔ اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی جبکہ تحریک انصاف حکومت کی طرف سے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار صادق سنجرانی تھے‘ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن اتحاد کو 52 ووٹوں کے ساتھ ایوان بالا میں برتری حاصل تھی‘ اسحاق ڈار چونکہ لندن میں تھے اس لیے ان کا ووٹ نکال کر باقی اکاون ووٹ موجود تھے۔ اس کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کو 48 ووٹ حاصل تھے‘ اس کے باوجود یوسف رضا گیلانی سات ووٹ مسترد ہونے کی بنا پر چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہار گئے‘ انہیں کل 49 ووٹ ملے‘ اس کے مقابلے میں صادق سنجرانی کو 48 ووٹ ملے ‘ مگر سات ووٹ مسترد ہونے سے یوسف رضا گیلانی کے 42 ووٹ رہ گئے۔ یوں صادق سنجرانی کو ایوانِ بالا میں تیسری مرتبہ کامیابی حاصل ہوئی۔ کچھ روز تک چہ مگوئیاں ہوتی رہیں کہ سات ووٹ مسترد ہوئے یا جان بوجھ کر ضائع کئے گئے مگر فائدہ اٹھانے والے زیر لب مسکراتے رہے اور سیاسی حریفوں کو پچھاڑنے پر خوش تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کچھ نیا نہیں ہوا۔ پہلے تحریک انصاف خوش ہو رہی تھی اب مسلم لیگ (ن) خوش ہو رہی ہے۔ یہاں چہرے بدلتے ہیں حالات نہیں بدلتے۔جہاں مقصد مقدم ہو وہاں اخلاقیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جہاں اقلیت کو اکثریت پر فوقیت دینے کا رواج زور پکڑ جائے اس معاشرے کو جمہوری نظام سے تعبیر کرنا جمہوریت کی نفی ہے۔ سیاست میں جب تک یہ کھیل چلتا رہے گا ہم جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں