وزیراعظم شہباز شریف کا دورۂ چین کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ غیر ملکی دوروں میں وزیراعظم کے ہمراہ وفاقی وزرا اور معاشی ٹیم کا جانا معمول کا حصہ سمجھا جاتا ہے‘ تاہم اعلیٰ سطحی وفد میں تاجروں کی بڑی تعداد کا شامل ہونا غیر معمولی تھا۔ پاکستانی تاجروں کی چینی تاجروں کے ساتھ نشستوں کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات اس بات کی عکاسی کر رہی تھی کہ سکیورٹی چیلنجز پر قابو پانے اور چینی باشندوں کی حفاظت کیلئے پاکستان کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔ 'ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے کے تحت سی پیک کا آغاز بلاشبہ پاکستان کیلئے اہم کامیابی تھی مگر سی پیک کا دوسرے میں داخل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور بدخواہوں کی بسیار کوششوں کے باوجود اس عظیم منصوبے میں تعطل نہیں آیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کی پذیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے 32 نکات پر مشتمل طویل اعلامیہ جاری کیا ہے۔
چین کے وزیراعظم لی قیانگ اور چینی صدر شی جن پنگ کی خصوصی دعوت پر وزیراعظم شہباز شریف کے 4 جون سے 8 جون تک‘ چین کے سرکاری دورے کے اعلامیے کے مطابق پاکستان اور چین ہر موسم میں ایک دوسرے کے آہنی دوست ہیں اور ہمیشہ سے ایک دوسرے کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات 73 سال پرانے ہیں اور یہ تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔ چین اپنے خارجہ تعلقات میں پاکستان کو ترجیح دیتا ہے جبکہ پاکستان چین سے اپنے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون سمجھتا ہے۔ چین نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے جبکہ پاکستان نے ون چائنا کے اصولی مؤقف پر اپنی مضبوط وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ تائیوان عوامی جمہوریہ چین کا لازمی حصہ ہے اور پاکستان قومی اتحاد کو حاصل کرنے کیلئے چینی حکومت کی ہر کوشش کی پُرزور حمایت کرتا ہے اور تائیوان کی آزادی کی کسی بھی شکل کی مخالفت کرتا ہے۔ دونوں ممالک حکمت عملی پر مبنی باہمی اعتماد‘ مختلف شعبوں میں تعاون اور بین الاقوامی و علاقائی امور پر قریبی تعاون کے ذریعے اپنے تعلقات کو مزید مضبوط تر بنا رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے افغانستان‘ فلسطین اور خطے کے دیگر اہم مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا اور بین الاقوامی امن و سلامتی کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے چین کو کشمیر کے مسئلے پر اپنے مؤقف سے آگاہ کیا اور چین نے اس مسئلے کااقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نکالنے کی بات کی۔ دونوں ممالک نے ایک منصفانہ اور زیادہ برابر دنیا اور فائدہ مند اقتصادی گلوبلائزیشن کی بات کی اور کسی بھی قسم کی جارحیت اور یکطرفہ اقدامات کی مخالفت کی۔ چین نے ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں مدد جاری رکھنے کا وعدہ کیا اور پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ‘ شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر پلیٹ فارمز پر کام کرنے پر زور دیا۔
دورۂ چین میں وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ کاروباری وفد کا جانا ایک ایسا اقدام ہے جس بارے اس سے قبل نہیں سوچا گیا۔ اس دورے کے دوران حکومت اور کاروباری برادری کے درمیان براہِ راست بات چیت سے دوطرفہ تجارت میں اضافے کی نئی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔ بزنس ٹو بزنس تعلقات سے کمپنیاں ایک دوسرے کی ضروریات اور مصنوعات کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں۔ چینی فرمز پاکستانی کمپنیوں کو وہ خام مال یا مشینری فراہم کر سکتی ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے اور اس کے عوض پاکستانی کمپنیاں چین کو اپنی اعلیٰ معیار کی مصنوعات برآمد کر سکتی ہیں۔ اس سے نہ صرف تجارت کا حجم بڑھے گا بلکہ مصنوعات کی ترقی اور نئی مارکیٹوں تک رسائی میں بھی مدد ملے گی۔'بی ٹو بی‘ تعلقات سے نئی ٹیکنالوجی اور مہارت کا تبادلہ ممکن ہو گا۔ پاکستانی کمپنیاں چینی کمپنیوں سے جدید مشینری اور پیداوار کے طریقوں کے بارے میں سیکھ سکتی ہیں‘ اس سے دونوں ممالک کی صنعتوں کو ترقی دینے میں مدد ملے گی اور عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی صلاحیت بڑھے گی۔چین نے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) کے تحت پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کی یقین دہانی کرائی ہے‘ جی ڈی آئی دراصل چین کی طرف سے تجویز کردہ ایک بین الاقوامی ترقیاتی اقدام ہے جس کا مقصد 2030ء کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے حصول کو تیز کرنا ہے۔ اسے ستمبر 2022ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں متعارف کرایا گیا تھا اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ متفقہ تصور قرار دیا گیا ہے۔ غربت اور بھوک میں کمی۔ صحت اور تعلیم میں بہتری۔ صنفی مساوات اور خواتین کی بااختیاری میں اضافہ۔ پائیدار ترقی کے لیے پُرامن اور جامع معاشرے کو فروغ دینا۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنا اس ایجنڈے کے اہم نکات ہیں۔
دورے کے اختتام پرپاکستان اور چین نے 23 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے جن میں سی پیک‘ زراعت‘ انفراسٹرکچر‘ صنعتی تعاون‘ بین الحکومتی ترقیاتی امداد‘ مارکیٹ ریگولیشن‘ سروے اور نقشہ سازی‘ تعلیم‘ صحت‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ ثقافت اور سیاحت شامل ہیں۔ ان معاہدوں اور یادداشتوں میں سی پیک کے تحت متعدد نئے منصوبوں مثلاً گوادر بندرگاہ کی توسیع اور کراچی تا پشاور موٹر وے کا دوسرا مرحلہ بھی شامل ہیں۔ دونوں ممالک نے زراعت کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ زرعی ترقی کیلئے بیجوں کی ٹیکنالوجی‘ فصلوں کی کاشت‘ ڈرپ اِریگیشن‘ جانوروں اور پودوں کی بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول‘ پیداوار کی صلاحیت کے تعاون اور زرعی ٹیکنالوجی کے تبادلے جیسے شعبوں میں دونوں ممالک عملی تعاون کریں گے۔ اس دورے میں ایم ایل ون منصوبے میں اہم پیشرفت ہوئی۔ یہ سی پیک کا سب سے اہم منصوبہ ہے‘ کراچی تا پشاور 1726 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی اَپ گریڈیشن اور حویلیاں کے قریب ڈرائی پورٹ کی تعمیر سے صنعتی ترقی میں اضافہ ہو گا۔چین نے پاکستان کی صنعتی ترقی کے عزم کا اعادہ کیا ہے‘ اس مقصد کیلئے چینی حکومت چینی کمپنیوں کو مارکیٹ اور تجارتی اصولوں کے مطابق پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے گی۔ پاکستان نے چینی سرمایہ کاری کو مزید آسان بنانے کیلئے اپنے کاروباری ماحول اور پالیسی فریم ورک کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
صنعتی تعاون کے تحت دونوں ممالک نے خاص اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری اور مشترکہ وینچرز کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ بین الحکومتی ترقیاتی امداد کے تحت چین نے پاکستان کو مالی امداد اور قرضے فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے تبادلے‘ مشترکہ تحقیقی پروگراموں اور یونیورسٹیوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ صحت کے شعبے میں دونوں فریقوں نے بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول‘ طبی تعلیم اور تحقیق اور روایتی چینی طب میں تعاون کو فروغ دینے اور ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں ثقافتی تبادلے‘ سیاحتی تعاون اور لوگوں کے درمیان رابطوں کے فروغ پر اتفاق کیا۔یہ معاہدے اور یادداشتیں پاکستان اور چین کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور دونوں ممالک کے عوام کیلئے فوائد پیدا کرنے کا سبب بنیں گی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور چینی صدر شی جن پنگ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور چین کا تعلق ناقابلِ تسخیر ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کھلے دل اور مضبوط اعتماد کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ وزیراعظم کا پانچ روزہ دورۂ چین نہایت کامیاب رہا۔ اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستانی وفد کو چین کی معاشی ترقی کے ماڈل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جن افراد کی بدولت چین نے ترقی کی منازل طے کیں ان کے ساتھ کئی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ چین نے ایسا موقع شاید ہی کسی دوسرے ملک کو فراہم کیا ہو۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم چین کی ترقی اور تعاون سے کیا حاصل کرتے ہیں۔