چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی سیاسی حکمت عملی بظاہر ناکام ہونے کے بعد اتحادی حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے‘ کیونکہ اتحادی حکومت کو فوری طور پر اب تحریک انصاف سے کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آ رہا۔خان صاحب کی سیاسی حکمت عملی ناکام ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم قیادت نے انتظار کیا جبکہ اس کے برعکس خان صاحب نے عجلت میں اپنے سارے کارڈ ظاہر کر دیے۔ اگر تحریک انصاف قیادت تحمل کا مظاہرہ کرتی تو اتحادی حکومت کیلئے مشکلات سے نمٹنا آسان نہ ہوتا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم قائدین تحریک انصاف کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا چیلنج دے رہے ہیں مگر بھرے جلسے میں اعلان کرنے کے باوجود تحریک انصاف کیلئے یہ قدم اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف گزشتہ آٹھ ماہ سے قومی اسمبلی سے باہر ہے مگر حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا ۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اگر مگر چھوڑیں‘ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کریں‘ ہم انتخابات میں ان کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔ ایسے حالات میں جب خان صاحب کی سیاسی حکمت عملی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے‘ چار برس بعد سلمان شہباز کی واپسی اور ڈیلی میل کا اپنی سٹوری کو حقائق کے منافی قرار دے کر وزیراعظم شہباز شریف سے معذرت کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے مسلم لیگ (ن) اور حکومت کا مؤقف درست ثابت ہو رہا ہے۔ڈیلی میل کی معذرت بھی تحریک انصاف کے مؤقف کو متاثر کرے گی۔تحریک انصاف کے اداروں کے خلاف بیانیے نے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی دور کر دیا ہے‘ اس کا فائدہ حکومت نے اٹھایا ہے‘ اس ضمن میں رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو نئے سیٹ اپ میں وزیراعلیٰ بنایا جا سکتا ہے۔بظاہر اس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجاب میں تحریک انصاف یہ سہارا بھی کھو دے گی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے میں بھی تحریک انصاف کو اپنے بیس سے پچیس اراکین کی حمایت حاصل نہیں ہے جس کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے۔
اتحادی جماعتوں نے ثابت کیا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی ہے‘ پی ڈی ایم نے چودھری پرویز الٰہی کو پہلے بھی پنجاب کیلئے وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا مگر مونس الٰہی کی وجہ سے چودھری پرویز الٰہی کو فیصلہ بدلنا پڑا ‘ اب دوبارہ انہیں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دینے کا عندیہ دیا گیا ہے تو شاید ان کیلئے انکار کی گنجائش نہیں ہو۔ اس منظر میں سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ فائدہ چودھری پرویز الٰہی کو ہوتا دکھائی دیتا ہے جبکہ تحریک انصاف خسارے میں نظر آ تی ہے۔ دوسری جانب خان صاحب پر مقدمات کے خطرات منڈلا رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف تنقید کے باوجود حکومت کے ساتھ بیک ڈور رابطے بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے گزشتہ دنوں بیک ڈور رابطوں کا اظہار کیا گیا لیکن عمران خان کی موجودگی کے بغیر ہونے والے مذاکرات ایک مشقِ لاحاصل ثابت ہوں گے۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے ضروری ہے کہ خان صاحب خود مذاکرات کی میز پر موجود ہوں‘ اس طرح مذاکرات کے دوسرے فریق‘ نواز شریف اور پی ڈی ایم کے چند رہنماؤں کی شمولیت نہ ہونے کے باعث بھی مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اصل فریقوں کے درمیان مکالمہ نہیں ہو گا‘ سیاسی جمود طاری رہے گا۔ ہماری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف اس وقت کئی چینلز کو بروئے کار لاتے ہوئے مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے‘ پرویز خٹک اپنے حلقۂ احباب کے ذریعے مذاکرات کیلئے کوشاں ہیں‘ فواد چوہدری بھی اپنے طور پر مذاکرات کر رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے صدرِ مملکت کو مذاکرات کا ٹاسک دیا گیا ہے جن سے اسحاق ڈار بات کر رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن کمیونیکیشن گیپ ہونے کی وجہ سے بیل منڈھے نہیں چڑھ پائی۔ البتہ اتنی پیش رفت ضرور ہوئی ہے کہ صدرِ مملکت نے مذاکرات کو باضابطہ بنانے کیلئے تحریک انصاف اور حکومت کو مذاکراتی نمائندے مقرر کرنے کی تجویز دی ہے ‘ ممکنہ طور حکومت کی جانب سے اسحاق ڈار جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے شبلی فراز کو فوکل پرسن مقرر کیا جاسکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب تحریک انصاف کی جانب سے کمیونیکیشن گیپ کا ادراک کر لیا گیا ہے اور مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھنے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے‘ جس کا اظہار رانا ثنا اللہ نے یوں کیا ہے کہ غیر مشروط مذاکرات کیلئے پی ڈی ایم کی قیادت تیار ہے‘ تاہم ہر جانب سے یہ تاثر دینے کوشش کی جا رہی ہے کہ مذاکرات دوسرے فریق کی ضرورت ہیں۔اطلاعات کے مطابق صدرِ مملکت اوراسحاق ڈار کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں یہ بات سرفہرست رہی ہے کہ حکومت قبل ازوقت انتخابات پر آمادگی ظاہر کرے‘ دوسرے یہ کہ اگر تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ واپس لے تو حکومت انتخابات کی کونسی تاریخ دے گی؟ فریقین کے درمیان یہ بات بھی زیر بحث آئی ہے کہ نگران حکومت کی تشکیل میں تحریک انصاف کے ساتھ مشاورت کی جائے گی یا نہیں؟ نواز شریف‘ عمران خان اور فریقین کے رہنماؤں پر مقدمات کا مستقبل کیا ہو گا؟ تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے عمران خان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ اگر حکومت مذکورہ بالا شرائط پر عمل کرتی ہے تو عمران خان مقررہ مدت پوری ہونے پر انتخابات پر اتفاق کیلئے تیار ہوسکتے ہیں مگر یہ یک طرفہ مطالبات کی فہرست ہے‘ پی ڈی ایم قیادت میں شامل کچھ رہنما جن میں مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن سرفہرست ہیں وہ عمران خان کا احتساب چاہتے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے کچھ رہنما نواز شریف کو مقدمات میں ریلیف ملنے کے حق میں نہیں ہیں۔ عمران خان کو ان کے قریبی رفقا نے مشورہ دیا ہے کہ مذاکرات کے نتائج کا انتظار کر لینے میں کوئی حرج نہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ 20 دسمبر تک مؤخر کر دیا ہے۔ ہماری دانست کے مطابق مذاکرات میں تحریک انصاف کی طرف سے جو شرائط پیش کی گئی ہیں یہ خان صاحب کیلئے فیس سیونگ کیلئے ہیں ورنہ ان کی سیاسی حکمت عملی اگر مؤثر ہوتی تو اپنی شرائط پر بات کرتے اور اتحادی حکومت کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے‘ ماضی میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جب وہ پاور میں تھے تو انہوں نے کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے کئے۔ خان صاحب کی موجودہ صورتحال میں کسی قدر اعترافِ شکست بھی ہے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے۔
عمران خان کی وجہ سے اتحادی حکومت کو خطرات کا سامنا نہیں ہے لیکن معیشت کا چیلنج اپنی جگہ پر موجود ہے‘ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توجہ معیشت کی طرف موڑ ے‘ بصورت دیگر یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اگر اتحادی حکومت معیشت کے چیلنج کے سامنے ناکام ہو گئی تو عوام کی عدالت میں تحریک انصاف کے مقابلے میں اتحادی جماعتوں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہو گی۔ سو مذاکرات کی کامیابی حکومت کیلئے اس اعتبار سے ضروری ہے کیونکہ معاشی بحران کے چیلنجز پر قابو پانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔