"RS" (space) message & send to 7575

آخری کال

پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے ایک اجلاس کے اندرونی احوال کے مطابق پارٹی رہنما اس وقت ایک پیج پر نہیں ہیں۔ خان صاحب نے بعض اراکین سے برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے جماعت کے کچھ اراکین مقتدر حلقوں سے ملے ہیں۔ انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو یہ تنبیہ بھی کی کہ وہ انہیں بائی پاس کرنے کی کبھی کوشش نہ کریں۔ عمران خان نے جن رہنماؤں کا نام لیے بغیر ان کے مقتدر حلقوں کے ساتھ ملنے کی طرف اشارہ کیا‘ کیا ان میں پنجاب کے اہم اتحادی چودھری پرویز الٰہی بھی شامل ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ سے پنجاب حکومت نکل سکتی ہے۔ دوسری طرف غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں کون عمران خان کو بائی پاس کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما برملا اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں۔ اس غیر جمہوری گٹھ جوڑ پر وہ ہمیشہ فخر کرتے رہے بلکہ جب اپریل میں عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے جمہوری طریقے سے ہٹایا گیا تب بھی وہ مقتدر حلقوں کو مخاطب کرکے کہتے رہے کہ اگر اُن سے غلطی ہو گئی ہے تو اس کی تصحیح کر لی جائے۔ اصل صورتحال مگر یہ ہے کہ عمران خان خود مقتدر حلقوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور چند روز قبل اسلام آباد میں کچھ اہم ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں مگر پارٹی رہنماؤں یا اتحادیوں کو اس کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کے مزاحمتی رویے سے پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کیلئے مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے جو عمران خان کے مقتدرہ کے حوالے سے نرم رویے سے متاثر ہو کر جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ اگر عمران خان مقتدرہ مخالف رویے پر قائم رہتے ہیں تو آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کے کئی اراکین اپنی راہیں ان سے جدا کر سکتے ہیں۔ عمران خان بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہو کر دوبارہ اقتدار تک رسائی چاہتے ہیں‘ وہ مزاحمتی رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں اور مقتدر حلقوں کے ساتھ روابط بھی قائم کر رہے ہیں۔
خان صاحب اب گزشتہ چند روز سے احتجاج کی ''آخری کال‘‘ دینے کی مہم چلا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی انہوں نے رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ آخری کال سے پہلے تمام تنظیمیں فعال ہونی چاہئیں۔ شنید ہے کہ عمران خان اس آخری کال میں بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت کنفیوژن کا شکار ہے کہ انہیں اس آخری کال کے حوالے سے کوئی باقاعدہ پروگرام ابھی تک نہیں دیا گیا ہے‘ کارکنان بھی اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ تحریک انصاف کے کارکنان اب تھک چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عمران خان اپریل میں وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے ملک بھر میں بھرپور جلسے کر رہے ہیں‘ بلاشبہ انہوں نے اس دوران کراچی سے خیبر تک بڑے بڑے سیاسی جلسے تومنعقد کیے ہیں؛ تاہم کارکنان کو کوئی واضح گائیڈ لائن نہیں دی گئی کہ انہوں نے کرنا کیا ہے۔ ہماری دانست میں عمران خان کے پاس ابھی تک کوئی واضح پروگرام نہیں ہے‘ وہ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی قوت حرکت میں آئے اور انہیں اقتدار دلا دے۔ یوں جب خود عمران خان کے پاس کوئی پروگرام موجود نہیں ہے تو وہ پارٹی رہنماؤں یا کارکنان کے سامنے کیا پیش کریں گے؟ 2013ء میں بھی جب خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قائم ہوئی تو اسے ہدایت کی گئی کہ بنی گالا سے مثالی حکمرانی کی گائیڈ لائن دی جائے گی‘ صوبائی حکومت چھ ماہ تک انتظار کرتی رہی مگر بنی گالا سے کوئی رہنمائی فراہم نہ کی گئی کیونکہ عمران خان اس دوران بھی وفاق میں حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ خیبرپختونخوا قیادت کے رابطہ کرنے پر انہیں بتایا گیا کہ بنی گالا سے انہیں کوئی پروگرام فراہم نہیں کیا جائے گا‘ آپ خود ہی حکومت چلائیں۔ یوں بنی گالا کے پروگرام کے انتظار میں صوبائی حکومت کے چھ ماہ ضائع ہو گئے۔
2018ء میں تحریک انصاف کی وفاق اور تین صوبوں میں حکومت قائم ہوئی تو حکومتی منصوبہ بندی اور پروگرام کا فقدان نمایاں طور پر محسوس کیا گیا۔ دعویٰ تھا کہ حکومت میں آتے ہی معیشت سنبھل جائے گی‘ کرپشن ختم ہو جائے گی مگر زمینی حقائق یہ تھے کہ معتمدِ خاص اسد عمر کو جلد ہی وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ بقول عمران خان اسد عمر ان کی امیدوں پر پورا نہیں اترسکے تھے۔ اسد عمر کی ناکامی کی بڑی وجہ دراصل تحریک انصاف کے پاس کسی ٹھوس معاشی پروگرام کا موجود نہ ہونا تھا۔ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ عوام کو پچاس لاکھ گھر بنا کر دیں گے لیکن پونے چار سالہ دورِ حکومت میں محض چند ہزار گھر ہی بن پائے۔ حکومت میں آنے کے بعد جب عمران خان کو بتایا گیا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کیلئے اتھارٹی کا قیام اور اس مقصد کیلئے پارلیمنٹ سے قانون سازی ضروری ہے تو کہا جاتا ہے کہ خان صاحب یہ سن کر حیران رہ گئے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنی مرضی سے منصوبوں کا آغاز کر سکیں گے۔ یوں ڈھائی سے تین سال تک نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم پر کوئی کام نہ ہو سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب وہ انتخابی مہم کے دوران پچاس لاکھ گھر دینے کی بات کر رہے تھے تو ان کی اس حوالے سے منصوبہ بندی مکمل ہونی چاہیے تھی تاکہ حکومت قائم ہوتے ہی اس حوالے سے فوری کام شروع ہو جاتا اور حکومت ختم ہونے پر یہ منصوبہ مکمل یا تکمیل کے آخری مراحل میں ہوتا مگر پروگرام اور منصوبہ بندی کا فقدان تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔
خان صاحب نے سیاست میں مذہبی کارڈ بھی خوب استعمال کیا۔ انہوں نے ریاستِ مدینہ کا نعرہ تو لگایا مگر فلاحی ریاست کے قیام میں کوئی عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔ عمران خان سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والے تنہا سیاستدان نہیں ہیں بلکہ ان کے حریف بھی بڑی کامیابی سے یہ کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ سیاسی حریفوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مخالفین کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے کی مذمت ہونی چاہیے کیونکہ جب سیاسی قائدین اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہیں تو اُن کے کارکنان بھی ان کی تقلید کرنے لگتے ہیں۔
عمران خان کا مطمح نظر اس وقت فوری انتخابات ہیں جبکہ حکومت میں شامل جماعتیں کہہ چکی ہیں کہ انتخابات اپنے وقت ہی پر ہوں گے۔ خان صاحب کے ہاتھ میں بظاہر اس وقت کچھ نہیں ہے کہ وہ فوری انتخابات کروا سکیں۔ وہ آخری کال کی بات کارکنان کو متحرک رکھنے کے لیے کر رہے ہیں تاکہ جب عام انتخابات کا اعلان ہو تو ان کی تیاری مکمل ہو۔ اتحادی جماعتیں جانتی ہیں کہ موجودہ حالات میں جبکہ ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے‘ تحریک انصاف کا احتجاج بھی کارگر ثابت ہونے والا نہیں ہے کجا کہ نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے‘ نہ ہی معاشی حالات نئے الیکشن کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ان حالات کے ساتھ اگر سیاسی جماعتیں نئے الیکشن میں جاتی ہیں توان کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ‘ لیکن اتحادی حکومت مہنگائی و معاشی بحران پر قابو پا لیتی ہے تو تحریک انصاف کے پاس بیچنے کیلئے کچھ نہیں ہو گا؛تاہم اگر معاشی بحران جاری رہا تو اتحادیوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کیلئے یہی کافی ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں