فلسطین کی عسکری تنظیم حماس اور اسلامک جہاد کی جانب سے ہفتہ کی صبح اسرائیل کے خلاف ''طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن شروع کیا گیا جس کے بعد فلسطین اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ جنگ چھڑ چکی ہے۔ حملوں میں دونوں اطراف سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیلی حکومت حماس کی کارروائیوں میں سات سو سے زائد اسرائیلی ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہونے کی تصدیق کر چکی ہے۔ لڑائی نے اسرائیل کے آٹھ شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حماس نے اس حملے سے ماضی کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیے ہیں کیونکہ حماس کے مجاہدین سمندر‘ زمین اور فضا سے اقدامی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کے علاقوں میں گھس گئے اور سو کے قریب اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا حالانکہ اس سے پہلے حماس دفاعی پوزیشن پر لڑتی رہی ہے۔ حماس کی جانب سے اچانک حملوں نے دفاعی تجزیہ کاروں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حملوں کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں موساد اور شاباک کی ناکامی تصور کیا جا رہا ہے جو نہ صرف یہ کہ حماس کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہیں بلکہ انہیں اس وقت علم ہوا جب حماس کے مجاہدین اسرائیلی علاقوں میں گھس کر فوجیوں کے سروں پر جا پہنچے۔ اسرائیل کا میزائل دفاعی نظام ''آئرن ڈوم‘‘ بھی حماس کے میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا حالانکہ اس دفاعی نظام کے بڑے چرچے تھے اور ماضی میں میزائلوں کو روکنے میں کامیاب رہا تھا۔ حماس کی جانب سے ہزاروں میزائل فائر کیے جانے کی وجہ سے اسرائیل کا دفاعی نظام بیٹھ گیا۔ اسرائیل ایک بلین ڈالر خرچ کرکے بھی غزہ کی پٹی کو محفوظ نہیں بنا سکا۔ غزہ تنازع کے باعث حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپیں معمول کی بات سمجھی جاتی ہیں‘ تاہم حالیہ حملوں کے بارے کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں میں پہلی مرتبہ اس قدر منظم حملے کیے گئے ہیں۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کے طور پر فضا سے غزہ پر حملے کیے ہیں جس میں فلسطین کے 480افراد کے شہید اور دو ہزار سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ دونوں جانب سے ہزاروں راکٹ پھینک کر رہائشی آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب تک درجنوں عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے باقاعدہ جنگ کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد اسرائیلی حملوں میں تیزی آ گئی ہے اور غزہ کی پٹی کی بجلی سمیت سپلائی لائن کاٹ دی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ کو 70فیصد بجلی اسرائیل کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے اور اشیائے خور و نوش کا زیادہ تر سامان اسرائیل سے آتا ہے۔ ظاہر تو یہی کیا جاتا ہے کہ غزہ کی ضروریات اسرائیل سے پوری ہوتی ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر آباد یہودیوں کو سہولیات فراہم کرتا ہے اور مسلم آبادی کو جو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اس کے پیچھے بھی صہیونیوں کی گھناؤنی سازش ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلم آبادی پر قابض ہوتے جا رہے ہیں بلکہ غزہ کی پٹی پر یہودیوں کی تعداد میں اضافہ ہی مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ یہودی طاقت کے زور پر فلسطین کے علاقے پر قابض ہوتے جا رہے ہیں جبکہ یہودی نہ صرف غزہ کی پٹی پر اپنا حق سمجھتے ہیں بلکہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر رہنے والے مسلمانوں کی حالت پناہ گزین کیمپوں کے مکینوں جیسی ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی کو اپنا علاقہ سمجھتے ہوئے وہاں پر بجلی سمیت کچھ سہولیات تو فراہم کرتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد یہودی آبادی کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے کیونکہ مسلمانوں کے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسرائیل جب چاہتا ہے بجلی منقطع کرکے وہاں کے باسیوں کو اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ لاکھوں فلسطینی اپنی زمینوں کے مالک ہونے کے باوجود اسرائیل کے ریاستی جبر کے باعث دربدر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ اسرائیل انہیں رہائش کا حق دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین جب بھی حالات شدت اختیار کرتے ہیں‘ پوری دنیا اس تنازع کا حصہ بن جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ مسلم ممالک فلسطین کی حمایت میں سامنے آتے ہیں۔ حالیہ فلسطین اسرائیل تنازع میں بھی دنیا واضح طور پر دو گروپوں میں بٹی دکھائی دیتی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم سے رابطہ میں دفاعی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسرائیل کی مدد کے لیے امریکہ نے اپنا جنگی بحری بیڑہ روانہ کر دیا ہے۔ لڑاکا طیاروں کے سکواڈرنز کو بھی خطے میں اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی بھی اسرائیل کو تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں جس سے لگتا ہے کہ یہ جنگ طویل ہونے والی ہے۔ اسی طرح فلسطین اور اسرائیل کے دیرینہ تنازع میں اب کئی مسلم قوتیں بھی کود پڑی ہیں۔ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ حماس کے حق میں اس جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔ حزب اللہ کے درجنوں جنگجو اسرائیل میں داخل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ چین نے فلسطین اور اسرائیل کی کشیدگی پر آزاد فلسطین ریاست کے قیام کو تنازع کا حل قرار دیا ہے اور چین اس مقصد کے لیے سعودی عرب‘ امریکہ اور یورپی ممالک سے رابطے کرکے عملی طور پر میدان میں ہے‘ تاہم اس موقع پر سلامتی کونسل کے اہم اجلاس کا بے نتیجہ ختم ہونا افسوسناک ہے۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ رکن ممالک حماس کے حملوں کی مذمت کریں مگر روس نے دیگر ملکوں سے اتفاق نہیں کیا بلکہ روسی سفیر نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل فلسطین سے متعلق دہائیوں پہلے معاہدے پر عمل کرے۔
عالمی سطح پر کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے ناکام ہونے اور بات روایتی بیان بازی سے آگے نہ بڑھنے سے جانی نقصان کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے ٹھوس اقدامات سامنے آنے چاہئیں۔ پاکستان نے اپنے دیرینہ موقف کو دہرایا ہے اور فلسطین کی غیرمشروط حمایت کی ہے۔ اس ضمن میں نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیلی قابض افواج کے تشدد اور جبر کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ فلسطین کی ایک قابلِ عمل اور خودمختار ریاست کا قیام1967ء سے پہلے کی سرحدوں اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس دیرپا مسئلے کا یہی حقیقی حل ہے۔ اگر وقتی بندوبست کے ذریعے جنگ بندی کرا دی گئی تو شدت پسندانہ واقعات وقفے وقفے سے رونما ہوتے رہیں گے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے عالمی برادری بالخصوص اقوامِ متحدہ سے اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران سعودی عرب دو ریاستی حل پر زور دے رہا ہے۔ اسرائیل اپنی شرائط پر اور ان لاکھوں فلسطینیوں کے بغیر مسئلے کا حل نکالنا چاہتا ہے جو پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ تنازع جلد یا بدیر ختم ہو جائے گا کیونکہ حماس کے لیے طویل عرصہ تک اسرائیل کے خلاف لڑائی جاری رکھنا مشکل ہو گا۔ اس حوالے سے حماس خود بھی اشارہ دے چکی ہے کہ ان کا مقصود اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کا تبادلہ ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ حماس نے جنگی حکمت عملی کے تحت اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اب جبکہ صورتحال نہایت تشویشناک ہو چکی ہے تو عالمی برادری کو فوری مداخلت کرنی چاہیے۔ حماس کے حملوں کا مقصد کیا تھا‘ یہ راز تو سامنے نہیں آ سکا ہے‘ البتہ مستقبل قریب میں سعودی عرب اور اسرائیل کے جو مذاکرات ہونے والے تھے‘ موجودہ حالات میں ان مذاکرات کا دروازہ بند ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دنیا جنگوں کو ترک کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے‘ اس دوران نئے جنگی محاذ سے پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔