عام انتخابات میں کامیابی کیلئے سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملیاں تشکیل دینے میں مصروفِ عمل ہیں۔ فی الحال سیاسی سرگرمیاں سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں تک محدود ہیں۔ 30نومبر کو حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت کے بعد ان سرگرمیوں میں تیزی آنے کا امکان ہے کیونکہ ٹکٹوں کا اجرا ہونے کے بعد ہی بالعموم عوامی نمائندے اپنے پارٹی منشور کے ساتھ حلقے کے عوام کے پاس جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا منشور ابھی تک تیاری کے مراحل میں ہے۔ جمہوری معاشروں میں منشور کے بغیر انتخابی مہم کا تصور محال ہوتا ہے کیونکہ پارٹی منشور ایک سیاسی جماعت کی نظریاتی دستاویز ہوتی ہے جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ وہ جماعت منتخب ہو کر کیا کرنا چاہتی ہے۔ منشور میں سیاسی جماعت کے بنیادی مقاصد‘ پالیسیوں اور وعدوں کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو منشور کے وعدوں پر بحث کرنی چاہیے اور ووٹروں کو بتانا چاہیے کہ وہ ان وعدوں کو کیسے پورا کریں گے۔ منشور کے بغیر کوئی بھی انتخابی مہم جمہوریت کی روح کے منافی تصور ہوتی ہے‘ اس لیے کہ جمہوریت میں لوگوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ امیدواروں کے کیا منصوبے ہیں اور وہ ان کو منتخب کرنے کے بعد کیا کریں گے۔ پارٹی منشور ایسی دستاویز ہوتی ہے جو ووٹروں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد کرتی ہے کہ وہ کس جماعت کو منتخب کریں۔ فی الحال سیاسی جماعتیں منشور کے ساتھ عوام کے پاس جانے کے بجائے محض زبانی دعووں پر اکتفا کرتے ہوئے ان ہیوی ویٹ امیدواروں سے رابطے کو ضروری سمجھ رہی ہیں جن کی کامیابی تقریباً یقینی ہے۔
ہر گزرتا دن انتخابات کے قریب لے جا رہا ہے لیکن کیا الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں ایسے شفاف و غیرجانبدار الیکشن کرانے میں کامیاب ہوں گے جس کے نتائج سب کیلئے قابلِ قبول ہوں؟ ہماری ناقص رائے کے مطابق شفاف انتخابات کا انعقاد صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی شفاف الیکشن کے انعقاد میں بھرپور حصہ ڈالیں کیونکہ جب کوئی امیدوار دھاندلی پر تحفظات کا اظہار کرتا ہے تو وہاں کوئی دھاندلی کرتا بھی ہے‘ جیسے کسی کے ساتھ دھوکا ہوتا ہے تو کوئی دھوکا دینے والا بھی ہوتا ہے‘ ہمیں اس مذموم فعل کی مذمت سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے شفاف انتخابات کے انعقاد میں سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ شفاف انتخابات مضبوط اور قابلِ اعتبار جمہوری نظام کیلئے ضروری ہیں۔ جب عوام کو یقین ہو کہ ان کی آواز سنی جائے گی اور ان کے ووٹ کا احترام ہو گا تو وہ سیاسی عمل میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوں گے۔ اس ضمن میں سابق صدر آصف زرداری نے نہایت اہم بیان دیا ہے کہ ملک کا ماحول اس وقت انتخابات کے لیے سازگار ہے‘ ملک شفاف انتخابات کی طرف جا رہا ہے اور انہیں الیکشن کمیشن پر پورا اعتماد ہے کہ وہ شفاف الیکشن کروائے گا۔ حالانکہ اس سے قبل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر شکوہ کرتے دکھائی دیے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیرِ خارجہ رہے۔ انہیں وزیراعظم شہباز شریف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس وقت کے حالات کے پیش نظر کئی حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھال کر دراصل بہترین سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صرف وزراتِ خارجہ پر ہی کیا موقوف‘ اس قلیل عرصہ میں وفاق کی جانب سے ریکارڈ فنڈز سندھ کو جاری ہوئے لیکن جونہی اتحادی حکومت ختم ہوئی تو بلاول بھٹو نے بڑی مہارت سے سارا ملبہ مسلم لیگ (ن) پر ڈال دیا۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے دورۂ بلوچستان کے دوران صرف اتنا کہا ہے کہ سارے فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے۔ اب آصف زرداری نے نہایت دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نیا بیان جاری کیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آئندہ الیکشن کی شفافیت سے متعلق آصف علی زرداری کے بیان کی تائید کی ہے‘ تاہم بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری الگ الگ انتخابی حکمت عملی کے ساتھ الیکشن میں جائیں گے۔ آصف زرداری مفاہمت جبکہ بلاول بھٹو مزاحمتی پالیسی جاری رکھیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری مزاحمت کی ایک وجہ 18ویں ترمیم میں ممکنہ تبدیلی کی بازگشت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کی طرف سے صوبوں کے درمیان محصولات کی تقسیم کا طریقہ کار ازسرِ نو تشکیل دینے کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ یاد رہے اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی سارے فنڈز صوبوں کے پاس ہونے اور وفاق کے پاس ملک چلانے کیلئے پیسوں کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے 18ویں ترمیم میں تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر کی شدید مخالفت کے باعث اس پر عمل مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) بھی چیئرمین تحریک انصاف کے اقدام کی مخالفت کرنے والوں میں شامل تھی مگر اب مسلم لیگ (ن) الیکشن سے پہلے 18ویں ترمیم میں تبدیلی کا عندیہ دے رہی ہے تو مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان دوریوں کی اصل وجہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
18ویں ترمیم سے پہلے وفاقی حکومت صوبوں کے مالی وسائل کو براہِ راست کنٹرول کرتی تھی اور ان کو ترقیاتی اور غیر ترقیاتی ضروریات کے مطابق فنڈز تقسیم کرتی تھی‘ تاہم 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مالی خود مختاری حاصل ہو گئی اور وہ اب وفاقی حکومت سے یہ فنڈز ایک ساتھ وصول کرتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو انکے اپنے محکموں اور اداروں کے ذریعے مالی وسائل کی تقسیم اور استعمال کا اختیار حاصل ہے۔ اسکے علاوہ صوبوں کو ٹیکس جمع کرنے کے زیادہ اختیارات بھی مل گئے ہیں اور وہ اب وفاقی حکومت کی طرف سے دیے گئے گرانٹس اور ٹیکس کے علاوہ اپنے ذرائع سے آمدنی بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ 18ویں ترمیم صوبوں کو اپنی ترقیاتی پالیسیوں کو تشکیل دینے اور انہیں زیادہ مؤثر طریقے سے لاگو کرنے کا اختیار فراہم کرتی ہے۔ اسکے نتیجے میں صوبوں کو اپنی اقتصادی ترقی اور سماجی بہبود کو تیز کرنے کے مواقع ملنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ 18ویں ترمیم کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) کا منشور سامنے آئے گا تو دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ 18ویں ترمیم کا اہم مرحلہ اس کے دورِ حکومت میں سر ہوا تھا جس کے ذریعے آئینی طریقے سے آمریت کا راستہ روکا گیا تھا۔ پی پی پی کی تشویش کی دوسری وجہ یہ ہے کہ سندھ اس کی سیاست کا گڑھ ہے حتیٰ کہ جب 2018ء کے بعد مسلم لیگ (ن) پنجاب میں بھی حکومت بنانے سے قاصر ہو گئی تھی تب بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ اس سیاسی کشیدگی کا فائدہ جمعیت علمائے اسلام (ف)اٹھا رہی ہے۔ اس وقت کے پی میں کوئی پارٹی اکثریتی جماعت ہونے کی دعویدار نہیں ہے۔ پرویز خٹک کی جماعت کو کے پی میں تاحال پذیرائی نہیں مل سکی ہے البتہ انہیں استحکامِ پاکستان پارٹی کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے صوبے میں اہم ذمہ داری مل سکتی ہے۔ایسی صورت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ (ن) کے پی میں اتحاد کرتی ہیں تو صوبے میں ووٹ بینک کی وجہ سے جے یو آئی کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان کے بعد جب سندھ میں بھی جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد کھل کر سامنے آئے گا تو پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے مفاہمت کی سیاست کو جاری رکھنا آسان نہیں رہے گا۔ اس پس منظر کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات کی سیاسی سرگرمیاں ماضی سے یکسر مختلف ہوں گی اور مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمتی عمل ایک چیلنج کی صورت برقرار رہے گا۔