پی ٹی آئی مقتدرہ سے مصالحت چاہتی ہے۔ اپریل 2022ء میں اقتدار سے محرومی کے بعد دو برس تک مقتدرہ کے خلاف بیانیہ بنایا گیا مگر اس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ پی ٹی آئی کی آخری امید عام انتخابات میں اکثریت کا خواب تھا کہ سیٹیں اتنی مل جائیں کہ سارے داغ دھل جائیں ‘ مگر یہ خواب حقیقت کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ دھاندلی کا شور برپا ہوا مگر وہ تیر بھی خالی گیا تو مقتدرہ کے ساتھ بیک ڈور چینل سے رابطے شروع ہوئے۔ مقتدرہ کے ساتھ بات چیت کیلئے جس شخصیت کا انتخاب کیا گیا وہ عوامی حلقوں میں مقتدرہ کے خلاف بھرپور آواز بلند کرتے ہیں تاہم حالات کو معمول پر لانے کیلئے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں‘ یہ دو رخا بیانیہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی مقتدرہ کے کچھ اہم نمائندوں سے کافی مدت سے راہ و رسم تھی۔کچھ عرصہ سے جاری ان ملاقاتوں کو مخفی رکھا گیا مگر چند دن پہلے وہ خود تسلیم کر چکے ہیں کہ مقتدرہ سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں‘ البتہ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ابھی معاملات فیصلہ کن مرحلہ تک نہیں پہنچے۔ پی ٹی آئی کی مقتدرہ کے ساتھ اندرونِ خانہ بات چیت کے حوالے سے دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک یہ کہ تلخیوں کو کم کرنے کیلئے حکمت‘ بصیرت اور مہارت درکار ہوتی ہے ۔کیا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پارٹی کی ساکھ کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ علی امین گنڈا پور کے مزاج سے کون واقف نہیں۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اور وزیراعلیٰ کی ساکھ پر ان کی اپنی ہی پارٹی کے لوگ اعتراض کرنا شروع ہو گئے ہیں حالانکہ ابھی حکومت قائم ہوئے پانچ ماہ ہوئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ پشاور مقتدرہ کی شخصیات ایک صوبے تک محدود ہیں تو کیا قومی نوعیت کے معاملے کو حل کرنے میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ ہمارے ذرائع سے موصول معلومات کے مطابق جب علی امین گنڈا پور اور پشاور مقتدرہ کی ابتدائی ملاقاتیں ہوئیں تو عمران خان کی جانب سے مطالبات کی ایک لسٹ پیش کی گئی۔ عمران خان کو جیل سے باعزت رہا کیا جائے‘ نئے انتخابات کرائے جائیں اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ علی امین گنڈا پور جب یہ مطالبات لے کر گئے تو انہیں پیغام دیا گیا کہ یہ ایسے مطالبات ہیں جنہیں آگے پہنچایا بھی نہیں جا سکتا۔ اس کے بعد عمران خان علی امین گنڈا پور سے ناراض بھی ہوئے کہ اگر آپ سے یہ کام نہیں ہو سکتا تھا تو اس کام کا بیڑا کیوں اٹھایا۔ سنا ہے اس کے بعد علی امین گنڈا پور کے خلاف انکوائریاں شروع کی گئیں جو وزیراعلیٰ اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان سرد مہری کی غمازی کرتی ہیں۔
نرم رویہ مذاکرات کیلئے بنیادی شرط ہے۔ نرم رویے کے بغیر تلخیاں کم نہیں کی جا سکتی ہیں۔ جس فریق سے مصالحت کی کوششیں جاری ہوں اس کے خلاف معمولی باتیں بھی مذاکرات کو سبوتاژ کر سکتی ہیں چہ جائیکہ باقاعدہ محاذ کھول کر توپوں کا رُخ اس فریق کی جانب کر لیا جائے۔ پی ٹی آئی مگر بڑی شد و مد کے ساتھ تنقید بھی کر رہی ہے اور مذاکرات کی بھی خواہاں ہے۔ پی ٹی آئی کے رویے میں تبدیلی اعلیٰ قیادت سے لے کر کارکنوں تک نظر آنی چاہیے۔ تاہم پی ٹی آئی بالخصوص جماعت کے سوشل میڈیا ونگ کا رویہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آرمی چیف کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے جاری ہوتے ہوئے مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کی بیل کیسے منڈھے چڑھ سکتی ہے؟ سیاستدان آپس میں بات چیت کریں اس سے بہتر کوئی راستہ ہو نہیں سکتا۔ ہم مزاج لوگوں کے ساتھ بات کرنا اور انہیں قائل کرنا قدرے آسان ہوتا ہے مگر پی ٹی آئی نے اپنے لیے بظاہر مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ شاید اس لیے کہ عمران خان اقتدار میں واپسی کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔ جب مذاکرات کی بات نہیں بن پڑی تو عمران خان نے یوٹرن لیا اور مؤقف اختیار کیا کہ اگر سی سی ٹی وی فوٹیج کے شواہد پیش کیے جائیں تو وہ معافی مانگ لیں گے‘ حالانکہ شواہد موجود ہیں۔ پنجاب پولیس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق نو مئی کے بعد سات دن کے اندر81وڈیوز بطور ڈیجیٹل ثبوت سامنے آئیں اور 400سے زائد ڈیجیٹل شواہد عدالتوں میں جمع کروائے گئے۔ کلوز سرکٹ کیمروں سے 2046تصاویر تفتیش کا حصہ بنیں اور انہی کیمروں نے 542مشتعل مظاہرین کے چہرے شناخت کیے۔ کیمروں سے 305نمبر پلیٹس کا ریکارڈ بھی حاصل کیا گیا۔ پی ٹی آئی کارکنوں کی تصاویر‘ وقت اور لوکیشنز کے ساتھ موجود ہیں۔ نو مئی کو تین کروڑ چار لاکھ 60ہزار مالیت کے کیمرے اور سائٹس تباہ کی گئیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج پر اصرار اس لیے ہے کہ شرپسندوں نے کیمرے بھی جلا ڈالے تھے یا ناکارہ کر دیے تھے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج صرف ایک پہلو ہے‘ جیوفینسنگ اور دیگر جدید ذرائع کو کیسے نظر اندار کیا جا سکتا ہے؟ نو مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث افراد کے پی ٹی آئی قیادت سے روابط کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ سینکڑوں فون کالز ٹریس ہوئیں جو پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو کی گئی تھیں۔ فوجی تنصیبات اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں جیو فینسنگ کی مدد سے ملزمان کو ٹریس کیا گیا۔ البتہ پنجاب پولیس اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد کا حقائق پر مبنی ہونا اور اس کی فرانزک تحقیقات ہونا باقی ہے۔ جب ثبوت کی بات ہی نہیں ہے تو پھر عمران خان کیا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے وہ مصالحت چاہتے ہیں‘ لیکن ہمیشہ کی طرح پورا سچ بولنے یا حقیقت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ کچھ دن پہلے خواجہ آصف نے کہا تھا کہ اگر عمران خان معافی مانگ کر سیاسی دھارے کا حصہ بن جاتے ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے خان صاحب کو وہ بات اب سمجھ آئی ہے۔ اب بال بظاہر ان کے کورٹ میں ہے لیکن انہیں غیر مشروط معافی مانگنی ہو گی۔ کیا عمران خان غیر مشروط معافی مانگیں گے؟ وہ غیرمشروط معافی مانگیں گے تو ممکن ہے پی ٹی آئی کے کئی لوگوں کے نو مئی کے حملوں میں نام آئیں۔ تو کیا بانی پی ٹی آئی خود کو اور پارٹی کو بچانے کیلئے بعض رہنماؤں کی قربانی دیں گے؟
نو مئی کے شواہد پی ٹی آئی کے خلاف ہیں۔ اگر اس بنیاد پر فیصلہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کو بہت سے حساب دینا پڑیں گے۔ عمران خان کی مشروط معافی کے معاملے پر کبھی اقرار کبھی انکار سے معاملات حل نہیں ہو سکتے۔ انہیں ایک مؤقف پر قائم رہنا ہو گا۔ قید و بند کا راستہ مشکل اور طویل ہے۔ جب عمران خان گرفتار ہوئے تو یہ تاثر دیا گیا کہ انہوں نے مصالحت کی بجائے مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ اندرونِ خانہ مصالحت کیلئے کوششیں اس مؤقف کی نفی کرتی ہیں۔ دوسرا راستہ مصالحت کا ہے پی ٹی آئی مصالحت کی خواہاں بھی ہے مگر سیاستدانوں سے نہیں مقتدرہ سے مصالحت چاہتی ہے۔ مصالحت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خان صاحب خود ہیں جو مخمصے کا شکار ہیں کہ اپنی ذات کو بچائیں یا پارٹی اور ووٹ بینک کو؟ بات ترجیحات کی ہے لیکن فیصلہ بہرصورت عمران خان ہی کو کرنا ہے۔ ایک تیسرا آپشن بھی ہے جسے اختیار کرکے بانی پی ٹی آئی اپنی اور پارٹی کی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں‘ وہ ہے غیر مشروط معافی۔ لیکن عمران خان اس خوف کا شکار ہیں کہ وہ غیرمشروط معافی مانگیں گے تو اسے اعترافِ جرم تصور کیا جائے اور پھر ان کا سزا سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔ خاموشی مسائل کا حل نہیں‘ بانی پی ٹی آئی کو قدم اٹھانا ہی ہو گا۔ شاد عظیم آبادی نے شاید ایسے ہی موقع پر کہا تھا کہ
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے