"RS" (space) message & send to 7575

پاکستان کی کابل سے توقعات

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعہ کے روز نماز کی ادائیگی کے بعد پاکستان کے ہیڈ آف مشن عبیدالرحمان نظامانی کو نشانہ بنایا گیا‘ جس میں وہ محفوظ رہے ہیں تاہم ان کے سکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوئے ہیں۔ عبیدالرحمان نظامانی نے ایک ماہ قبل ہی افغانستان میں ناظم الامور کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے طالبان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ناخوشگوار واقعے کی مکمل تحقیقات‘ مجرموں کو پکڑنے‘ ان کا محاسبہ کرنے اور افغانستان میں پاکستانی سفارتی عملے کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔ اگست 2021ء کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد جب کابل پر طالبان کا کنٹرول ہوا تو کئی ممالک نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لئے تھے مگر پاکستان ان ممالک میں سے ہے جنہوں نے مشکل حالات کے باوجود افغانستان میں اپنا سفارت خانہ قائم رکھا۔ نوے کی دہائی میں بھی جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو صرف پاکستان‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے بلکہ دنیا کے سامنے افغانستان کا مقدمہ رکھا‘ انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان نے افغانستان کو درپیش مالی مسائل کو اجاگر کیا اور ممکنہ حد تک فنڈز اکٹھے کر نے میں افغانستان کا ساتھ دیا۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت افغان عوام کی مدد کے لیے پوری دنیا میں مہم چلائی اور اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی طلب کیا تاکہ افغانستان کو مالی مشکلات سے نکالا جائے۔ پاکستان کی کوششیں رنگ لائیں اور مسلم ممالک کے تعاون سے افغانستان کے لیے فنڈز جمع کئے گئے۔پاکستان کی طرف سے ان کوششوں کی اہم وجہ خطے کا امن اور افغان عوام کی مشکلات ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے جو کچھ کیا اگرچہ یہ انسانی ہمدردی کے تناظر میں تھا مگر اس کا تقاضا ہے کہ افغان طالبان بھی پاکستان میں امن کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔
دوسری طرف افغانستان میں ایک وقفے کے بعد حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے‘ جمعہ ہی کے روز حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے دفتر کی مسجد پر بھی مسلح افراد نے حملہ کیا جس میں ایک شخص جاں بحق جبکہ دو زخمی ہوئے۔ نماز ِجمعہ کی ادائیگی کے بعد برقع پوش حملہ آور نے گلبدین تک پہنچنے کی کوشش کی مگر سکیورٹی گارڈ کے روکنے پر وہ انہیں نشانہ نہ بنا سکا۔ جمعہ کے روز افغانستان کی سرزمین پر دو اہم شخصیات کو ٹارگٹ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی‘ خوش قسمتی سے دونوں شخصیات محفوظ رہیں‘ تاہم افغانستان کے حالات نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ دو روز قبل افغانستان میں ایک مدرسے پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں‘ ان کارروائیوں کے پیچھے داعش کی سوچ دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے اگر افغانستان میں بدامنی ہو گی تو پاکستان میں اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے‘ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں گزشتہ چند ماہ سے بدامنی کے جو واقعات سامنے آئے ہیں ان کے تانے بانے بھی افغانستان ہی سے ملتے ہیں۔ اے این پی کے رہنما مسلسل شدت پسندوں کے ٹارگٹ پر ہیں‘ شانگلہ سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی فیصل زیب خان کو گزشتہ دو ماہ کے دوران دو مرتبہ نشانہ بنایا گیا‘ چند روز پہلے جب ان کے گھر پر فائرنگ کی گئی تو اس وقت رکن صوبائی اسمبلی گھر پر موجود نہیں تھے اس لئے محفوظ رہے‘ تاہم تسلسل کے ساتھ اس طرح کے واقعات کا پیش آنا اس بات کی علامت ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے میں حکومت ناکام ہے۔
وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کے دورۂ کابل کے فوری بعد افغانستان اور پاکستان کے قبائلی اضلاع میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے‘ آخر اس دورہ میں ایسے کون سے امور زیر بحث آئے کہ جس کے بعد شدت پسند متحرک ہو گئے ہیں؟اس دورے کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں جس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان سب اچھا نہیں ہے۔یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ حنا ربانی کھرکو جو ٹاسک دے کر کابل بھیجا گیا تھا اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ دورے کے اختتام پر وزراتِ خارجہ کی طرف سے بیان جاری کیا گیا کہ وزیر مملکت نے افغانستان پر طالبان کی قیادت سے سکیورٹی مسائل اور معاشی تعاون سمیت وسیع پیمانے پر مذاکرات کئے ‘ دونوں ممالک نے تعلقات میں بہتری کے لیے نیا طریقہ کار لانے پر اتفاق کیا ہے۔واضح رہے کہ اتحادی حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستان کا یہ پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا‘ اس سے پہلے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کے دورے پر گئے تھے۔ حنا ربانی کھر کے دورۂ کابل کی جو تفصیلات دستیاب ہو سکی ہیں ان کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان کی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے قبائلی اضلاع میں کارروائیوں سے روکیں۔ اس معاملے میں طالبان نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی پر پوری طرح اثر انداز نہیں ہیں ۔ ٹی ٹی پی کی طرف سے حال ہی میں ایک پیغام جاری کیا گیا ہے ‘ پیغام کے الفاظ کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ‘ تاہم اس میں واضح طور پر پاکستان میں حملے تیز کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔یہ مانا جاتا ہے کہ ایسے شدت پسند عناصر نہ تو علماکی بات مانتے اور نہ ہی افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان کو اپنا بڑا تصور کرتے ہیں لیکن پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا نظام قائم کئے ہوئے ہے‘ پاکستان ابھی تک تحمل کا مظاہرہ کئے ہوئے ہے لیکن بالآخر سکیورٹی اداروں کو حتمی اقدام اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف بڑے اقدام سے پہلے افغان طالبان کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس ضمن میں وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائی کی جائے گی اور جو وعدے کئے گئے ہیں ان کا احترام کیا جائے گا۔یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغان طالبان نے حنا ربانی کھر کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں جو بدامنی کے مسائل جنم لے چکے ہیں یا ٹی ٹی پی کی طرف سے دہشت گردی کے بارے کچھ نہیں کہا گیا ‘لیکن پاکستانیوں کی اکثریت یہ توقع کرتی ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیوں سے روکنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اس پس منظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر افغان طالبان اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آتے تو سکیورٹی اداروں کو پاکستان میں شدت پسندی کا راستہ روکنے کے لیے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی طرز پر دوبارہ کارروائی کرنا پڑے گی۔شرپسند عناصر کا دوبارہ سرگرم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ماضی میں کئے گئے آپریشنز کا اثر بتدریج کم ہوتا جا رہا ‘ لیکن قیام امن کے متبادل آپشنز پر بھی غور کیا جانا ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں