"RS" (space) message & send to 7575

خیبرپختونخوا‘ پی ٹی آئی کے ہاتھ سے ریت سرکنے لگی

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ قد آور سیاسی لیڈر تحریک انصاف کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں تحریک انصاف میں اپنا سیاسی مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کے ایم پی اے سلطان محمد خان نے عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں پی کے 58 چارسدہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان کو شکست دی تھی۔ اسی طرح پشاور سے رکن اسمبلی محمد فہیم نے بھی عمران خان سے راہیں جدا کر لی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 20 صوبائی اراکینِ صوبائی اسمبلی میرے ساتھ رابطے میں ہیں جو تحریک انصاف کو چھوڑنے کیلئے تیار ہیں اور اشارہ ملتے ہی وہ تحریک انصاف کو چھوڑ دیں گے۔
ایک طرف خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف نیچے آ رہا ہے جبکہ دوسری طرف خیبر پختونخوا کو سکیورٹی مسائل کا سامنا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک سے جمعیت علمائے اسلام کے میئر صدام حسین بیٹنی کی ڈیوٹی پر تعینات پولیس کی وین پر فائرنگ سے چار افراد جاں بحق ہو گئے ہیں؛ تاہم میئر محفوظ رہے۔ جے یو آئی کے قائدین مسلسل عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں‘ محض چند ماہ کے دوران ایک درجن کے قریب شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ پچھلے دنوں قبائلی اضلاع کے دورے کے دوران معلوم ہوا کہ مہمند‘ باجوڑ اور وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی تشکیل ہو رہی ہے۔ ان اضلاع میں لوگوں سے ملاقات کے دوران عمران خان سے ناراضی کو واضح طور پر محسوس کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں صوبائی حکومت مخمصے کا شکار ہے کہ ان حالات سے کیسے نمٹا جائے۔ قبائلی اضلاع کے ساتھ ساتھ ہزارہ بیلٹ میں بھی تحریک انصاف کی گرفت کمزور ہو رہی ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ ہزارہ ڈویژن تحریک انصاف کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اس وقت ایوب میڈیکل کمپلیکس سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے‘ مریضوں کے بیڈ پانی میں تیر رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایبٹ آباد کی مشکلات کا ادراک کرکے تدارک کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں سکیورٹی کے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں یقینا سکیورٹی اداروں کی اس پر نظر ہو گی لیکن ہمیں کوئی خاص سرگرمی دکھائی نہیں دی جسے دیکھ کر کہا جا سکے کہ لوگوں کی جان و مال کو محفوظ بنانے کیلئے بندوبست کر لیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو دس برس ہونے کو ہیں۔ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جسے مسلسل دو بار صوبے میں حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں تیسری بار بھی اسی کی حکومت قائم ہو گی مگر اس ضمن میں زمینی حقائق تحریک انصاف کے حق میں سازگار دکھائی نہیں دیتے ہیں کیونکہ 2023ء سے پہلے عام انتخابات کے آثار دکھائی نہیں دے رہے اور انتخابات سے قبل الیکٹ ایبلز نے تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنا شروع کر دی ہیں۔ ذرا تصور کریں جس طرح 2018ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل جنوبی پنجاب میں الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کرکے جیت کی راہ ہموار کی گئی تھی اگر آئندہ عام انتخابات میں الیکٹ ایبلز کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے سے نکل گیا تو نتائج کیا ہوں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معروضی سیاست میں سیاسی خاندانوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ یہ چنیدہ خانوادے اپنا وزن جس پلڑے میں ڈال دیں‘ اس کی جیت یقینی ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مگر مقبولیت کے سحر سے نکل کر سوچنے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ حکومت نے صاف شفاف الیکشن نہ کرائے تو عوام سڑکوں پر پُرامن احتجاج کرکے زبردستی الیکشن کرائیں گے۔ جب تمام تر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر زبردستی انتخابات کرائے جائیں گے تو وہ پُرامن کیسے ہوں گے؟
عمران خان جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں قومی اداروں پر بھی اعتماد کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار ادارہ ہے جو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کا ذمہ دار ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے تعینات کرتے ہیں۔ جنوری 2020ء میں موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تعیناتی عمل میں لانے سے پہلے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی باہمی مشاورت ہوئی اور شہباز شریف سے زیادہ عمران خان کی خواہش تھی کہ سکندر سلطان راجہ کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا جائے‘ مگر اب خود ہی وہ چیف الیکشن کمشنر پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اپریل 2022ء میں عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا گیا تو انہوں نے چند روز بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دیا۔ اس دوران تحریک انصاف نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے بروقت حلقہ بندیاں نہ کرکے نااہلی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث ملک میں قبل از وقت انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔ ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ 29 جولائی کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین سے ان کے دفتر میں ملاقات کی تاکہ ان پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کیلئے دباؤ ڈالا جائے۔ تحریک انصاف نے مؤقف اختیار کیا کہ اس ملاقات کے نتیجے میں ہی الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنایا ہے؛ تاہم اگست 2022ء میں تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف دائر ریفرنس واپس لے لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو جب یقین ہو گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ سنانے والا ہے تو انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے کے ایک روز بعد تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اس دوران عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ نیوٹرلز کے کہنے پر سکندر سلطان راجہ کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا جس کی انہوں نے گارنٹی دی تھی۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ سکندر سلطان راجہ کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنا بڑی غلطی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان خلفشار کا شکار دکھائی دیتے ہیں‘ جو کبھی ایک مؤقف اختیار کرتے ہیں اور ابھی اس کے دلائل پورے نہیں ہوتے کہ نیا مؤقف پیش کر دیتے ہیں۔ وہ تضادات کا مجموعہ بن چکے ہیں‘ ایسے حالات میں اگر وہ کارکنوں کو زبردستی الیکشن کرانے کی ہدایت دے رہے ہیں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کس قدر مقبول ہیں اس بارے تو ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے‘ البتہ پورے وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں کچھ ایسا ہو رہا ہے جس پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا بالکل کنٹرول نہیں ہے۔ اگر الیکشن تک صورتحال یونہی رہی تو غالب امکان ہے کہ تحریک انصاف بہت کچھ کھو دے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں