"RS" (space) message & send to 7575

نواز شریف کی واپسی اور آئی ایم ایف کا رویہ

تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ سے تاحیات نااہل کروا کر ان کیلئے سیاست کے تمام راستے بند کر دیے تھے‘ یہ بندوبست کرنے والے بخوبی جانتے تھے کہ مسلم لیگ( ن) میں میاں نواز شریف کو مائنس کر دیا جائے تو سیاسی میدان میں اسے زیر کرنا آسان ہو گا‘ گو کہ مسلم لیگ( ن) کو مشکلات سے گزرنا پڑا مگر قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے کے بعد بھی پارٹی قیادت ثابت قدم رہی۔زیرک سیاسی لیڈر مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے‘ میاں نواز شریف نے جیسے لبوں کو سی لیا اور مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج فضا ان کے حق میں سازگار ہے۔ ان کی واپسی کے راستے میں حائل رکاوٹیں دھیرے دھیرے ہٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ سینیٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل منظور کر لیا گیا ہے۔ ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب نااہلی کیلئے وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جیسا آرٹیکل 62اور 63میں فراہم کیا گیا ہے‘ جہاں آئین میں اس کیلئے کوئی طریقہ یا مدت مقرر نہیں کرتاوہاں اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔ ترمیم کے تحت زیادی سے زیادہ پانچ سال کے لیے نااہلی ہو سکے گی۔ الیکشن ایکٹ کے بعد بظاہر میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہونے لگی ہے‘ مگر دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس ترمیم پر کیا ردِعمل دیتی ہے۔ الیکشن ایکٹ کے ترمیمی عمل میں شامل جماعتوں کا مؤقف ہے کہ جس طرح قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے اسی طرح اگر آئین کی کوئی شق مبہم ہے تو اس ابہام کو دور کرنا بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ جس روز ایوانِ بالا میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا عمل جاری تھا اسی روز چک شہزاد اسلام آباد مسلم لیگ (ن) کا انٹرا پارٹی الیکشن ہوا اور شہباز شریف صدر‘ مریم نواز نائب صدراور چیف آرگنائزر‘ احسن اقبال سیکرٹری جنرل‘ اسحاق ڈار سیکرٹری فنانس جبکہ سیکرٹری اطلاعات کیلئے مریم اورنگزیب بلامقابلہ منتخب ہوئیں۔ اس موقع پر شہباز شریف نے کہا کہ وہ ملک کے معمار ہیں‘ دعا ہے کہ نواز شریف واپس آئیں‘ انتخابات میں حصہ لیں اور چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں ‘ وہی پاکستان کی قسمت بدلیں گے۔ سینیٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور انٹراپارٹی الیکشن میں لیگی قائدین کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کا اظہار سیاست پر دورس اثرات مرتب کرے گا اور انتخابی مہم کا نقشہ بدل جائے گا۔اگر نواز شریف کی واپسی ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتوں کو بھی انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انتخابی مہم پر نو مئی واقعات کے گہرے اثرات ہوں گے‘ بظاہر کوئی پارٹی یا شخصیت شرپسندی کی حامی نہیں ‘ ہر سطح پر اس کی مذمت کی گئی حتیٰ کہ جو رہنما چیئرمین پی ٹی آئی کیساتھ تھے‘ انہوں نے بھی بھرپور مذمت کی‘ اب انہیں کسی قسم کے مقدمات کا سامنا نہیں ہے‘ تاہم چوہدری پرویز الٰہی ایسے شخص ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کی بنیاد پر چیئرمین پی ٹی آئی کو ریاستی اداروں کے خلاف کھڑا ہونے سے منع کیا تھا‘ انہیں پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے کے طعنے بھی دیے گئے‘ نو مئی کے واقعات کے بعد سب سے پہلے چوہدری پرویز الٰہی نے ہی مذمت کی تھی‘ لیکن انہوں نے پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا‘ اس لئے وہ زیر عتاب ہیں اور انہیں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں انہیں علاج کی سہولت سے محروم کرنا یا جیل کی سی کیٹیگری میں رکھنا اسی طرح ناانصافی ہے جس طرح نواز شریف کو علاج اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھنے کی کوشش۔ نواز شریف کی قید کے دوران مرحومہ کلثوم نواز کی بیماری اور مریم نواز کا جیلوں میں جانا‘ رانا ثنا اللہ کی اہلیہ کا اپنے شوہر کیلئے سامنے آنا اور جدوجہد کو جس نظر سے دیکھا گیا تھا اسی نظر سے چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ کو بھی دیکھا جانا چاہئے۔
نواز شریف کی واپسی اور مقبولیت اپنی جگہ مگر جب تک معاشی بحران موجود ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے نہیں پاتا ہے تب تک حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ بجٹ میں محض اعلانات کیے گئے ہیں جبکہ عوام فوری ریلیف چاہتے ہیں۔فوری ریلیف میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی‘ اشیائے خور و نوش کی ارزاں نرخوں پر دستیابی اور مہنگائی میں کمی شامل ہے۔حکومت چاہتے ہوئے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں کر سکتی ۔روس سے سستے تیل کی درآمد‘ آذربائیجان سے رعایتی نرخوں پر ایل این جی کی خریداری اور معاشی بحران کے خاتمہ کیلئے جو دیگر اقدامات کیے گئے ہیں ان کے اثرات کچھ عرصہ بعد محسوس ہوں گے لیکن عوام کو فوی ریلیف چاہیے اس لیے مسلم لیگ (ن) کیلئے عوامی عدالت میں جانا آسان نہیں ہو گا بلکہ خدشہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف پیکیج کا حصول ممکن نہ ہو پایا تو نگران سیٹ اَپ میں معاشی بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا اورعوام نگران حکومت کے بجائے موجودہ حکمرانوں کو ہی موردالزام ٹھہرائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کسی بھی صورت آئی ایم ایف پیکیج کی بحالی چاہتی ہے۔آئی ایم ایف چھ ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی فنانسنگ چاہتا ہے‘ حکومت نے سعودی عرب‘ یو اے ای اور چین کی مدد سے تین ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کا انتظام کیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے جس وقت چھ ارب ڈالر کی شرط عائد کی تھی اس وقت تجارتی خسارے کا حجم زیادہ تھا ‘حکومت نے درآمدات پر پابند لگا کر اور دیگر اقدامات کے ذریعے اس خسارے کو کم کیا ہے اب چھ ارب ڈالر کی بجائے تین ارب ڈالر کی شرط کافی ہو گی‘ مگر آئی ایم ایف اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ چین سے ایک ارب ڈالر کی رقم جو پاکستان نے حال ہی میں ادا کی تھی واپس مل گئی ہے‘ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ پانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایما پر سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کر دی تھیں‘ اس وقت دیگر جماعتوں نے سٹیٹ بینک کو گروی رکھنے کے معنوں میں تعبیر کیا‘ کئی حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ بینک ہمارا ہے مگر کنٹرول آئی ایم ایف کا ہے۔ آئی ایم پیکیج بحالی کی راہ میں اہم رکاوٹ یہ ہے کہ حکومت سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم کو واپس لینے کا عندیہ دے چکی ہے‘ وزیر خزانہ برملا کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف عالمی قوتوں کی ایما پر پاکستان کو دیوالیہ کرنا چاہتا ہے اور بعدازاں اپنی سخت شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ حیرت ہے پاکستان کے اندر ایک مخصوص لابی ہمیں ڈراتی ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے پیکیج بحال نہ ہوا تو ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے‘ یہ لوگ ہمیں خود انحصاری کا سبق کیوں نہیں دیتے۔یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آئی ایم ایف مصر سمیت جہاں جہاں گیا وہاں کی معیشت تباہ کر کے غربت و افلاس کی داستانیں چھوڑ آیا۔ یہ درست ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر ہمیں معاشی مشکلات کا سامنا ہو گا اور سنبھلتے ہوئے وقت بھی لگے گا مگر کبھی تو آغاز کرنا ہے۔ دیکھا جائے تو ایک طرف آئی ایم ایف کے تلخ رویے کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت کیلئے میاں نواز شریف کی واپسی ہے اورمسلم لیگ (ن) نواز شریف کی واپسی سے پہلے آئی ایم ایف کیساتھ ڈیل کرنا چاہتی ہے تاکہ معیشت کو انتخابی نعرہ بنا سکے۔ مسلم لیگ (ن) ممکنہ طور پر یہ مؤقف لے کر الیکشن میں جانا چاہتی ہے کہ جس طرح 2013ء میں شدید توانائی بحران تھا اور نواز شریف کی قیادت میں مختصر عرصے میں توانائی بحران کو ختم کیا گیا‘ اسی طرح بہترین معاشی منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نجات دلائی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں