پاکستان کے قبائلی اور افغانستان سے متصل سرحدی اضلاع‘ جو آج دہشت گردی سے متاثر ہیں‘ کبھی امن و سلامتی اور مہمان نوازی کے لیے جانے جاتے تھے۔ یہاں رہنے والے قبائل صدیوں پرانی روایات کے امین تھے‘ جن میں مہمان کی عزت اور امن کا قیام بنیادی اہمیت رکھتے تھے۔ قبائلی جرگے مسائل کو حل کرنے اور عدل قائم کرنے کا ذریعہ تھے‘ ان جرگوں کے فیصلوں کو بڑی حد تک تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہاں امن کی وجہ قبائلی روایات کی مضبوطی تھی۔ پہاڑی سلسلے اور دشوار گزار راستے بیرونی حملوں کو روکنے میں مددگار تھے اور قبائل اپنی زمین کی حفاظت کے لیے متحد رہتے تھے۔ اس کے علاوہ تجارت اور نقل و حمل کے لیے بھی یہ علاقے اہم تھے۔ قبائل اپنے علاقے سے گزرنے والے لوگوں کے محافظ تھے کیونکہ اس سے ان کی آمدنی اور خوشحالی وابستہ تھی‘ لیکن پھر 1970ء کی دہائی میں حالات بدلنا شروع ہوئے۔ افغانستان میں سوویت جنگ کے دوران سرحدی علاقے عسکریت پسندوں کے اہم مراکز بن گئے۔ غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد اور اسلحے کی فراوانی نے اس علاقے کے امن اور سلامتی کو متاثر کیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی یہ علاقے عدم استحکام کا شکار رہے اور شدت پسند گروہوں نے انہیں اپنی محفوظ پناہ گاہ بنا لیا۔ قبائلی روایات‘ جنہوں نے صدیوں تک اس علاقے میں امن قائم رکھا‘ وہ نئے حالات میں کمزور پڑ گئیں۔ بیرونی مفادات اور شدت پسندوں کے ایجنڈے نے قبائلی اتحاد کو متاثر کیا اور علاقے میں لڑائی جھگڑا عام ہو گیا۔ اس تبدیلی کے کئی منفی نتائج برآمد ہوئے۔ جب پُرامن قبائل کا امن غارت ہوا‘ عسکریت پسند مضبوط ہو گئے اور ریاست کی رِٹ کو کھلے عام چیلنج کیا جانے لگا تو ریاست شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوگئی۔
2007ء میں کالعدم ٹی ٹی پی نے سوات میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا اور علاقے میں سخت گیر قوانین نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی اور ایک امن معاہدے پر دستخط کیے لیکن کالعدم ٹی ٹی پی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور علاقے میں تشدد پھیلانا شروع کر دیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں سے سوات میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی۔ عوام خوف و ہراس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کالعدم تنظیم نے لڑکیوں کے سکول بند کر دیے‘ خواتین پر پابندیاں لگائیں اور مخالفین کے خلاف تشدد کا بازار گرم کر دیا۔ سوات میں سیاحت اور کاروبار بھی شدید متاثر ہوا۔ حکومت نے بار بار کالعدم ٹی ٹی پی سے امن معاہدے پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا لیکن طالبان نے اس پر توجہ نہ دی۔ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ جہاں فوجی کارروائی کے بغیر امن بحال کرنا ناممکن تھا‘ سو2009ء میں سوات میں آپریشن راہِ نجات شروع کیا گیا۔ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ آپریشن تھا۔ اس آپریشن کے دوران بلاشبہ حکومت کو کامیابی ملی اور علاقے میں دہشت گردی کم ہوئی لیکن شدت پسند عناصر کے خلاف آپریشن کی قیمت مقامی لوگوں کو نقل مکانی کی صورت چکانا پڑی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اس آپریشن کے دوران تقریباً 20لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جس میں بچے‘ بوڑھے اور خواتین سبھی شامل تھے۔ یہ لوگ اپنا گھر اور کاروبار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ سوات میں آپریشن کے بعد شدت پسند عناصر نے وزیرستان کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس آپریشن کے کچھ عرصہ بعد جب دہشت گردی کے واقعات میں دوبارہ اضافہ ہوا تو پھر سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی آوازیں اٹھنے لگیں‘ مگر اس بار کچھ حلقے سوات طرز آپریشن کے حق میں نہیں تھے۔ تب دو طرح کی سوچ سامنے آئی‘ ایک تو مقامی لوگ نقل مکانی کے سخت خلاف تھے‘ دوسرے سب کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کو سخت ناپسند کرتے تھے‘ سو یہاں سے 'گڈ طالبان‘ اور 'بیڈ طالبان‘ کی اصطلاح سامنے آئی اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ آپریشن سے پہلے ایک بار طالبان کو مذاکرات کو موقع دیا جانا چاہیے‘ اس مقصد کے لیے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی مگر بوجوہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔
16دسمبر 2014ء کی وہ صبح پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن کر رہ گئی جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے نے پورے ملک کو صدمے اور غم میں مبتلا کر دیا۔ یہ حملہ نہ صرف اپنی منصوبہ بندی کے لحاظ سے بلکہ بے گناہ و معصوم بچوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے بھی بدترین دہشت گرد حملوں میں سے ایک تھا۔ چھ مسلح دہشت گرد سکول کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور بلاتمیز اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس فائرنگ اور خودکش بم حملوں میں کم از کم 149افراد شہید ہوئے جن میں سے 132سے زائد بچے تھے۔ اس حملے کا منظر انتہائی دل دہلا دینے والا تھا۔ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد چونکہ حکومت اور عوام میں شدید غم و غصہ موجود تھا اس لیے حکومت نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی کا عزم کیا۔ سول و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور دو فیصلے کیے‘ ایک نیشنل ایکشن پلان کی منظوری‘ دوسرا آپریشن ضربِ عضب۔ اگرچہ آپریشن ضربِ عضب کا آغاز آرمی پبلک سکول پر حملے سے پہلے ہی کیا جا چکا تھا لیکن اس حملے نے حکومت کے اس عزم کو پختہ کیا اور وہ آوازیں خاموش ہو گئیں جو مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی حامی تھیں۔ اس آپریشن کا مقصد شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا تھا۔ آپریشن ضربِ عضب جون 2014ء میں شروع ہوا اور جون 2020ء تک جاری رہا‘ یعنی یہ آپریشن تقریباً چھ سال تک جاری رہا۔ اتنی طویل مدت تک جاری رہنے والا یہ آپریشن پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فوجی آپریشنز میں سے ایک ہے۔ اس آپریشن کے دوران بھی کافی لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے اور انفراسٹرکچر بھی متاثر ہوا۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پہلا فیصلہ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے مگر دس سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ‘ اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت اور غیر قانونی مسلح گروہوں کے خلاف سخت کارروائی سمیت 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے کئی نکات پر عمل ہونا اب بھی باقی ہے۔ ایسے موقع پر‘ جب حکومت بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کوشاں ہے‘ اندرونی سطح پر سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنا نہایت اہم ہے۔
چین جیسے دیرینہ دوست نے بھی ہمیں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اندرونی سکیورٹی بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سول و عسکری قیادت نے اتفاقِ رائے سے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے‘ انسدادِ دہشت گردی کی قومی مہم کو از سر نو متحرک کرتے ہوئے آپریشن ''عزمِ استحکام‘‘ شروع کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس آپریشن کی مکمل تفصیلات اگرچہ ابھی سامنے نہیں آئی ہیں تاہم شنید ہے کہ یہ ماضی میں کیے گئے آپریشنز سے مختلف ہو گا۔ اس کا دائرہ کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہو گا۔ لیکن اپوزیشن نے اس آپریشن پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جامع حکمت عملی کی تشکیل اور تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاقِ رائے ضروری ہے تاکہ آپریشن عزمِ استحکام دہشت گردی سے نجات اور پاکستان کے حقیقی استحکام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکے۔