"RS" (space) message & send to 7575

خرابیٔ بسیار کے بعد مذاکرات پر آمادگی

نو مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد ہر گزرتا دن تحریک انصاف کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ ہر روز کئی رہنما پی ٹی آئی سے راستے جدا کر رہے ہیں‘ سیف اللہ نیازی‘ مسرت جمشید چیمہ‘ فواد چودھری‘ عامر محمود کیانی‘ شیریں مزاری‘ ملیکہ بخاری‘ علی زیدی اور اسد عمر ایسے نام ہیں جو خان صاحب کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ سیاسی جماعتوں سے رہنماؤں کا علیحدگی اختیار کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر محض ایک ہفتہ کے دوران خان صاحب کے قریبی ساتھی یوں چھوڑ جائیں گے کسی نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ نو مئی کے واقعات نے تحریک انصاف کو کہاں لاکھڑا کیا‘ تحریک انصاف کو ایک دن میں کتنا بڑا سیاسی نقصان ہوا‘ ہر ذی شعور سمجھ رہا ہے‘ خان صاحب کی مگر اب بھی ایک ہی گردان ہے کہ وہ ہار نہیں مانیں گے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا اصل سرمایہ اس کے ووٹرز اور منتخب نمائندے ہوتے ہیں‘ ووٹرز کی بڑی تعداد اپنے مقامی نمائندوں پر اعتماد کرتی ہے‘ حلقے اور مقامی سطح پر ان نمائندوں کا اثر ورسوخ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ جس پارٹی میں شمولیت اختیار کریں ان کا شخصی ووٹ متاثر نہیں ہوتا‘ الیکٹ ایبلز کی اصطلاح ایسے ہی سیاستدانوں کیلئے بولی جاتی ہے‘ اب جبکہ ہیوی ویٹ امیدوار پی ٹی آئی میں نہیں رہیں گے تو لازمی طور پر پی ٹی آئی عوام کی حمایت سے بھی محروم ہو گی‘ اس لئے یہ کہنا بلاجواز ہو گا کہ بلے کو ووٹ ملے گا۔ نو مئی کے بعد صورتحال تبدیل ہو چکی ہے‘ یوں دیکھا جائے تو خان صاحب کے جارحانہ رویہ اور مزاحمتی پالیسی نے کئی اعتبار سے نقصان کر لیا ہے‘ مستقبل قریب میں اس کا ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔
مقام حیرت ہے کہ کہاں وہ دن جب خان صاحب کو مذاکرات پر قائل کرنے کی کوشش ہو رہی تھی اور کہاں آج کی پوزیشن کہ خان صاحب خود غیر مشروط مذاکرات کی التجاکر رہے ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر بات چیت کی اپیل کی ہے حالانکہ صرف ایک ماہ قبل 27 اپریل کو الیکشن کی تاریخ کے تعین پر مذاکراتی عمل شروع ہوا تو خان صاحب کی ڈیمانڈز ساتویں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ہماری اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہو رہی تھی حتیٰ کہ خان صاحب کے نامزد کردہ شاہ محمود قریشی‘ فواد چودھری اور علی ظفر بھی مذاکرات میں کامیابی کی نوید سنا رہے تھے‘ تاہم خان صاحب نے تکبرکا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو ختم کر دیاکیونکہ وہ اپنے زعم میں سمجھ رہے تھے کہ حکومت کے پاس ان کی ڈیمانڈز پوری کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اس وقت خان صاحب مقبولیت کی لہروں پر سوار ہر بات منوانا چاہتے تھے جبکہ آج حالات نے پلٹا کھایا ہے تو وہ ہر کسی کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔خان صاحب کی مذاکرات پر آمادگی مثبت پیش رفت ہے اسے آگے بڑھایا جانا چاہئے کیونکہ مذاکرات ہی سیاسی کشیدگی کے خاتمے کا دیرپا حل ہیں۔ مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دیا جانا چاہئے مگر حکومتی جماعتیں اب قانونی تقاضے پورے کرنے پر مُصر ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کچھ بھی نہیں بدلا‘ چہرے بدلتے ہیں رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
حکومت نے نو مئی کے واقعات میں ایسے افراد جو کینٹ ایریا میں جلاؤ گھیراؤ میں ملوث تھے کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ سول علاقوں میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف سول عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے‘ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان صاحب کا بھی ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے‘ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے‘ سیاسی جماعتوں کو غیر جمہوری اداروں کی بجائے سول اداروں پر اعتماد ہونا چاہئے۔ غصے اور انتقام میں کیا جانے والا کوئی کام جمہوری ہو سکتا ہے نہ ہی مہذب کہلا سکتا ہے‘ اس سے نکلنے والے نتائج بھی سود مند نہیں ہو سکتے۔ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حوالے سے قانونی ماہرین کی آرا مختلف ہیں‘ بعض نو مئی کے واقعات کو بغاوت‘ غداری اور دہشتگردی سے تعبیر کرتے ہیں اس لئے فوجی ایکٹ کے تحت سزا پر زور دیتے ہیں جبکہ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ خان صاحب کو 2014ء کو لانگ مارچ میں جلاؤ گھیراؤ اور قومی اداروں پر حملوں کے بعد چھوٹ ملی‘ مخالفین کو نازیبا القابات سے پکارنے پر کوئی گرفت نہیں ہوئی اور ان کی دیدہ دلیری اس قدر بڑھی کہ انہوں نے پولیس کے اعلیٰ افسران اور ججز تک کو دھمکی آمیز الفاظ کہہ دیے۔ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان کو خان صاحب کے رویے سے تقویت ملتی رہی نتیجتاً پوری جماعت ایک ہی ڈگر پر چل پڑی۔اگر روزِ اول سے ریاست قانونی چارہ جوئی اور گرفت کرتی تو قطعاً نو مئی کا دن نہ دیکھنا پڑتا۔ کئی قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سول عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہئیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف چھ مقدمات میں 33ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے‘ وزیر داخلہ کے مطابق نومئی کی ہنگامہ آرائی پر ملک بھر میں 449 مقدمات درج ہوئے‘ جن میں 88انسدادِ دہشت گردی ایکٹ جبکہ411 دیگر قوانین کے تحت درج کے گئے۔ ملک بھر سے انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات میں تین ہزار 946 افراد کو حراست میں لیا گیا جس میں پنجاب میں دوہزار 588‘ خیبرپختونخوا میں11سو افراد کو گرفتار کیا گیا۔ دیگر مقدمات میں پانچ ہزار 536افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 80فیصد ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ 449 ایف آئی آرز میں سے صرف چھ کو پراسس کیا جا رہا ہے جن میں دوپنجاب جبکہ چار خیبرپختونخوا میں ہیں‘ جن کا ممکنہ ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے‘ لیکن زبانی فضا ایسی بنائی جا رہی ہے جیسے سب کے سب مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔ ملزمان کی مجموعی تعداد میں سے پنجاب میں صرف 19 کو اور خیبرپختونخوا میں 14‘ باقی کسی جگہ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ فوجی حکام مقدمات کی تفتیش کریں گے لیکن پورا ٹرائل شفٹ نہیں ہو گا‘یہ دیکھا جائے گا کہ کہاں ملٹری ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کو شکوہ ہے کہ گرفتاریوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے‘ امریکہ سمیت کئی بیرونی حکام نے پی ٹی آئی کے حق میں آواز بلند کی ہے‘ انسانی حقوق سے متعلق پیدا ہونے والے تاثر کا خاتمہ اور انسانی حقوق کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اتحادی حکومت کو کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہو۔ جبری طور پر کسی پارٹی یا قیادت کو ختم نہیں کیا جا سکتا‘اگر ایسا ہونا ممکن ہوتا تو ماضی میں کئی کوششیں ہو چکیں‘ خان صاحب نے بھی حریف سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی حتی المقدور کوشش کی تھی مگر کیا سیاسی جماعتوں پر کوئی اثر پڑا؟ اگر اب کوئی ایسی منصوبہ سازی کی گئی تو اس کے نتائج بھی برآمد ہونے والے نہیں ہیں۔ نو مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی کو بظاہر دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے لیکن کیا خان صاحب مشکل حالات میں خود احتسابی اور کس غلطی سے وہ تنزلی کی گہرائیوں میں چلے گئے اس بارے سوچنے کیلئے تیار ہیں؟ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان چھپتے پھر رہتے ہیں مگر خان صاحب ابھی تک دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو ان کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا‘ خان صاحب یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نو مئی کے واقعات کا انہیں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ وہ بہت جلد کارکنان کو احتجاج کی کال نہیں دے سکتے۔ اس کھلی حقیقت کے باوجود اگر وہ احتجاج کی کال دیں گے تو انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاسی جماعتوں کیلئے مشکل حالات ان کا نیا جنم ہوتا ہے‘ پی ٹی آئی کیلئے بھی یہ مرحلہ گزر جائے گا‘ مگر خان صاحب کو قانون پر چلنا سیکھنا ہو گا۔ موجودہ حالات میں کسی کا انتظار کئے بغیر انہیں خود پہل کرنی ہو گی‘ مگر یہ اس وقت ہو گا جب خان صاحب خود پسندی سے نکل کر خود احتسابی کیلئے تیار ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں