نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم یاد آتے ہیں‘ جو اہلِ سیاست کو ایک جگہ جمع کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ آج کہنے کو سیاسی قائدین کی کمی نہیں ہے‘ خود کو امتِ مسلمہ کے لیڈر کہلوانے والے بھی موجود ہیں مگر ملک و قوم کی خاطر باہم مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہلِ سیاست کا یہ شیوہ کبھی نہ تھا جو آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے حالات کی سنگینی سے سیکھا ہے؛ تاہم کئی جماعتوں کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں جھانکنے سے سیاسی لڑائی جھگڑوں کی کئی تلخ مثالیں ملتی ہیں لیکن کیا آج ماضی سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے؟ دانا دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتا ہے مگر یہاں صورتحال مختلف ہے‘ ناشائستہ حرکت پر کوئی توجہ دلانے کی کوشش کرے تو بیس برس پرانی مثال پیش کرکے اسے کہا جاتا ہے کہ آپ کی پارٹی کے فلاں شخص نے بھی تو یہ کیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ تلخ رویوں سے بھری پڑی ہے ‘ایسے حالات شاید ہی ماضی میں دیکھے گئے ہوں جیسے اب درپیش ہیں۔ بات سیاسی اختلافات سے بہت آگے جا چکی ہے۔ لہجے کی تلخی سے دشمنی کا گمان گزرتا ہے۔ قائدین سیاسی سٹیج پر جو زہر افشانی کرتے ہیں‘ کارکنان اس کی آبیاری میں جُت جاتے ہیں حالانکہ سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر پارٹی تبدیل کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے۔ اہلِ سیاست کی آپس میں مثالی دوستیاں اور قرابت داریاں ہیں۔ بڑا بھائی ایک پارٹی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے جبکہ چھوٹا بھائی دوسری پارٹی کا اہم عہدیدار ہے۔ اہلِ سیاست روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں‘ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں مگر عوام کی زندگیوں میں ایسا سیاسی زہر گھول دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔
مہذب جمہوری معاشروں میں اہلِ سیاست کی لڑائی ایوان کے اندر ہوتی ہے‘ عموماً اپوزیشن جماعت حکومتی جماعت سے اس بات پر اختلاف کرتی ہے کہ عوام سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ ایفا نہیں ہو پائے ہیں۔ اپوزیشن جماعت ایوان کے اندر حکومت پر زور دیتی ہے کہ اس نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاںمیں ایسا رواج نہیں ہے۔ یہاں اپوزیشن اپنے سیاسی مفاد سے بالا تر ہو کر سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ ایوان کے اندر رہ کر عوام کے حق میں آواز اٹھانا تو درکنار‘ جلسے جلسوں میں بھی ذاتی نوعیت کے مسائل پر بات کی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے ہمیشہ اہلِ سیاست کی لڑائی کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ آج خان صاحب جلسوں میں جو گلے شکوے کر رہے ہیں‘ شیخ مجیب الرحمان بھی ایسے ہی گلے شکوے کیا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دولخت ہو گیا۔
تحریک انصاف اب حریف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات کو سدھارنے کے بجائے عالمی قوتوں سے مدد مانگ رہی ہے۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے یورپی‘ امریکی اور برٹش پارلیمنٹ کو جو خطوط لکھے ہیں ‘ انہیں انسانی حقوق کا نام دیا جا رہا ہے۔ بھلا کبھی دوسرے ممالک نے بھی اپنے اندرونی معاملات میں ہم سے مدد کی اپیل کی ہے؟ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ خان صاحب مشکلات کا سامنا نہیں کر سکتے‘ شاید اقتدار تک رسائی کیلئے انہوں نے کٹھن راستے طے نہیں کیے ہیں‘ اس لیے وہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں‘ ورنہ مشکلات تو اہلِ سیاست کا اثاثہ ہوا کرتی ہیں جس پر وہ برملا فخر کرتے ہیں۔ الطاف حسین نے ایک بار بھارت سے مدد طلب کی تھی تو انہیں کن کن القابات سے نوازا گیا‘ آج خان صاحب کی جماعت بھی وہی راستہ اختیار کر رہی ہے مگر اس کے باوجود وہ سب سے زیادہ مقبول ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کا حالیہ بیان اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاسی بحران ختم ہونے والا نہیں ۔ رانا ثنا اللہ کا ایک حالیہ انٹرویو میں کہنا تھا کہ عمران خان ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ ہم انہیں اپنا سیاسی مخالف سمجھتے تھے لیکن اب بات یہاں تک آ گئی ہے کہ وہ بھی ہمارے دشمن ہیں۔ وزیر داخلہ نے سارا ملبہ عمران خان پر ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ عمران خان نے ملکی سیاست کو وہاں لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں دونوں میں سے ایک سیاسی حریف کا وجود باقی ر ہے گا‘ اگر ہم سمجھیں گے کہ ہمارے وجود کی نفی ہو رہی ہے تو ہم ہر اس حد تک جائیں گے کہ جہاں اصولی‘ غیر اصولی‘ جمہوری اور غیر جمہوری کی بات ختم ہو جائے گی۔ انٹرویو کے دوران رانا ثناء اللہ نے ماضی کے کئی رازوں سے بھی پردہ اٹھایا۔ لیکن جب تک ہم ماضی کو کریدتے رہیں گے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ماضی کو بھولنا آسان نہیں ہوتا‘ مگر اسے پس پشت ڈال کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ حکومت عوام کو یہ باور کروانے کی لاکھ کوشش کرے کہ معاشی بحران سابق حکومت کا پیدا کردہ ہے پھر بھی لوگ اسے ہی ذمہ دار ٹھہرائیں گے‘ اس لیے بداعتمادی کی فضا کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو پہل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ حکومت کی طرف سے جس ماحول اور جس انداز میں میثاقِ معیشت کی دعوت دی گئی ہے‘ اگر تحریک انصاف کو وہ پسند نہیں ہے تو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق دعوت دی جانی چاہیے۔ رانا ثنا اللہ نے جو اشارے دیے ہیں‘ ملک ان اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ صدر مملکت کی طرف سے وزیراعظم کو خط اور وزیراعظم کی طرف سے صدر مملکت کو جوابی خط سے کبھی بھی معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ اس سے تلخیاں مزید بڑھیں گے جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے صدر عارف علوی کے خط میں اٹھائے گئے تحفظات اور خدشات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اسے تحریک انصاف کی پریس ریلیز قرار دیا ہے۔ البتہ تحریک انصاف کے سینیٹرز کی طرف سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ خوش آئند ہے حالانکہ پہلے سیشن میں وہ مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف کا ایوان میں جانا بہر صورت اچھا قدم ہے۔ ایوان ہی بہترین فورم ہے جہاں ہر سیاسی جماعت اپنا موقف بہترین انداز میں پیش کر سکتی ہے۔
مشرقی پاکستان الگ ہونے کا سانحہ اگرچہ بہت بڑا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت نہ صرف یہ کہ دو برس کے اندر ملک کو سنبھالا بلکہ ملک کو پہلا متفقہ آئین بھی دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کی سیاسی قیادت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ولی خان‘ مفتی محمود‘ شیر باز مزاری جیسے نظریاتی مخالفین کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو بیٹھنے کیلئے تیار تھے حالانکہ اس وقت ان کی مقبولیت کا طوطی بول رہا تھا۔ خان صاحب اپنی مقبولیت کا راگ تو الاپتے ہیں‘ انہیں ملک کی خاطر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہلِ سیاست کے ساتھ بھی بیٹھنا چاہیے۔ اداروں کا احترام اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر سیاسی قوتوں کو دوبارہ موقع نہ فراہم کرنے پر اتفاق ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پانچ نکاتی ایجنڈے میں بھی اداروں کا احترام شامل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو ہر طرح کی رعایت حاصل ہو گئی ہے۔ انہیں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بحث ہی مسائل کا حل ہے‘ اگر اکتوبر سے پہلے انتخابات کا انعقاد مشکل ہے تو سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کو بحال کر دے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی واپسی ہو۔ اہلِ سیاست کے پیش نظر یہ بات ہونی چاہیے کہ ایوان کے اندر جو بھی مسئلہ حل کیا جائے گا‘ وہ دیرپا ہو گا۔ ایوان سے باہر مسائل کو حل کرنے کی کوشش قلیل المدتی ہو گی۔ اور ایوان کے اندر مسائل تب حل ہوں گے جب اہلِ سیاست ایک دوسرے پر اعتماد کریں گے۔