"RS" (space) message & send to 7575

سی پیک اور مفروضے

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) نہایت اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔اسے خطے کی مجموعی خوشحالی سے تعبیر کیا جا تا ہے‘ مگر ہمارے ہاں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چین نے وسائل اور دولت کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانے اور اپنے پسماندہ علاقوں کو ترقی کے سفر میں شامل کرنے کیلئے سی پیک کا آغاز کیا تھا‘ کیونکہ چین کے مغربی علاقے مشرقی علاقوں کی نسبت ترقی میں پیچھے ہیں۔ سی پیک کا باقاعدہ آغاز چین کی طرف سے سامنے آیا ‘ مئی 2013ء میں چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اپنے دورۂ پاکستان میں اس منصوبے کی تجویز دی تھی اورمسلم لیگ( ن) کی اُس وقت کی حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کو کریڈٹ دیا جانا چاہئے کہ انہوں نے جولائی 2013ء میں چین کا دورہ کیا اور اس اہم معاہدے پر دستخط کر کے کام کا آغاز کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور ِحکومت میں سی پیک پر تسلسل اور برق رفتاری سے کام جاری رہا۔ اگست 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو کچھ ہی عرصے میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا کہ سی پیک پر کام کی رفتار پہلے جیسی نہیں رہی ۔ سی پیک منصوبوں میں جو تاخیر ہوئی ہے اس کی ذمہ دار ہماری حکومتیں ہیں‘ چین کی طرف سے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئی ہے‘ بلکہ چینیوں کو شروع میں یہاں کام کرنے میں کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ‘ منصوبے کے پہلے مرحلے میں چونکہ زمین کی خریداری کرنی تھی تو ہمارے ہاں رائج قوانین راستے میں رکاوٹ بن گئے جنہیں دور کرنے کیلئے حکومت کو مداخلت کرنا پڑی اور اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرا دیا تھا۔ تحریک انصاف حکومت کی ترجیحات اور کورونا وباسے سی پیک منصوبے معمولی تعطل کا شکار ضرور ہوئے مگر اب تمام تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ سی پیک کے دوسرے فیز پر کام جاری ہے بلکہ 88 منصوبوں میں سے 26مکمل ہو چکے ہیں جبکہ44 منصوبے 80 فیصد تک مکمل ہو چکے ہیں‘ توقع کی جا رہی ہے کہ باقی منصوبے بھی آئندہ تین سے چار سال میں مکمل ہو جائیں گے۔سی پیک کے مکمل ہونے والے منصوبوں کی مالیت 17 ارب ڈالر بنتی ہے‘ تقریباً 9 ارب ڈالر کے منصوبے زیرِ تعمیر ہیں جبکہ 28 ارب ڈالر کی تخمینہ لاگت سی پیک میں شامل کرنے کیلئے بات چیت ہو رہی ہے‘ یوں دیکھا جائے تو سی پیک کی ابتدائی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔اس وقت سی پیک کی مجموعی لاگت 65ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے حالانکہ جب منصوبے کا آغاز ہوا تھا تو لاگت کا تخمینہ 46 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔
2013ء میں جب سی پیک کے ذریعے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کی اطلاعات سامنے آئیں تو بعض سیاسی حلقوں نے اس سے غلط نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی اور اپنے تئیں یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ انویسٹمنٹ نقد مالی تعاون کی صورت میں ہو گی اور خیبر پختونخوا کی سیاسی قیادت نے اپنا حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر صوبے کا حصہ نہ دیا گیا تو سی پیک کو خیبرپختونخوا سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ ناواقفیت کی وجہ سے ایسی باتیں کی گئیں حالانکہ یہ انویسٹمنٹ عظیم منصوبے کی صورت میں ہے جس کی تکمیل کے بعد ثمرات حاصل ہونے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سی پیک کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ سی پیک کی اہمیت‘ مستقبل میں حاصل ہونے والے ثمرات اور چین کے معاشی ماڈل اور طرزِ حکومت کو سمجھنے کیلئے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ دو روزہ کانفرنس میں صحافیوں اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد سی پیک اور چین سے متعلق صحافیوں کی معلومات اور سمجھ بوجھ میں اضافہ کرنا تھا تاکہ وہ ان امور کے حوالے سے بہتر رپورٹنگ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ معروف ماہر بین الاقوامی امورڈاکٹر ہمایوں خان نے سی پیک منصوبے کے پس منظر‘ اساسی اصولوں‘ فیز ون‘ فیز ٹو‘ مستقبل کے منصوبوں اور موجودہ صورتحال سے شرکا کو آگاہ کیا۔ پاک چین دوستی کے تاریخی پس منظر‘ مثالی دوستی کی ضرورت و اہمیت‘ مختلف ادوار میں ایک دوسرے کی مدد‘ ملٹری اور تجارتی تعلقات اور سی پیک کے دوسرے فیز میں کام کی رفتار کم ہونے سے متعلق قائم تاثر پر انہوں نے شرکا کو بتایا کہ چین نے ہمیشہ عالمی فورمز پر پاکستان کی حمایت کی ہے اور جب بھی پاکستان پر کڑاوقت آیا چین نے ہماری مدد کی ہے۔پاکستان نے بھی ہمیشہ چین کا ساتھ دیا ہے۔ موجودہ معاشی بحران میں بھی چین نے پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ مصنف اور تجزیہ کار شکیل احمد رامے نے چین کے نظام حکومت‘ سیاسی ڈھانچے‘ رجحانات اور ترجیحات کے حوالے سے بتایا کہ عوامی جمہوریہ چین کی ترقی‘ ریاستی اداروں کے خدوخال و اختیارات‘ چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم‘ چینی کمیونسٹ پارٹی کے نظام و اختیارات کا دائرۂ کار کیا ہے۔ چین نے متوازن معاشرے کی تشکیل اور مستحکم معیشت کیلئے گزشتہ پانچ دہائیوں سے درست سمت میں کڑی محنت کی ہے۔ چین کی معاشی حکمت عملی میں حالات کے مطابق بتدریج بدلاؤ آتے رہے جس کی بدولت چین غربت سے پاک ریاست اور دنیا کی دوسری معیشت بن چکا ہے۔ پاک چین دوستی کی بات کی جاتی ہے مگر بحیثیت قوم ہم چین کو ابھی تک نہیں جانتے‘ چین کے معاشی ماڈل کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ان کے رہن سہن‘ عادات واطوار‘ رجحانات‘ فطرت اور ترجیحات کو سمجھیں۔ چین میں پارٹی اور حکومتی نظام کامیابی سے ایک ساتھ چل رہا ہے۔ چین نے بدعنوانی اور وسائل کے ضیاع پر قابو پایا جبکہ نااہل بیوروکریسی سے بھی جان چھڑائی۔ چین کی قیادت اس راز کو جان گئی ہے کہ کرپشن کے ہوتے ہوئے ترقی نہیں کی جا سکتی ہے۔ چین نے کرپشن کے خاتمے کیلئے ایسا نظام بنا لیا ہے کہ متعلقہ فرد کو بتائے بغیر تمام تر تحقیقات مکمل کر لی جاتی ہیں‘ اس دوران کسی قسم کا واویلا نہیں کیا جاتا‘ صرف سزا کا اعلان کیا جاتا ہے۔ چین کے برعکس پاکستان میں دیکھاجائے تو کرپشن کا واویلا زیادہ ہوتا ہے جبکہ تحقیقات کر کے شواہد پیش کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اورشواہد نہ ہونے کی بنا پر سزا کا اعلان نہیں ہو پاتا ہے۔ اسی طرح چین کی گورننس اور ترقی کا راز یہ ہے کہ اس نے نقد پیسے دے کر امداد کرنے کے بجائے روزگار کو فروغ دیا‘ نقد امداد کے صرف وہ افراد مستحق ٹھہرتے ہیں جو ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کر سکتے ۔
جس طرح چین نے اپنے مغربی علاقوں کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا۔چین نے مغربی علاقوں کی پسماندگی دور کرنے کا فیصلہ کیا اور انہیں ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے۔اس سلسلے میں مشرقی چین سے وسائل کا رخ مغربی چین کی طرف موڑا گیا۔تبت اور سنکیانگ سمیت پسماندہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے پر سرمایہ کاری کی گئی اور وہاں پر صنعتوں کے قیام کیلئے مراعات کا اعلان کیا گیا جس کی بدولت چین سے غربت اور پسماندگی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔یقینی طور پر سی پیک منصوبوں سے گوادر سمیت بلوچستان‘گلگت بلتستان اور دیگر پسماندہ علاقے ترقی کریں گے۔اگرچہ سیاسی قیادت کے بعض غلط فیصلوں کی وجہ سے پسماندہ علاقوں پر بھرپور توجہ نہیں دی جا سکی مگر اس کے باوجود عوام تک ثمرات ضرور پہنچیں گے۔گوادر بندرگاہ سے خلیجی بندرگاہوں کی اہمیت بھی کم ہوگی‘ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو لگتا ہے کہ چین کے یہاں آنے سے ان کے مفادات کو نقصان ہوگا۔ اب یہ ہماری قیادت پر منحصر ہے کہ اس منصوبے کو کس طرح عملی شکل دیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں