پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان 30جون کو تین ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی معاہدہ طے پا گیا تھا‘ جس کی حتمی منظوری 12جولائی کو مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ میں دیے جانے کا امکان ہے‘ تاہم ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ سے قبل آئی ایم ایف وفد پاکستان کے دورے پر ہے‘ وفد نے پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے ملاقات کی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان ہونے والے معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس ملاقات سے پی ٹی آئی میڈیا سیل پہ چھائی مایوسی خوشی میں بدلی ہے اور ان کی پروپیگنڈا مشینری ان کی سیاست میں relevance کا شور مچا رہی ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدے کی خلاف ورزی کر چکی ہے‘ اس لیے عالمی مالیاتی ادارہ ضمانت چاہتا ہے کیونکہ سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے میں اپنی حمایت کا اعلان کرنے کا منفی طرزِعمل قارئین کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہو گا‘ جب وفاق سے پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی اور پنجاب و خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومتیں قائم تھیں‘ وفاقی حکومت آئی ایم ایف پیکیج کی بحالی کیلئے کوشاں تھی تو پی ٹی آئی نے پروگرام کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی حتی المقدور کوشش کی تھی۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں شوکت ترین پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے خزانہ محسن لغاری اور تیمور سلیم جھگڑا سے ٹیلی فونک گفتگو میں ہدایات دے رہے تھے کہ آئی ایم ایف کو خط میں کیا لکھنا ہے۔ صوبوں کا وفاق کے ساتھ عدم تعاون کا مقصد یہ تھا کہ وفاقی حکومت مشکلات کا شکار ہو۔ محسن لغاری سوال کرتے ہیں کہ اس سے ریاست کو تو نقصان نہیں ہو گا؟ شوکت ترین پاکستان تحریک انصاف کے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کو بطور جواز کے پیش کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ظاہر نہیں کریں گے کہ ریاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ مطلب یہ کہ تب پاکستان تحریک انصاف کے لیے سیاسی مفاد ریاستی مفاد سے مقدم تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی رکاوٹوں کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے سے پاکستان کو31 اگست 2022ء کو ایک ارب 16کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہو گئی تھی‘ تاہم جو پروپیگنڈا کیا گیا اس کے اثرات باقی رہ گئے۔ فروری 2023ء میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کا اجرا ہونا تھا مگر بوجوہ وہ قسط جاری نہ ہو سکی۔ عالمی مالیاتی ادارے نے قسط روک لی اور کڑی شرائط عائد کر دیں‘ اتحادی حکومت نے قسط کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی اکثر شرائط کو پورا کیا‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا‘ سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے بڑھا کر 18فیصد جبکہ لگژری اشیا پر ٹیکس کی شرح 25فیصد کر دی گئی۔ اسی طرح بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا‘ آئی ایم ایف کی ایما پر اٹھائے گئے اقدامات کے باعث مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا‘ لیکن اس کے باوجود پروگرام بحال نہ ہوا بلکہ کہا گیا کہ کئی اقدامات ایسے ہیں جو ابھی کرنے باقی ہیں۔ حکومت ایسے مقام پر آن کھڑی ہوئی تھی کہ اسے ایک طرف آئی ایم ایف سے قسط کی شدید ضرورت تھی جبکہ دوسری طرف اس کی سیاسی ساکھ متاثر ہو رہی تھی کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی ختم ہونے سے پٹرول کی قیمت 150روپے سے بڑھ کر 270 تک جا پہنچی تھی۔ پاکستان نے اپنے تئیں عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط کو مان لیا مگر سات ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی شرط کو پورا کرنا آسان نہ تھا کیونکہ دوست ممالک پہلے ہی تعاون کر چکے تھے‘ یوں آئی ایم ایف پیکیج تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور جو قسط فروری 2023ء میں مل جانی چاہئے تھی وہ حاصل نہ ہو سکی۔ آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا وہ منفی رویہ تھا کہ معاہدے کے باوجود اسے پورا نہیں کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جو سبسڈی دے کر نظام چلانے کی کوشش کی آج وہ عوام کو سود سمیت واپس کرنا پڑ رہی ہے۔
اب پاکستان تحریک انصاف نے عالمی مالیاتی ادارے کے وفد سے ملاقات میں نئے معاہدے پر حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے تو اس کے پس پردہ بھی وہی عوامل کارفرما ہیں جو آئی ایم ایف پیکیج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ میٹنگ شوکت ترین نے اپنے تعلقات اور آئی ایم ایف میں موجود گروپ کو استعمال کر کے مینج کی ہے تاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں کہ اگر ہم چاہتے تو یہ معاہدہ روک سکتے تھے لیکن وسیع تر قومی مفاد میں ہم نے آئی ایم ایف معاہدے کو ہونے دیا۔عوام جانتے ہیں کہ ملک کو دیوالیہ کرنے کیلئے کس نے عالمی مالیاتی ادارے کے پیکیج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں‘ جب پوری کوشش کے باوجود ملک دیوالیہ نہیں ہوا ہے تو پینترا بدل لیا ہے کہ ہم تو ملک کے مفاد کیلئے سب کر رہے ہیں یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ کی ہر ممکن کوشش کی گئی‘ کتنے ہی جلسے جلسوس ہوئے‘ کیسی ناشائستہ زبان استعمال کی گئی‘ جب عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا تو صدر ڈاکٹر عارف علوی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف سے مشورے کیلئے لاہور گئے اور وہاں جا کر مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے جنرل عاصم منیر کی تعیناتی ہونے دی۔ حقیقت یہ تھی کہ صدر عارف علوی تعیناتی کی سمری پر دستخط کر کے لاہور گئے تھے ‘ایسے ہی آئی ایم ایف کا وفد بھی سب کچھ طے کر کے پاکستان آیا ہے۔ چونکہ شوکت ترین اور تیمور جھگڑا کی آڈیو سے یہ حقیقت عیاں تھی کہ آئی ایم ایف معاملے میں ملک کے خلاف سازش ہو رہی ہے اس لیے اس داغ کو دھونے کیلئے آئی ایم ایف سے ملاقات مینج کی گئی۔
دوسری طرف حالات نے مسلم لیگ (ن) کے مؤقف کو سچ ثابت کر دیا ہے‘ جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیا گیا تو لیگی قیادت نے اس فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے‘ مسلم لیگ (ن) کا فیصلے پر ردِعمل سمجھ میں آنے والی بات تھی‘ تاہم قانونی ماہرین کی آراء منقسم تھیں‘ سینئر وکلاء نے نااہلی کے فیصلے میں سقم کی نشاندہی کی تھی‘ اب پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور وکیل حامد خان نے بھی یہ کہہ کر اس پہ مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کیلئے عدالتی فیصلے سے پہلے فیصلہ ہو چکا تھا۔ حامد خان نے چھ برس بعد یہ اعتراف کیا ہے‘ جب انصاف کا قتل کیا جا رہا تھا تب وہ خاموش کیوں تھے؟ پی ٹی آئی کے دور میں نواز شریف کے خلاف قائم کئے گئے مقدمات آج اعلیٰ عدالتوں سے ختم ہو رہے ہیں‘ وہ دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے والے ہیں مگر انہیں نااہل قرار دے کر تعمیر وترقی کے سفر کو روک کر اصل نقصان ملک و قوم کا کیا گیا‘ اس کا ازالہ کیسے ہو گا؟