انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو انتخابی عمل کے تین مراحل مکمل ہونے کے باوجود پاکستان میں سب سے زیادہ زیرِ گردش ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتیں اور ووٹ دینے والے عوام الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تاحال یکساں طور پر تذبذب کا شکار ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں سیاسی گہما گہمی نظر آتی ہے اور نہ ہی وہ سیاسی ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے جو ماضی کی انتخابی سرگرمیوں میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ بشمول پی ٹی آئی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کا خیر مقدم کیا تھا‘ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی بظاہر الیکشن میں التوا بھی نہیں چاہتیں‘ صرف جے یو آئی سرد موسم اور سکیورٹی کو جواز بنا کر الیکشن کو چند ماہ تک ملتوی کرنے کی بات کرتی ہے‘ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سیاسی جماعتیں انتخابات کیلئے تیار ہیں تو پھر الیکشن کو ملتوی کرنے کی کوشش کہاں سے ہو رہی ہے؟
سینیٹ میں الیکشن کو ملتوی کرنے کی قرار داد کی منظوری نے کئی طرح کے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ سینیٹ میں الیکشن کو ملتوی کرنے کی قرار داد پیش کرنے والے سینیٹر دلاور خان کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی چند سینیٹرز کی موجودگی کو سینیٹ کی آواز کہا جا سکتا ہے۔ قرار داد کی منظوری کے وقت ایوان بالا میں کم از کم 28 سینیٹرز کا ہونا ضروری ہے‘ 100کے ایوان کا فیصلہ محض 14 سینیٹر کیسے کر سکتے ہیں؟ ان14 سینیٹرز میں سے بھی دو تین نے قرارداد کی مخالفت کی‘ (ن)لیگ کے سینیٹر افنان اللہ نے قرار داد کی مخالفت کی ‘ کہنے کو یہ ایک آواز تھی مگر اسے مسلم لیگ (ن) کا پارٹی مؤقف سمجھ لیا گیا۔ پارٹی کو سینیٹر افنان اللہ کی سینیٹ میں قرار داد کے خلاف تقریر کا بھرپور سیاسی فائدہ ہوا ‘تاہم پیپلزپارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی قرار داد کی منظوری کے وقت خاموش رہے‘ اگر پیپلزپارٹی قیادت کی طرف سے سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار نہ کیا جاتا تو سینیٹر بہرہ مند تنگی کی خاموشی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی الیکشن میں التوا کے حق میں ہے۔ بعدازاں سینیٹر بہرہ مند تنگی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بھی اس قرار داد کی مخالفت کی تھی۔ اگر یہ درست ہے تو اس دعوے کا کوئی ثبوت سامنے لانا انہی کی ذمہ داری ہے۔پیپلز پارٹی نے قرارداد سے متعلق سینیٹر بہرہ مند تنگی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات دن کے اندر جواب طلب کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی سینیٹر ہیں جنہوں نے چند روز قبل سینیٹ میں پاک فوج اور سکیورٹی افسران کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے پر سزا کی قرارداد پیش کی تھی۔ بہرہ مند تنگی کی قرارداد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ملکی سرحدوں کے دفاع کے لیے مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ سینیٹ حکومت سے سفارش کرتی ہے کہ وہ افواج پاکستان اور دیگر سکیورٹی اداروں کے خلاف منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے میں ملوث پائے جانے والوں کو عوامی عہدے سے 10 سال کی نااہلی سمیت سخت سزا دینے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے۔ اس قرار داد کی منظوری کے محض پانچ روز بعد ایک قرارداد کی منظوری میں سینیٹر بہرہ مند تنگی کا نام آتا ہے تو سوال اٹھیں گے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر گردیپ سنگھ نے سینیٹر افنان اللہ کا ساتھ دے کر قرار داد کی مخالفت کی تھی‘ چونکہ سینیٹر افنان اللہ کے علاوہ مخالفت کرنے والے کسی دوسرے سینیٹر کی تقریر سامنے نہیں آ سکی اس لئے قرارداد پر ان کی خاموشی کو ہی مؤقف سمجھا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی کورم کی نشاندہی اور قرارداد کی مخالفت نہ کرنے پرسینیٹر گردیپ سنگھ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔ چونکہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا اس اعتبار سے یہ واضح ہے کہ انہوں نے واقعی قرارداد کی حمایت نہیں کی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں قرارداد سے متعلق ہونے والی کارروائی کی ویڈیو دیکھنے کا کہا ہے جس میں خاموش رہنے والے سینیٹرز کی جانب سے قرارداد کی حمایت یا مخالفت سے متعلق ساری حقیقت سامنے آ جائے گی۔
سینیٹ میں جس انداز سے قرار داد منظور کی گئی یہ ایوان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے‘ اس پر مستزاد یہ کہ سینیٹ سیکرٹریٹ نے الیکشن سے متعلق قرارداد کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزارت پارلیمانی امور کو فوری کارروائی کر کے دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز نے بعض آزاد سینیٹرز کے ساتھ مل کر اپنے تئیں الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد تو منظور کرا لی لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تینوں بڑی پارٹیاں ایک پیج پر دکھائی دے رہی ہیں۔ مطلب یہ کہ جو قوتیں الیکشن میں تاخیر چاہتی ہیں ان کیلئے جس مشترکہ جواب کی ضرورت تھی وہ مل چکا ہے‘ کیونکہ کسی جماعت نے اس قرار داد کی حمایت نہیں کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا ردعمل چیک کرنے کیلئے ایک پھلجھڑی چھوڑی گئی تھی۔
سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کی دوسری حیثیت قانونی ہے جس کے بارے ماہرین قانون کا خیال ہے کہ سینیٹ میں منظور ہونے والی اس قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 اور آئین کے تحت ہوں گے۔ قرارداد کی منظوری کے فوری بعد الیکشن کمیشن کا ردعمل بھی سامنے آ چکا ہے جس میں کہا گیا کہ سینیٹ قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں‘ انتخابات 8 فروری کو ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کے علاوہ کوئی احکامات الیکشن شیڈول پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ قرارداد میں انتخابات ملتوی کرنے کی جو دو بنیادی وجوہ بیان کی گئی ہیں سرد موسم اور سکیورٹی خدشات۔ اگر الیکشن کمیشن اپنے طور پر سمجھے گا کہ کچھ علاقوں میں واقعی یہ مسائل ہیں تب بھی سپریم کورٹ سے رجوع کئے اور اعتماد میں لئے بغیر کمیشن تنہا فیصلہ کرنے سے گریز کرے گا۔ یہ درست ہے کہ سینیٹ میں منظور کی جانے والی قرارداد کی قانونی حیثیت کمزور ہے‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرارداد پیش کرنے والے اور منظور کرنے والے سینیٹرز محض دو ماہ کے بعد سینیٹ سے ریٹائر ہونے والے ہیں اس کے باوجود خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں سکیورٹی خدشات سے انکار کی گنجائش نہیں‘ تاہم ان سکیورٹی خدشات کا جائزہ لینا اور حتمی نتیجے پر پہنچ کر انتخابات سے متعلق فیصلہ کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
انتخابی عمل کے تین اہم مراحل مکمل ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کے درمیان پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم شروع کر دی ہے‘ سب سے پہلے بلوچستان عوامی پارٹی نے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ ہمیں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے غور و خوض اور جانچ پڑتال کے بعد ٹکٹ جاری کئے ہیں جس میں ٹکٹ کے خواہش مندوں کو اعتماد میں لینے کے علاوہ ان سے حلف نامے لئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں تاکہ ایک سیٹ پر متعدد پارٹی امیدواروں کے درمیان پارٹی ووٹ بینک متاثر نہ ہو‘ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ جسے ٹکٹ دیا وہ ہار گیا اور نظر انداز کئے جانے والا امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ٹھہرا۔ جن امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکا انہیں سینیٹ کا ٹکٹ یا پارٹی عہدہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس لحاظ مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹوں کی تقسیم کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا ہے‘ اب جبکہ تمام سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کے اجرا کے طرف بڑھ رہی ہیں اور انتخابی عمل کے اہم مراحل بھی پورے ہو چکے ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن ملتوی کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی خواہش پوری نہیں ہو گی۔