مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے جاتی امرا میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر لیگی قیادت کی موجودگی میں دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی رہنما سائرہ بانو نے بھی آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مذکورہ پارٹیاں تین صوبوں کی آواز ہیں جن کے ووٹ بینک کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ یہ پارٹیاں جس جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں اس کی جیت یقینی ہوتی ہے۔ ان پارٹیوں کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کی غیرمشروط حمایت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہواؤں کا رخ کدھر ہے۔ غیر جانبدار حلقوں نے گریٹر اقبال پارک میں مسلم لیگ (ن) کے جلسے کو غیرمعمولی قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ جتنے لوگ جلسہ گاہ میں موجود تھے‘ اس سے کہیں زیادہ ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے جو جلسہ گاہ تک پہنچ نہیں پائے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس عوامی اجتماع کیلئے بڑے انتظامات کیے گئے تھے مگر جب قافلوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ انتظامات کم پڑ گئے۔ کارکنان کی بڑی تعداد محض میاں نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے میلوں کا سفر طے کر کے جلسہ گاہ پہنچی تھی۔
میاں نواز شریف نے خطاب میں اپنا آگے کا لائحہ عمل اور بیانیہ پیش کر دیا ہے۔ وہ مزاحمت کی سیاست کے برعکس مفاہمتی بیانیے کو لے کر چلنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کارکنان اور پاکستان کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ وہ انتقام کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اقتدار میں آنے کے بعد اس سلسلے میں قیمتی وقت برباد کریں گے۔ انہوں نے خطاب میں کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے جن جذبات کا اظہار کیا اس سے محسوس ہوا کہ کارکنان کے ساتھ منقطع سلسلے کی بحالی ان کے نزدیک بہت اہم ہے۔ ان کے خطاب سے لگا کہ گوکہ وہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر ابھی نہیں بلکہ اسے انتخابی مہم کیلئے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خطاب پاکستان کے معاشی مسائل پر محیط تھا‘ انہوں نے آگے بڑھنے کا فارمولا بتاتے ہوئے کہا کہ سب کو ساتھ مل کر چلنا ہو گا۔
میاں نواز شریف کی واپسی سے اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ شاید مسلم لیگ (ن) میں کسی دوسرے شخص میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ پارٹی کی قیادت کر سکے۔ میاں نواز شریف نے پڑوسی ممالک کیساتھ بہترین تعلقات کو اپنی معاشی حکمت عملی قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی‘ یہی وجہ ہے کہ چین کے علاوہ کسی پڑوسی ملک کیساتھ ہمارے تعلقات کو مثالی نہیں کہا جا سکتا بلکہ چین کے ساتھ بھی تعلقات کو گزند پہنچانے کی پوری کوشش کی گئی۔ میاں نواز شریف نے جارحیت کے بغیر مسئلہ کشمیر کے قابلِ قبول حل کا اشارہ دیا ہے۔ سعودی عرب بھی تنازعے میں پڑے بغیر فلسطین کا مستقل حل چاہتا ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے معاشی وِژن کو اس جدید تقاضے سے منسلک کیا ہے کہ ہم دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ترقی کے اہداف حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اور عرب ایران قربتیں جس طرح معاشی اہداف کا تعین کرتی ہیں‘ بالکل ایسے ہی میاں نواز شریف پورے خطے کی ترقی کی بات کر رہے ہیں جو تنازعات کو ختم کرکے تعلقات استوار کیے بغیر ممکن نہیں۔ ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ اب انتقامی سیاست‘ احتساب یا اداروں کے ساتھ مخاصمت کا بیانیہ چلنے والا نہیں۔ اگلے چند برسوں تک معیشت پاکستان کی سیاست کا محور رہے گی اور جو جماعت زیادہ موزوں معاشی پلان دے گی وہ عوام کی نظروں میں مقبول ٹھہرے گی۔ میاں صاحب یہ راز جان چکے ہیں اسی لیے معاشی پلان کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
لاہور جلسے کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج 2017ء کے بعد پہلی بار 51ہزار پوائنٹس کی حد عبور کر گئی ہے۔ یہ اہم پیش رفت ہے اور معاشی سمت کے تعین کی طرف ایک اشارہ بھی۔ میاں نواز شریف جس معاشی حکمت عملی کی بات کر رہے ہیں‘ اسحاق ڈار اس کیلئے 10سے 15 برس لازمی قرار دیتے ہیں۔ یہ قرینِ قیاس بھی ہے اور اگر خطے کے دیگر ممالک کی ترقی کو دیکھا جائے تو انہوں نے یہ سفر دو سے تین دہائیوں میں طے کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں ہوم ورک اور زمینی حقائق کو پرکھے بغیر مسائل کو حل کرنے اور ترقی کے دعوے کیے گئے۔ کہا گیا کہ ابتدائی سو دنوں میں کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا اور بیرونی ممالک سے قوم کا پیسہ واپس لا کر عوام پر خرچ کیا جائے گا۔ پھر عوام نے دیکھا کہ پی ٹی آئی نے جو وعدے کیے تھے‘ ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہ ہو سکا بلکہ ناتجربہ کاری سے مسائل مزید سنگین ہو گئے اور آج معیشت کی جو حالت ہے‘ اس میں پی ٹی آئی حکومت کے ساڑھے تین برسوں کی ناقص کارکردگی کا بڑا کردار ہے۔ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار معاشی ترقی کیلئے جس حکمت عملی کا اظہار کر رہے ہیں اس میں خلافِ حقائق کوئی بات نہیں ہے‘ تاہم معاشی ترقی کا سفر شروع ہونے میں الیکشن کا انعقاد اور مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا اہم مرحلہ باقی ہے۔ الیکشن کب ہوں گے؟ انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہے‘ البتہ الیکشن سے قبل مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا تاثر قائم ہو گیا ہے شاید اسی بنا پر پی ٹی آئی سمیت دیگر حریف جماعتیں مسلم لیگ (ن) پر ڈیل کا الزام عائد کر رہی ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ خیبرپختونخوا کی نگران حکومت میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اسی طرح وفاق اور پنجاب کی نگران حکومتوں میں مسلم لیگ (ن) کے کنٹرول کا تاثر بھی موجود ہے جو شفاف انتخابات کے انعقاد پر سوالات اٹھاتا ہے۔ تاریخ دیکھیں تو یہاں تقریباً تمام الیکشنز کی شفافیت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) الیکشن 2018ء کی شفافیت پر سب سے زیادہ تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے‘ اب جبکہ اگلے عام انتخابات ہونے والے ہیں تو انعقاد سے پہلے ہی سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں الیکشن میں دھاندلی پر اعتراضات کیے جاتے تھے‘ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل میں ہوتے ہوئے انتخابات کے انعقاد کو شفاف کیسے کہا جائے گا؟ اس صورت میں پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں آئے گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ ایک جماعت کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سو ضروری ہے کہ میاں نواز شریف حالات کی سنگینی کا ادراک اور ایسے کسی اقدام کی حمایت نہ کریں جس پر ماضی میں انہیں خود تحفظات رہے ہیں۔
دوسری طرف سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائدہونا بھی اہم پیش رفت ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا ہے۔فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا گیا‘ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا کہ 9 مئی کے ملزمان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات فوجداری عدالتوں میں چلائے جائیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (ون) (ڈی) کی دونوں ذیلی شقوں اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شق 59 (4) کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔اس سے قبل فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی آخری سماعت تین اگست کو ہوئی تھی جس میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کسی کو غیر آئینی اقدامات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل نہ کرنے کا فیصلہ سیاست پر گہرے اور دوررس اثرات مرتب کرے گا۔