ملک میں بارہویں عام انتخابات کا انعقاد اس جمہوری نظام کا تسلسل ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے‘ 2008ء سے 2024ء تک مسلسل چار حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے ‘ یہ جمہوری تسلسل کی دلیل ہے ‘مگر بدقسمتی سے کوئی بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا ۔یہ سیاسی عدم استحکام کی دلیل ہے۔ ابھی تک ہماری جمہوری اقدار محض اس قدر مضبوط ہوئی ہیں کہ اہلِ سیاست نے نامساعد حالات کے باوجود غیر جمہوری قوتوں کو جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع نہیں دیا‘ تاہم سیاسی معاملات میں مداخلت کسی نہ کسی انداز میں اب بھی جاری ہے۔ جب اہلِ سیاست اس کا ادراک کر لیں گے تو سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ فی الحال ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ تمام تر اندیشوں‘ خدشات‘ غیر معمولی و نامساعد حالات کے باوجود انتخابات کا انعقاد ممکن ہو پایا ہے۔ اس کا اظہارآرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نگران حکومت‘ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو بھی مبارک باد دیتے ہوئے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ''انتخابات جیتنے اور ہارنے کا معاملہ نہیں عوامی مینڈیٹ کے تعین کی مشق ہے‘‘۔ جن معاشروں میں مضبوط جمہوریت کا تصور ہے انہوں نے بھی ارتقائی سفر اور قربانیاں دینے کے بعد یہ مقام حاصل کیا ‘ فرق یہ ہے کہ ہم تاحال دنیا سے پیچھے ہیں۔
عام انتخابات کو مجموعی طور پر سکیورٹی اور شفافیت کے اعتبار سے تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے‘ تاہم الیکشن کے نتائج میں غیر معمولی تاخیر تشویش کا باعث ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ الیکشن 2018 کے آر ٹی ایس کی طرح الیکشن مینجمنٹ سسٹم بھی برُی طرح ناکام ہوا ‘ حالانکہ الیکشن کمیشن کا دعویٰ تھا کہ یہ انٹرنیٹ کے بغیر بھی کام کرے گا اور اسے ہیک نہیں کیا جا سکتا۔ قانون کے مطابق الیکشن ہونے کے بعد رات دو بجے کے بعد نتائج کا اعلان ضروری تھا‘ اگر کسی وجہ سے نتائج کا اعلان ممکن نہیں ہو سکا تو اگلے روز صبح 10 بجے تک نتائج کا اعلان ہونا چاہئے تھا‘ مگر دو روز گزرنے کے باوجود مکمل نتائج کا اعلان نہیں ہو سکا ۔ نتائج کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر نے شکوک و شبہات کو پنپنے کاموقع دیا اور پی ٹی آئی نے دھاندلی اور نتائج کو تبدیل کرنے کی شکایات شروع کر دیں‘ حالانکہ ابھی تک جو نتائج سامنے آئے ہیں انکے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سب سے آگے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سسٹم سے ناواقفیت کی بنا پر بے پرکی اڑا کر ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ ماضی میں جن طریقوں سے دھاندلی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں‘ اب وہ زمانہ نہیں رہا کیونکہ ہر پولنگ سٹیشن کا نتیجہ فارم 45کی صورت میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ جب کسی پولنگ سٹیشن پر ووٹنگ کا عمل مکمل ہوتا ہے تو امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے‘ اور ہر لحاظ سے تسلی کر لینے کے بعد فارم 45 پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط کیساتھ اس نتیجہ کو پولنگ سٹیشن کے باہرآویزاں کر دیا جاتا ہے‘ امیدوار کے پاس بھی فارم 45 کی ایک کاپی پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح امیدوار کے پاس حلقے میں موجود تمام پولنگ سٹیشنز سے فارم 45 پہنچ جاتے ہیں جن کی بنیاد پر چند منٹ میں امیدوار کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی پوزیشن کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو فارم 45 کی روشنی میں ہی فارم 47 جاری کرنا ہوتا ہے‘ جس پر ہار جیت اور حلقے کے تمام امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ یوںآسانی سے نتائج کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ امیدوار کے پاس فارم 45 موجود ہوتے ہیں‘ جن کی بنیاد پر وہ نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے‘ مگر بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ہارنے والا امیدوار اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے دھاندلی کی شکایت شروع کر دیتا ہے۔ اگر اس کے پاس دھاندلی کے ٹھوس شواہد ہوں تو انکی روشنی میں الیکشن کمیشن کے طریقہ کار کے مطابق دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ امیدوار جب دوبارہ گنتی کیلئے درخواست نہیں دیتا اور محض تحفظات کا اظہار کرتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ پوری حقیقت سے واقف ہے۔
انتخابات میںآزاد امیدواروں نے اکثریت حاصل کی ہے‘ دوبڑی سیاسی جماعتوں کو اب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ووٹ پڑنے کا انداز بدل چکا ہے‘ سیاسی جماعتیں جن نعروں پر دہائیوں تک ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں عوام کو ان نعروں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ الیکشن نتائج سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب عوام کی طاقت کسی جماعت کو حاصل ہوتی ہے تو لیڈر اگر میدان میں نہ بھی ہو تو پھر بھی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ عوام کی اکثریت نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے‘ جبکہ (ن)لیگ دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے‘ لیکن کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ سادہ اکثریت کیلئے 134 نشستیں درکار ہیں جبکہ حکومت بنانے کیلئے 169 نشستوں کی ضرورت ہو گی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کوئی بھی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ انتخابات جس ماحول میں ہوئے ہیں ۔حکومت سازی کا مرحلہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ دکھائی دیتا ہے۔ ایم کیو ایم‘ استحکام پاکستان پارٹی‘ جے یوآئی اور مسلم لیگ (ق) جیسی جماعتوں کی حمایت کے باوجود حکومت کیلئے درکار 169 نشستیں تو کجا ( ن)لیگ کی سادہ اکثریت یعنی 134نشستیں بھی نہیں بنتیں۔ 100 سے زائد نشستیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے حاصل کی ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی نے 54نشستیں حاصل کی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 265 نشستوں پر انتخابات ہوئے ہیں‘70 مخصوص نشستوں کیساتھ 336 نشستوں کا ایوان بنتا ہے۔ جو جماعت 134 نشستیں ظاہر کرتی ہے اسے 35مخصوص نشستیں حاصل ہوں گی۔ اس لحاظ سے تمام سیاسی جماعتیں کمزور پوزیشن پر کھڑی ہیں۔ اب حکومت بننے کی دو ہی صورتیں ہیں‘ یا تو دو بڑی جماعتوں میں سے کوئی آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملائے یا (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی اتحادیوں کیساتھ مل کر پی ڈی ایم طرز کی مخلوط حکومت بنائیں۔
آزاد امیدوار تقریباً ہر الیکشن میں کامیاب ہو کر ایوان کا حصہ بنتے رہے ہیں جو بالعموم اس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیتے تھے جس کے حکومت میںآنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں‘مگر اب کی بار معاملہ یکسر مختلف ہے کیونکہ اکثریت ہی آزاد امیدواروں نے حاصل کی ہے‘ لیکن اسے بھی سادہ اکثریت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو کامیابی کے بعد بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اس طرح کہ وہ مکمل طور پرآزاد نہیں ہیں۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بقول آزاد امیدوار ہر صورت پارٹی کے ساتھ رہیں گے کیونکہ انہوں سے حلف دیا ہے اور حلقے کے لوگوں نے بھی تسلی کر لینے کے بعد ہی انہیں ووٹ دیے تھے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو 72 گھنٹوں کے اندر کسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کرنا ہے‘ اگرآزاد امیدوار کسی جماعت میں شمولیت کا بروقت فیصلہ کرتے ہیں تو اس تناسب سے انہیں مخصوص نشستیں مل جائیں گی‘ بصورت دیگر وہ مخصوص نشستوں سے محروم رہیں گے۔ عوام نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دے دیا ہے‘ اگر تکنیکی بنیادوں پر انہیں مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا تو یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہو گی۔ مینڈیٹ کا تقاضا ہے کہ جس طرح دیگر جماعتوں کیلئے آئینی حدود میں رہ کر گنجائش نکالی جاتی رہی ہے ویسے ہی پی ٹی آئی کیلئے بھی نکالی جائے۔ انتخابات کے 70 فیصد نتائج آنے سے قبل نواز شریف کی ''وکٹری سپیچ‘‘ کا واحد مقصد یہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کسی قسم کی تاخیر کر کے حکومت سازی کیلئے میدان کسی جماعت کیلئے خالی نہیں چھوڑنا چاہتی۔ حکومت سازی کیلئے لاہور میں ہونیوالی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان کن امور پر اتفاق ہوا ہے اس کی تفصیلات سامنے نہیںآ سکیں البتہ مخلوط حکومت کے نمایاںآثار ہیں‘ جس میں ہر پارٹی اپنے مفادات کی اسیر ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مخلوط حکومت کو کمزور اور غیر مستحکم تصور کیا جاتا ہے جو شاید ہی دو سال برقرار رہ سکے۔