"RS" (space) message & send to 7575

ٹی ٹی پی سے مذاکرات

پاکستان کے جید علما کے وفد نے گزشتہ ہفتے افغانستان کا دورہ کیا۔ یہ دورہ پاکستان میں قیامِ امن کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ علما کے اس وفد کی سربراہی مفتی تقی عثمانی کر رہے تھے‘ وہ وفاقی شرعی عدالت کے جج رہ چکے ہیں‘ جامعہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث اور وفاق المدارس العربیہ کے صدر ہیں۔ انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ عرب ممالک اور پوری مسلم دنیا میں علمی خدمات کی بنا پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دیوبند مکتب ِ فکر کے علما مفتی تقی عثمانی کو شیخ الاسلام اور استاذ کا درجہ دیتے ہیں۔ مولانا انوار الحق حقانی بھی اس وفد کا حصہ تھے‘ وہ مولانا سمیع الحق حقانی مرحوم کے بھائی اور جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم ہیں۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان قیادت کی اکثریت نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کے ہاں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی کیا اہمیت ہے۔ شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری بھی اس اہم وفد میں شریک تھے‘ وہ اشاعت التوحید و السنہ اور وحدت المدارس الاسلامیہ کے صدر ہیں‘ خیبرپختونخوا صوابی کے قریب ان کے والد مرحوم شیخ القرآن مولانا محمد طاہر کا قائم کردہ قدیم مدرسہ ہے جسے افغانستان تک علمی شہرت حاصل ہے۔ افغانستان کے دیوبند پنج پیری یہاں کے تعلیم یافتہ ہیں‘ اسی بنا پر خیبر پختونخوا کے دو علمی مراکز کو طالبان کا مادرِ علمی کہا جاتا ہے۔ اس وفد میں اگرچہ وفاق المدارس کے قاری حنیف جالندھری‘ جامعہ عثمانیہ پشاور کے مفتی غلام الرحمن اور وزیر سیفران سینیٹر طلحہ محمود سمیت کئی اہم شخصیات شامل تھیں مگر مذکورہ تین اداروں کی سرپرست شخصیات طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مؤثر ثابت ہو سکتی تھیں اس لیے انہیں افغانستان بھیجا گیا۔
جید علما کے وفد کی واپسی کے فوراً بعد خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا بیرسٹر محمد علی سیف‘ انجینئر شوکت اللہ‘ مولانا صالح شاہ‘ بخت زمین اور سینیٹر بلال رحمن پر مشتمل ایک وفد بھیجا گیا۔ صوبائی حکومت کے وفد کو افغانستان بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کے حالات‘ جو دوبارہ خراب ہو رہے ہیں‘ پر قابو پایا جا سکے کیونکہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت شدید پریشر میں ہے۔ گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح پھر عام ہونے لگی ہے‘ صوبائی حکومت کچھ لوگوں کو رعایت دینے کیلئے تیار ہے جبکہ کچھ لوگوں کے ساتھ نرمی نہ کرنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان بار بار یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ خیبر پختونخوا کی بعض اہم شخصیات شدت پسندوں کو بھتہ دے رہی ہیں۔ اگر ایمل ولی خان کے اس الزام میں حقیقت ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کس قدر دباؤ میں ہے۔
پاکستانی علما اور تحریک طالبان کی قیادت کے درمیان دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ پہلی ملاقات میں ٹی ٹی پی قیادت کے سو سے زائد افراد شریک ہوئے‘ جن کی قیادت مفتی نور ولی کر رہے تھے‘ ان کے نائب مفتی امجد‘ مولانا گل محمد‘ فقیر محمد اور ڈاکٹر حمود بھی شامل تھے۔ پاکستانی علما کے وفد اور ٹی ٹی پی قیادت کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی‘ البتہ طالبان قیادت نے پاکستان کے جید علما کو پُرتپاک انداز میں خوش آمدید کہا اور اپنے اساتذہ سے عقیدت و احترام کا اظہار کیا۔ پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے ایک مرحلے پر یہ ملاقات تقریباً ختم کر دی گئی تھی لیکن پھر شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا حسن اخوند سے ملاقات میں یہ نکتہ اٹھایا کہ ابھی تشنگی باقی ہے‘ ہم مزید ملاقاتیں کرنا چاہتے ہیں‘ لہٰذا دوسری ملاقات کا اہتمام کیا جائے۔ پاکستانی سفیر منصور احمد خان بھی اس مذاکراتی عمل میں معاونت فراہم کر رہے تھے‘ پھر افغانستان کے وزیر داخلہ سراج حقانی سے بھی ملاقات ہوئی‘ یوں ٹی ٹی پی سے دوبارہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔
ٹی ٹی پی قیادت سے ہونے والی اس دوسری ملاقات میں مفتی نور ولی اپنے قریبی رفقائے کار مفتی امجد‘ گل محمد‘ فقیر محمد اور ڈاکٹر حمود کے ساتھ شریک ہوئے۔ یوں تحریک طالبان کے پانچ رکنی وفد نے پاکستانی علماکے سترہ رکنی وفد سے ملاقات کی لیکن بات چیت کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی علما کا دورۂ افغانستان جس قدر اہمیت کا حامل تھا اس حساب سے نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ پاکستانی علما کے وفد میں کئی شخصیات کو وفد کا حصہ بنایا گیا مگر وہ کسی بھی اعتبار سے طالبان پر مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی تھیں اور افغانستان میں بھی ان کی سرگرمیاں ایجنڈے سے ہٹ کر رہی ہیں۔ وفد میں شامل بعض شرکا کا افغان وزیر تعلیم اور افغان علما سے ملاقات میں اپنے اپنے وفاق سے الحاق کی بات کرنا مذاکرات کے اصل مینڈیٹ سے ہٹنے کے مترادف ہے۔
طالبان قیادت نے قبائلی اضلاع کے انضمام کا فیصلہ واپس لینے اور تنظیم تحلیل نہ کرنے کا مطالبہ اس بار بھی دہرایا تو علما نے کہا کہ فاٹا انضمام سیاسی مطالبہ ہے‘ جس کا پورا کیا جانا ضروری نہیں ہے‘ اس پر طالبان نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ تنظیمی سرگرمیوں کے حوالے سے علما نے باور کرایا کہ معاہدے کے نتیجے میں اگر طالبان واپس آتے ہیں تو تنظیمی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکیں گے‘ اسی طرح مسلح سرگرمیوں سے بھی اجتناب کیا جائے گا۔ پاکستانی علما نے تجویز دی کہ آپ کو تنظیم اس لیے بھی تحلیل کرنی پڑے گی کیونکہ بعض امور کا تعلق بین الاقوا می امور سے ہے‘ اگر طالبان نے اپنے آپ کو بین الاقوامی طور پر منوانا ہے تو تنظیم نہ تحلیل کرنے کے مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ البتہ سکیورٹی اداروں کی طرف سے طالبان کیلئے کچھ گنجائش نکالی گئی ہے وہ یہ کہ جید علماکا وفد جب افغانستان کا دورہ کرکے پاکستان واپس پہنچا تو کور کمانڈر پشاور اور اعلیٰ حکام سے ملاقات کرائی گئی‘ جس میں علما نے یہ بات سامنے رکھی کہ طالبان کو اسلحہ رکھنے کی مشروط اجازت دی جائے‘ یعنی لائسنس یافتہ اسلحہ ہوگا اور وہ پاکستان کے آئین کی پاسداری کریں گے۔ اس موقع پر طالبان قیادت نے شکوہ کیا کہ ایک طرف ہمارے ساتھ مذاکرات کی بات کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے خلاف آپریشن کیے جاتے ہیں۔ علما کے وفد نے کہا کہ ایسا دونوں طرف سے ہوتا آیا ہے‘ طالبان کی طرف سے بھی ایسی کارروائیوں کی اطلاعات ہیں جو صریح طور پر شریعت کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔ طالبان نے تسلیم کیا کہ غیردانستہ طور پر ان سے غلطیاں ہوئی ہیں‘ اگر ریاست مذاکرات میں مخلص ہے تو مستقبل میں ایسی کارروائیوں سے اجتناب کیا جائے گا۔
طالبان قیادت کی طرف سے آئینِ پاکستان میں غیرشرعی نکات کو ختم کرنے کا نیا مطالبہ سامنے آیا ہے؛ البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ مذاکرات کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ علما کا وفد افغانستان میں ہونے والی ملاقاتوں کا احوال اعلیٰ حکام کے سامنے رکھے گا جس کے بعد اگلی ملاقات کا لائحہ عمل سامنے آ سکے گا۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے نمائندہ اور مناسب لوگوں کو وفد کا حصہ بنانا ہوگا۔ مذاکرات کے بعد علما جس نتیجے پر پہنچتے ہیں ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہو گی کہ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ منزل اگرچہ بہت دور ہے مگر بات چیت کا آغاز ہونا اہم کامیابی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں