"RS" (space) message & send to 7575

دو مختلف طرزِ عمل

عام انتخابات کے دو ہفتے بعد بالآخر حکومت سازی کا عمل آگے بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 215 جبکہ سنی اتحاد کونسل کے 98اراکین نے حلف اٹھا لیا ہے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ ہونے پر سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ پنجاب اسمبلی کی 66میں سے 42مخصوص نشستیں الاٹ کر دی گئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو خواتین کی 36مخصوص نشستیں‘ پیپلزپارٹی کو تین‘ مسلم لیگ (ق) کو دو اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک نشست دی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی آٹھ میں سے پانچ اقلیتی نشستوں کا بھی نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کو ابھی تک مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی گئیں‘ مگر ان کی نشستیں کسی دوسری جماعت کو بھی نہیں دی گئیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے اپنے تئیں سمجھانے کی کوشش کی کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے مگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین یہ ماننے کیلئے تیار نہ تھے۔ جس ماحول میں اراکینِ پنجاب اسمبلی نے حلف اٹھایا ‘ اس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایوان کیسے چلے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ ایوان میں جو جماعت یا اتحاد اکثریت ثابت کرے گا اسے حکمرانی کا حق حاصل ہو گا۔ پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت کیلئے 186اراکینِ اسمبلی کی حمایت درکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پنجاب اسمبلی میں نومنتخب اراکین کی تعداد 160ہے‘ مخصوص نشستوں کو ملا کر پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) 201اراکین کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ (ن)لیگ کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے 14‘ (ق) لیگ کے 10 اور آئی پی پی کے چھ اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یوں مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اسمبلی میں مجموعی طور پر 230اراکین کے ساتھ اکثریت حاصل ہے‘ مگر تحریک انصاف یہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کہ دوسری جماعتوں کو بھی ووٹ پڑ سکتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں پی ٹی آئی سے زیادہ نشستیں تھیں لیکن کم نشستیں ہونے کے باوجود پی ٹی آئی نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنالی‘ اب جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں سادہ اکثریت کی بنیاد پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور اسے اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل ہے تو پی ٹی آئی اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس طرزِ عمل کو جمہوری قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اسی طرح وفاق میں حکومت بنانے کیلئے 169نشستیں درکار ہیں جو کہ کسی جماعت کے پاس نہیں۔ ظاہر ہے مطلوبہ تعداد پوری کرنے کیلئے دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانا پڑے گا‘ لہٰذا پی ٹی آئی یا تو ایوان کے اندر اکثریت ثابت کرے یا اسے دوسروں کی اکثریت قبول کر لینی چاہیے۔کیا پی ٹی آئی شہباز شریف کی وہ تقریر بھول گئی جو انہوں نے 2018ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر کی تھی؟ مسلم لیگ (ن) اس وقت زیر عتاب تھی۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز گرفتار تھے۔ ان مشکلات کے باوجود شہباز شریف نے ایوان میں اپنی پہلی تقریر میں میثاقِ معیشت کی دعوت دی تھی مگر اسے درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ وقت گزر گیا اور شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر جو طرزِعمل اختیار کیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ آج تحریک انصاف بالکل مختلف طرزِ عمل کے ساتھ کھڑی ہے۔ بانی پی ٹی آئی ہر سطح پر حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اس امر کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ اس طرزِ عمل سے ملک و قوم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسے حالات میں آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا مقصد کیا ہے؟جواز یہ تلاش کیا گیا ہے کہ اگر ایسے حالات میں ملک کو قرضہ ملا تو یہ قرض واپس کون کرے گا؟ سرمایہ کاری نہ ہونے کی صورت میں یہ قرض بڑھتا چلا جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے وہاں آئی ایم ایف سے آڈٹ کرایا جائے۔ اگر آڈٹ نہیں ہوتا تو آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ملک کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ مارچ میں آئی ایم ایف کا سٹینڈ بائی پروگرام ختم ہو رہا ہے۔ نومنتخب حکومت کو فوری آئی ایم ایف کے پاس نئے پروگرام کیلئے جانا ہو گا کیونکہ اگلے مالی سال کے دوران ملک کو تقریباً 25ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں لیکن زرِمبادلہ کے ذخائر کئی گنا کم ہیں۔ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کے بغیر معیشت تباہ ہو جائے گی۔ کیا بانی پی ٹی آئی یہی چاہتے ہیں؟ گزشتہ سال ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی تھیں مگر چین جیسے دوست ملک کے کلیدی کردار سے ہم دیوالیہ ہونے سے بچ گئے۔ کیا بانی پی ٹی آئی اب اس خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ قوم کو بتا سکیں کہ اتحادی جماعتوں نے ملک کو دیوالیہ کر دیا؟ پی ٹی آئی کا یہ طرزِ عمل پہلی بار سامنے نہیں آیا‘ اپریل 2022ء میں وفاق سے پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی اور پنجاب و خیبرپختونخوا میں حکومتیں برقرار تھیں تب بھی ایسی ہی منصوبہ بندی سے متعلق آڈیو لیک ہو چکی ہے۔ جانتے ہیں یہ کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہو سکیں کیونکہ بین الاقوامی ادارے شخصیات یا کسی خاص سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں چلتے‘ ریاستی سیٹ اَپ کے ساتھ ہی معاملات طے کرتے ہیں۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا۔ پروگرام نہیں رکا۔ اس بار بھی آئی ایم ایف نے نئی حکومت کے ساتھ چلنے کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے۔ ڈائریکٹر کمیونیکیشن آئی ایم ایف جولی کوزیک کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
بانی پی ٹی آئی ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں‘ خیبرپختونخوا میں ان کی تقریباً 10برس تک حکومت رہی ہے۔ اب وہاں تیسری بار انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ہے مگر قومی اداروں پر انہیں اعتماد نہیں‘ حالانکہ انہی اداروں سے وہ ریلیف حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر وہ آئی ایم ایف پروگرام کو ملتوی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وفاق کے کمزور ہونے سے صوبوں کو فنڈز کم ملیں گے۔ خیبرپختونخوا کو وفاق سے فنڈز کے حصول میں ہمیشہ شکوہ رہا ہے۔ نامزد وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی کہہ چکے ہیں کہ وفاق سے خیرات نہیں اپنا حصہ لیں گے۔ وفاق کمزور ہونے کی صورت میں صوبوں کو حصہ کہاں سے دے گا؟ کیا بانی پی ٹی آئی وفاق کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے مالی مسائل دیگر صوبوں کی نسبت گمبھیر ہیں۔ پی ٹی آئی دور کے آخری چند ماہ میں تو حکومت کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے۔ صحت کارڈ خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا کارنامہ مانا جاتا ہے مگر فنڈز کی کمی اور انشورنش کمپنیوں کو عدم ادائیگی کی بنا پر صحت کارڈ پر شہریوں کو علاج کی سہولت دستیاب نہیں رہی کیونکہ صوبائی حکومت کے ذمے انشورنش کمپنیوں کے اربوں روپے واجب الادا ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خیبرپختونخوا اسمبلی کا پہلا اجلاس طلب کرنے کی راہ میں بھی دراصل مالی مسائل حائل ہیں۔ تاحال خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس طلب کیے جانے کی کوئی تاریخ سامنے نہیں آ سکی ہے۔ اب جبکہ مرکز میں اتحادی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے تو خیبرپختونخوا میں قبل از وقت اس کے خطرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ مالی بحران اگرچہ پرانا ہے اور بند منصوبوں کو چلانے کیلئے بھاری پیسہ درکا ہے مگر خیبرپختونخوا میں اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے وفاق پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ بانی پی ٹی آئی جس راستے پر چل رہے ہیں‘ ان کے حامی بھی آنے والے دنوں میں اسی راستے پر چلتے دکھائی دیں گے۔ اس لیے انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام کا خواب پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں