پاکستان کی سیاست میں برسوں سے ایک ہی کہانی دہرائی جا رہی ہے اور وہ ہے سیاسی انتقام کی کہانی ۔ وقت کے ساتھ چہرے اور افراد بدل جاتے ہیں مگر کہانی وہی رہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کی طرزِ سیاست اور رویوں میں نرمی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے حالات سے بہت کچھ سکھ لیا ہے‘ مگر چیئرمین تحریک انصاف کے لہجے کی تلخی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی انہوں نے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مخاصمت میں تمام سیاسی جماعتوں نے اتحاد قائم کر لیا ہے۔وہ اپنے تئیں یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے خلاف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ان کی مقبولیت پر دلالت کرتا ہے حالانکہ جس زعم میں عمران خان مبتلا ہیں ایسا بالکل نہیں ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت طویل عرصہ تک قید و بند کی شکار رہی ہے اس لیے دونوں جماعتیں محتاط رویہ اپنا رہی ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ مشرف نے سیاستدانوں کے احتساب کیلئے نیب کا ادارہ بنایا تھا جسے ختم نہ کرنا (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی بڑی غلط تھی۔
تحریک انصاف کو چونکہ جیل کی صعوبتوں کا سامنا نہیںکرنا پڑا اس لیے نتائج سے بے خبر ہو کر ان کے دورِ حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو جیلوں میں بند رکھا گیا۔ نواز شریف کو ایک سال سے زائد عرصہ تک پابند سلاسل کیا گیا‘ 374 دن تک وہ قید رہے‘ مریم نواز کو 158 روز تک حراست میں رکھا گیا‘ شہباز شریف کو 207 روز تک جبکہ حمزہ شہباز نے سب سے زیادہ قید کاٹی‘ انہیں 627 روز حراست میں رکھا گیا۔ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو 462 روز تک قید کیا گیا‘ رانا ثنا اللہ کو 174 روز‘ خواجہ آصف کو 176 روز‘ شاہد خاقان عباسی 222 رو اور احسن اقبال کو 64 روز تک حراست میں رکھا گیا۔ اس کے علاوہ حنیف عباسی اور دیگر (ن) لیگی قائدین کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی گرفتاری پہلے عمل میں لائی گئی تحقیقات کا آغاز بعد میں ہوا یعنی محض شک کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا‘ لیکن جب انکوائری میں کوئی بات سامنے نہ آ سکی تو اعلیٰ عدالتوں نے (ن) لیگی قیادت کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد بھی عمران خان اپنے بیانیے کو جاری رکھتے ہیں اور ان کے ماننے والے اس پر یقین بھی کرتے ہیں۔ مذکورہ شخصیات کے ٹرائل میں تحریک انصاف نے پوری ریاستی قوت کا استعمال کیا۔ جائیدادیں ضبط کر لی گئیں اور منتخب نمائندوں کے اسمبلی اجلاس کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا ۔سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت کی گئی تھی کہ گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرنے۔ جب سپیکر پر تنقید ہونے لگی اور جانبداری کا الزام عائد ہوا تو انہوں پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی قیادت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
گردشِ ایام دیکھئے کہ تحریک انصاف کو آج سیاسی انتقام کا سامنا ہے۔ شہباز گل کی گرفتاری کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا ‘ اس ایک ہفتہ کے دوران سب سے بڑا دھچکا تحریک انصاف کے مزاحمتی بیانیے کو لگا ہے‘ لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف دباؤ کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی ۔ پریشر میں عمران خان جو انکشافات کر رہے ہیں وہ ان کے ماضی کے مؤقف کے برعکس ہے۔ عمران خان نے کہا کہ نیب پر ان کا کنٹرول نہیں تھا۔ نیب پر کنڑول نہ ہونے کے بیان سے دراصل سیاسی جماعتوں کے اس بیانیے کو تقویت ملتی ہے کہ خان صاحب کی حکومت سلیکٹڈ تھی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عمران خان اب بھی نیوٹرلز کو مخاطب کر کے غلطی سدھارنے کا کہہ رہے ہیں۔ اگر ماضی میں اختیار کا محور نیوٹرلز تھے اور وہی سارے کام کرتے رہے ہیں تو پھر عمران خان کی کپتانی کا دعویٰ کس حد تک درست ہے؟عمران خان یہ بات جان گئے ہیں کہ بیساکھیوں کے بغیر وہ اقتدار میں نہیں آ سکتے ‘ وہ چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہوجو طریقہ کار بھی اختیار کیا جائے انہیں دوبارہ حکومت مل جائے‘ عملی طور پر ایسا ہونا اب آسان نہیں ہے کیونکہ نیوٹرلز واقعی غیر جانبدار ہیں جبکہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد وہ مقبولیت کے بعد تنہا کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاستدانوں کے ساتھ وہ مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اداروں کی بے توقیری کر کے مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے؟
شہباز گل کی گرفتاری کے بعد پاکستان کی تاریخ میں کچھ ایسا ہوا ہے جو پہلے نہیں ہو ا تھا۔اختلافات اور سیاسی انتقام تقریباً ہر دور میں چلتا رہا ہے‘ تاہم صوبے اور وفاق آمنے سامنے نہیں آئے تھے مگر ان حالات میں یہ بھی ہو چکا ہے اس لئے اس کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔ بغاوت کیس میں شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا تاہم عمران خان نے زور دیا کہ پنجاب حکومت شہباز گل کو بچانے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ قومی سطح کے لیڈروں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ وفاق اور صوبے کو مخاصمت کی طرف لے جائیں‘ مگر انہوں نے پنجاب حکومت کو مجبور کیا تو انہوں نے پنجاب پولیس کو اڈیالہ جیل سے شہباز گل کو لانے کی ہدایت کر دی‘ مگر وہاں اسلام آباد پولیس نے مزاحمت کی‘ یوں اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس آمنے سامنے آ گئے۔ اسی دوران رینجرز حرکت میں آئی اور مداخلت کی تو پنجاب پولیس واپسی پر مجبور ہوئی۔ اگر خان صاحب دانشمندی سے کام لیتے تو یہ نوبت قطعی نہیں آنی چاہئے تھی۔ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے اس کا نقصان بھی انہی کو اٹھانا ہو گا۔ شہباز گل کی گرفتاری پر تحریک انصاف نے ضرورت سے زیادہ ردعمل کا اظہار کر دیا ہے۔اس ردعمل کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر وفاقی حکومت مزید گرفتاریوں کا ارداہ رکھتی ہے تو اس سے باز رہے۔عمران خان کی ریلی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ خان صاحب گرفتاریوں کا قانونی جواب پیش کرتے ہیں اور اسی طرح ڈٹ کر مقدمات کا سامنا کرتے جیسے ان کے حریفوں نے کیا تھا۔ تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ اعصاب شکن سیاسی کھیل میں عمران خان پہلے مرحلے میں چاروں شانے چت ہو گئے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد توقع تھی کہ اب ملک میں سیاسی استحکام آ جائے گا اور ملک مالی بحران سے باہر نکل جائے گا مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اب یہ خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف کیسز بنا کر قائدین پر تشدد کیا گیا تو اسے جواز بنا کر ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت بھی ماورائے قانون اقدامات اٹھانے شروع کر دے۔شہباز گل کی زبان ایسی رہی ہے کہ الامان الحفیظ مگر انسانی ہمدردی اور قانون کی پاسداری بہرصورت لازم ہے۔اس کیس سے جو تاثر قائم ہو رہا ہے یہ اتحادی حکومت کے تشخص کو مجروح کر ے گا ۔ خیبرپختونخوا صوبہ پنجاب سے پہلے ہی وفاق سے شاکی ہے۔ وفاق بھی کے پی سے دوریاں اختیار کئے ہوئے ہے ‘اگر سیاسی مخاصمت کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں تو اس کے اثرات دیر تک قائم رہیں گے۔ سیاستدانوں کی یہ لڑائی وفاق کی اہمیت ختم کر دے گی۔ سیاستدانوں نے بروقت اس کا تدارک نہ کیا تو معیشت سنبھلنا تو درکنار وفاقیت اور جمہوریت کے خطرے میں پڑ جانے کے اندیشے بھی پیدا ہوں گی۔