"RS" (space) message & send to 7575

معافی یا بندوبستی سمجھوتہ؟

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے عدالت سے معافی مانگ لی ہے، یار لوگ اس پر شاداں ہیں حالانکہ وہ پہلی دو سماعتوں پر معافی نہ مانگنے پر سینہ سپر تھے کہ خان صاحب اپنے مؤقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ خان صاحب پر ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کا کیس تھا، ابتدا میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہی جس پر معافی مانگیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی فراہم کیا مگر جب فردِ جرم عائد کئے جانے کا سرکلر جاری ہوا تو انہوں نے معافی مانگ لی اور کہا کہ وہ خاتون جج کے پاس جا کر معافی مانگنے کیلئے تیار ہیں۔ خان صاحب کے مؤقف میں اچانک کیسے تبدیلی آئی، کیا انہوں نے فردِ جرم عائد ہونے کے خوف سے معافی مانگی ہے یا نئی سیاسی حکمت عملی ہے؟ زبانی کلامی معافی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا خان صاحب غیر مشروط معافی پر مبنی بیانِ حلفی جمع کرائیں گے؟ خان صاحب کو عدالت سے وقتی ریلیف ملا ہے یا خطرہ ابھی باقی ہے؟ ان سوالات کے جواب اگلی پیشی اور بیانِ حلفی جمع کرانے پر منحصر ہیں کیونکہ اگر خان صاحب غیر مشروط معافی مانگتے ہیں تو قانونی ماہرین کی نظر میں وہ اعتراف ِجرم تصور کیا جائے گا جس کی بنا پر سزا کے قوی امکانات ہیں۔
ماضی قریب میں توہین عدالت کے تین کیسز کے فیصلے ایسے ہیں جنہیں بطور نظیر پیش کیا جاتا ہے ۔ 31 مئی 2017ء کو مسلم لیگ( ن) کے رہنما اور سینیٹر نہال ہاشمی کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں انہوں نے جذباتی تقریر کے دوران عدلیہ مخالف دھمکی آمیز الفاظ استعمال کئے تھے۔ بعدازاں احساس ہونے پر انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی ، تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر نوٹس لیا اور نہال ہاشمی کی معافی کو قبول نہیں کیا تھا۔ یکم فروری 2018ء کو سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ایک ماہ کی قید، پچاس ہزار روپے جرمانہ جبکہ پانچ سال کیلئے کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دے دیا۔ دواگست 2018ء کو لیگی رہنما طلال چوہدری کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دے کر پانچ سال کیلئے نااہل قرار دیا گیا، ان پر عدلیہ مخالف تقاریر کرنے کا مقدمہ تھا۔ 28جون 2018ء کو لیگی رہنما دانیال عزیز کو توہین عدالت کیس میں پانچ سال کیلئے نااہل قرار دیا گیا، ان کے خلاف بھی عدلیہ مخالف گفتگو کا کیس تھا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی اور دیگر رہنماؤں کو توہین عدالت کیس میں سزائیں دی جا چکی ہیں۔
توہین عدالت کیس میں خان صاحب کو ریلیف ملنے کے بعد یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ خان صاحب نے اندرون خانہ سمجھوتہ کر لیا ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوتا چلا جائے گا، عین ممکن ہے آنے والے کچھ دنوں میں اسحاق ڈار کی واپسی بھی ہو جائے۔ احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو فوری گرفتار کرنے کے دائمی وارنٹ گرفتاری 7 اکتوبر تک معطل کر دیے ہیں، اسلام آباد پولیس کو لیگی رہنما کو وطن واپسی پر گرفتار کرنے سے روک دیا گیا ہے جس کے بعد اسحاق ڈار کی ملک واپسی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ امکان ہے کہ ایک ہفتے میں اسحاق ڈار ملک واپس آ جائیں گے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق معاشی ناگفتہ بہ صورتحال پر بھی کوئی سمجھوتہ ہوا ہے اور خان صاحب مبینہ طور پر اس کا حصہ ہیں۔
اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے اسحاق ڈار ہی نکال سکتے ہیں۔ ان جماعتوں کے مفتاح اسماعیل پر تحفظات ہیں کہ وہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کو کنٹرول نہیں کر پائے۔اسحاق ڈار کے بقول ڈالر کی قدر میں اضافہ مصنوعی ہے جسے اب بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اتحادی حکومت میں شامل مولانا فضل الرحمان اور پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ چونکہ وزیر خزانہ مسلم لیگ( ن) سے ہو گا اس لئے بہتر ہے کہ مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر اسحاق ڈار کو خزانہ کا قلمدان دے دیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ دنوں آئی ایم ایف معاہدے پر بھی شدید تنقید کی تھی۔ اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر معاشی بحران پر قابو نہ پایا گیا تو ان کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور آئندہ الیکشن میں کامیابی مشکل ہو جائے گی۔ اتحادی جماعتوں کو مفتاح اسماعیل پر اس لئے بھی اعتماد نہیں رہاکہ انہوں نے مہنگائی میں اضافے اور آئی ایم ایف کی ایما پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی مہنگی کرنے کی تھیوری پیش کر تے ہوئے کہا تھا کہ عوام کو تین ماہ کے بعد ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا، تاہم چھ ماہ گزرنے کو آئے مگر ریلیف نہیں ملا‘ بلکہ معاشی بحران دوچند ہو گیا تو اتحادی جماعتوں نے وزیر خزانہ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ مفتاح اسماعیل سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا گیا ہے اور جب اسحاق ڈار کی واپسی ہو گی تو بہت کچھ معمول پر آ چکا ہو گا۔ اس ضمن میں بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ کیا اسحاق ڈار ملک کو معاشی بحران سے باہر نکال پائیں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کے جارحانہ رویے میں تبدیلی، عدلیہ سے ریلیف ، سیاسی حریفوں کیلئے واپسی کی گنجائش اور اس پر خان صاحب کی خاموشی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے پارلیمان میں جا کر کردار ادا کرنے کا مشورہ بھی اسی بندوبست کا حصہ ہو سکتا ہے۔ شاید عمران خان یہ بات جان گئے ہیں کہ چھ ماہ تک انتخابات نہیں ہو سکتے ہیں‘ بلکہ ایسے حالات میں انتخابات کا مطالبہ کرنا بھی صائب نہیں کیونکہ ملک کی ایک تہائی آبادی سیلاب سے متاثر ہے جس کی ضروریات پوری کرنا ایک چیلنج ہے۔ قوی امکان ہے کہ ز مینی حقائق سامنے آنے کے بعد خان صاحب نے سیاسی حکمت عملی تبدیل کر لی ہو کہ نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کی طرح بہادر بن کر کچھ عرصہ کیلئے میدان سے باہر ہونے کے بجائے طوفان گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ خان صاحب نے ستمبر کے آخری ہفتے لانگ مارچ کا عندیہ دیا تھا، اس حوالے سے کارکنان کو تیار رہنے کی ہدایت بھی دی گئی تھی، تاہم لانگ مارچ کی تیاریاں کسی بھی سطح پر دکھائی نہیں دے رہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سمجھوتہ کے تحت خان صاحب نے لانگ مارچ کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ خان صاحب کو شاید یہ بات بھی سمجھ آنے لگی ہے کہ اتحادی حکومت نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کا مقدمہ عالمی سطح پر احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ دنیا کو باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان کو آلودگی پھیلانے والے بڑے ممالک کی صنعتی ترقی کی سزا ملی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس کا اعتراف کیا ہے اور بڑے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کو مشکل کی اس گھڑی میں تنہا نہ چھوڑے۔ ایسے حالات میں جب پوری دنیا پاکستان کی طرف متوجہ ہے اور سیلاب کی تباہی ایجنڈے میں سرفہرست ہے تو خان صاحب کا لانگ مارچ غیر مقبول فعل قرار پائے گا۔ اس وقت پاکستان کو فنڈز کی اشد ضرورت ہے اور عالمی برادری کی طرف سے فنڈز مہیا بھی کئے جا رہے ہیں۔ دنیا پاکستان کی اپیل کو سنجیدہ لے رہی ہے اگر خان صاحب نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لانگ مارچ کے ذریعے سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے فنڈز کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو ان کا یہ عمل ملک و قوم اور سیلاب متاثرین کی تعمیر نو کی سرگرمیوں کے خلاف سمجھا جائے گا۔ ہماری دانست میں خان صاحب ایسے کسی بھی اقدام سے حتیٰ الامکان گریز کریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں