"RS" (space) message & send to 7575

تضادات کا مجموعہ

پچھلے کئی روز سے سوات اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج جاری ہے‘ سوات کے نشاط چوک میں لوگوں کا مجمع مطالبہ کر رہا ہے کہ علاقے میں قیام امن کے لیے انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں‘ ریاست بدامنی کو دوبارہ پنپنے کا موقع نہ دے۔ سوات میں احتجاج کی وجہ گزشتہ دنوں پیش آنے والے دہشت گردی اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہے۔ مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری میں اضافہ سے وہ بے حد پریشان ہیں یہی وجہ ہے کہ سوات کے نشاط چوک‘ خوازہ خیلہ کے مٹہ چوک اور شانگلہ کے الپوری چوک میں احتجاجی دھرنے میں بھتہ خوری کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ شہریوں کے جان و مال اور کاروبار کو محفوظ بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر تحریک انصاف جو گزشتہ نو برسوں سے خیبرپختونخوا میں اقتدار میں ہے وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔نہ صرف ناکام بلکہ وزیراعلیٰ محمود خان سمیت تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں پر الزام ہے کہ وہ عسکریت پسند عناصر کو بھتہ دیتے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کا تعلق سوات کے علاقہ مٹہ سے ہے‘ ان کے حلقہ کے عوام بدامنی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں مگر انہیں اپنے حلقے میں جانے کی توفیق نہیں ہو رہی۔ انہوں نے بڑی مہارت سے سوات میں امن کے لیے ہونے والے احتجاج سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ سوات میں امن جلسے میں ہزاروں افراد کی شرکت سے ثابت ہوا کہ تحریک انصاف کو عوامی حمایت حاصل ہے‘ ہم امن چاہتے ہیں‘ ملکی سالمیت اور آئین کی پاسداری کی خاطرکسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ سوات میں احتجاج کرنے والے اگر تحریک انصاف کے حمایتی ہیں تو پھر وہ احتجاج کس کے خلاف کر رہے ہیں؟ وزیراعلیٰ نے ساری ذمہ داری وفاق پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ سوات میں بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور قتل کی وارداتوں میں اضافے کی ذمہ داری وفاق پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ مذکورہ علاقے وفاق کے نہیں بلکہ صوبے کے کنٹرول میں ہیں‘ خیبرپختونخوا حکومت آج امن کوششوں میں شامل افراد کے احتجاج کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ کچھ عرصہ تک صوبائی حکومت نے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالے رکھا اور عسکریت پسندوں کے حوالے سے سرگرمیوں کی مکمل تردید کی تاکہ صوبائی حکومت کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے‘ تاہم جب دو ماہ قبل عسکریت پسندوں نے سوات کے ڈی ایس پی اور دو سکیورٹی افسران کو یرغمال بنا کر ان کی ویڈیو جاری کی تو ہلچل مچ گئی کیونکہ اب معاملے پر مزید پردہ ڈالنا آسان نہیں تھا۔ پھر امن کمیٹی کے سربراہ ادریس خان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں تقریباً نو افراد جاں بحق ہوئے ۔سوات بائی پاس کے قریب باپ بیٹے کا قتل اور سکول وین پر حملے کے بعد احتجاجی تحریک میں شدت آ گئی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں حکومت روزِ اول سے باخبر تھی اور معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف کے مطابق طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے‘ گفت و شنید جاری ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اندرون خانہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے‘ ایسے حالات میں بدامنی کے واقعات صوبائی حکومت کی ناکامی ثابت کرتے ہیں۔
البتہ سوات میں بدامنی کے تناظر میں اب دو کام اچھے ہوئے ہیں‘ ایک یہ کہ عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت میں کمی آئی ہے بلکہ مقامی افراد کے مطابق سوات سے مسلح افراد واپس افغانستان جانا شروع ہو گئے ہیں‘ کئی پہاڑی علاقے خالی کر دیے گئے ہیں۔ دوسری اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت نے سوات اور مالاکنڈ میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر اعلیٰ سطحی اجلاس میں تشویش اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کو دوبارہ پنپنے نہیں دیں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اپیکس کمیٹی کی تشکیل‘ نیکٹا کو فعال کرنے اور انسداد دہشت گردی کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اہم اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت آرمی چیف اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ قومی اسمبلی کے ممبر محسن داوڑ اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین بھی شریک تھے۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے وفاقی اور صوبائی سطح پر انسداد دہشت گردی کے نظام کو از سرنو متحرک کرنے اور مرکزی سطح پر وزیراعظم کی زیر قیادت اپیکس کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے دہشت گردی پر قابو پانا اور صوبوں کے تحفظات کو دور کرنا آسان ہو جائے گا کیونکہ دہشت گردی کا معاملہ بہر صورت قومی معاملہ ہے‘ اسے قومی سطح پر ہی حل ہونا چاہئے۔
تحریک انصاف جس طرح صوبائی سطح پر ناکام ہوئی ہے اسی طرح قومی سطح پر بھی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ناکامی واضح ہے۔ بھلا کون قومی راز کو اس طرح چوک چوراہوں پر لاتا ہے‘ مگر عمران خان یہ بھی کر گزرے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد جب وفاق اور تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان پر سلیکٹڈکا الزام عائد کیا‘ تحریک انصاف کے رہنما مگر اس کا جواب یہ دیتے کہ ہیئت مقتدرہ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما اس مؤقف پر زیر لب مسکراتے بھی تھے۔ شاید وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ مقتدرہ اور تحریک انصاف کا گٹھ جوڑ طویل عرصہ تک چلے گا اور یہ کہ اپوزیشن کے لیے اس کا مقابلہ آسان نہ ہو گا‘ اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان قومی اداروں کو ٹارگٹ پر رکھے ہوئے ہیں ۔ چند روز پہلے ان کا کہنا تھا کہ آدھا اقتدار بھی ملتا تو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کرتے‘ انہوں نے کہا کہ ذمہ داری میری جبکہ پاور کسی اور کے پاس تھی۔ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد خان صاحب کے مؤقف میں تبدیلی کو قول و فعل کا تضاد کہا جائے گا۔سب سے پہلے یہ سوال ہو گا کہ جب آپ کے پاس پاور نہیں تھی تو پھر ایک پیج پر ہونے کی گردان کیوں کرتے رہے؟ جب حکومت میں تھے تو اپنی بے بسی کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ سچی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب اقتدار کی خواہش میں تصادم کا راستہ اختیار کر چکے‘ پچھتر سالہ ملکی تاریخ میں قومی سلامتی سے متعلق جو امور کبھی سامنے نہ آ سکے وہ خان صاحب ایک کے بعد ایک عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں‘ حالانکہ انہیں وفاق‘ صوبوں اور گلگت و آزاد کشمیر ‘جہاں بھی حکومت کا موقع ملا ان کی حکومتی ناکامی ثابت ہو چکی ہے۔تبدیلی کا سحر ٹوٹ چکا ہے‘ شفافیت سے متعلق ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں‘ خان صاحب حریف سیاسی جماعتوں پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ان کے قریبی رفقا قومی خزانے کو لوٹتے رہے ہیں مگر سابق خاتون اول کی قریبی دوست کے معاملے میں ان کا مؤقف نہ صرف مختلف ہے بلکہ وہ ان کا بھر پور دفاع کر رہے ہیں۔
خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار سپر پاور امریکہ کو ''ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہا‘ مگر دوسری طرف بقول ان کے وہ بے اختیار وزیراعظم تھے۔سپر پاور کو ایبسولیوٹلی ناٹ کہنے والا شخص اپنی مقتدرہ کے سامنے بے بس ہو گیا؟ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خان صاحب تضادات کا مجموعہ بن چکے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں