"RS" (space) message & send to 7575

نوجوانوں کی ڈھال

پی ٹی آئی نے اگلا جلسہ راولپنڈی میں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کے جلسے پی ٹی آئی کیلئے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے اعتبار سے اہم تھے مگر ان جلسوں میں لوگوں کی تعداد بوجوہ کم تھی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جلسہ گاہ کو پورا بھرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور ناقدین کے مطابق جلسوں میں رات کے اندھیرے کا انتظار اسی لیے کیا جاتا ہے کہ چند ہزار کے مجمع کو لاکھوں کا مجمع ظاہر کیا جا سکے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور لاہور کے جلسوں کی ناکامی کے بعد حکومت دباؤ سے باہر آ چکی ہے‘ حکومت کو اندازہ ہو چکا ہے کہ اب وہ معمولی مزاحمت سے پی ٹی آئی کا راستہ روک سکتی ہے‘ سو جب اسلام آباد اور لاہور میں جلسوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو راولپنڈی یا اس کے بعد کسی دوسرے شہر میں ہونے والے جلسے سے مطلوبہ مقاصد کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟
جلسوں کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟ پی ٹی آئی قیادت برملا کہہ چکی ہے کہ وہ خان صاحب کی رہائی کیلئے جلسے کر رہی ہے‘ کیا جلسوں کے ذریعے خان صاحب کی بے گناہی ثابت کی جا سکتی ہے؟ خان صاحب کو اگر ریلیف مل سکتا ہے تو وہ عدلیہ سے ملے گا‘ تاہم پی ٹی آئی مقتدرہ کے ساتھ ساتھ عدلیہ سے بھی محاذ آرائی اختیار کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسے ناکام ہو رہے ہیں‘ جب تک لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا جمِ غفیر باہر نہیں نکلتا‘ حکومت اور مقتدرہ پی ٹی آئی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ حکومت کی کوشش ہو گی کہ وہ رکاوٹیں کھڑی کرے تاکہ جلسوں میں کم سے کم لوگ شریک ہوں‘ پی ٹی آئی ان رکاوٹوں کو بطورِ عذر پیش نہیں کر سکتی‘ پی ٹی آئی کا کام تھا کہ وہ ان رکاوٹوں کے باوجود لوگوں کو باہر نکال کر حکومت کو حیران کر دیتی۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں اس وقت جو لوگ شریک ہو رہے ہیں ان میں اکثریت خان صاحب کی محبت میں حاضری لگوانے جاتی ہے‘ جلسوں میں وہ نظریاتی کارکنان نظر نہیں آتے جو کسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں عوام کے مسائل کا ذکر کیوں نہیں؟ عوامی مشکلات کو اپنی مہم میں شامل کیے بغیر کوئی تحریک کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بطور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے پاس نہ ایوان کے اندر کوئی سٹرٹیجی ہے اور نہ ایوان سے باہر۔ شاید پی ٹی آئی قیادت کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کس سمت جا رہی ہے۔
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بیساکھیاں چھن جانے کے بعد پی ٹی آئی کے پاس آگے بڑھنے کیلئے کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں رہی۔ جس جماعت کے پاس مشکلات سے نکلنے اور آگے بڑھنے کی حکمت عملی نہ ہو وہ جماعت عوام کے ذہنوں سے بہت جلد محو ہو جاتی ہے۔ اس ملک میں کتنی ہی جماعتیں قائم ہوئیں‘ ملکی سطح پر ابھریں ‘ اقتدار کا حصہ بنیں مگر آج عوام کی اکثریت ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔ الیکشن کمیشن میں 166 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں لیکن عملی طور پر تقریباً ڈیڑھ درجن جماعتیں ہی میدان میں ہیں۔ ایئر مارشل(ر) اصغر خان نے 1970ء میں تحریک استقلال کی بنیاد رکھی تھی‘ جو ایک وقت میں پاکستان کی دوسری مقبول ترین جماعت تھی آج اس مقبول جماعت سے کتنے لوگ واقف ہیں؟ پاکستان مسلم لیگ سے نکلنے والی مسلم لیگ جونیجو‘ مسلم لیگ جناح‘ مسلم لیگ قیوم کو آج کتنے لوگ جانتے ہیں؟ کچھ جماعتیں علاقائی سطح تک سکڑ گئیں‘ کچھ صوبوں تک محدود ہو کر رہ گئیں‘ ملکی سطح پر صرف وہی جماعتیں نمایاں ہوئیں جو عوام کی آواز بنیں۔
پی ٹی آئی نوجوانوں کی جماعت ہونے کی دعویدار ہے‘ بلاشبہ نوجوانوں نے پی ٹی آئی اور خان صاحب پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے وفاق اور تین صوبوں میں حکومت بنائی تو کچھ ہی عرصہ کے بعد مہنگائی نے سر اٹھا لیا۔ آئی ایم ایف سے پروگرام کے حصول میں تاخیر پر پی ٹی آئی پر تنقید ہونے لگی لیکن نوجوان پھر بھی پُراعتماد رہے کہ خان صاحب سب ٹھیک کر دیں گے۔ کورونا کی عالمی وبا نے بھی خان کو سنبھلنے کا موقع فراہم کیا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کا ساتھ دیتی رہی لیکن اقتدار کے تین سال گزر گئے اور مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی تو اس اعتماد میں کسی قدر کمی واقع ہوئی۔ مارچ 2022ء میں جب اپوزیشن اتحاد نے خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تو خان صاحب کو ایک بار پھر ہمدردی حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے اس موقع کو خوب کیش کرایا‘ سائفر سازش اور امریکی مداخلت کے بیانیے پر نوجوان خان صاحب کے گرویدہ ہو گئے کہ یہ پہلا شخص ہے جو امریکہ کے سامنے سینہ تان کر اپنے مؤقف پر کھڑا ہو گیا ہے۔ خان صاحب نے اس مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے ملک بھر میں جلسے کیے‘ پھر وہ نوجوانوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے لگے۔ جب پولیس زمان پارک میں خان صاحب کی رہائش گاہ پر گرفتاری کے لیے جاتی تو پی ٹی آئی رہنما اور کارکنان رکاوٹ بن جاتے اور راتوں کو جاگ کر پہرہ دیا جاتا۔ زمان پارک میں باقاعدہ حاضری لگنے لگی۔ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان یہ کہنے لگے کہ خان صاحب ہماری ریڈ لائن ہیں‘ اگر اس لائن کو پار کیا گیا تو وہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ جب نو مئی 2023ء کو خان صاحب گرفتار ہوئے تو پی ٹی آئی نے شدید ردعمل دیا‘ قومی و دفاعی تنصیبات بھی محفوظ نہ رہیں۔ ابتدائی طور پر پی ٹی آئی نے نو مئی کے واقعات کا دفاع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر ہماری ریڈ لائن کو پار کیا گیا تو ہم ردِعمل دیں گے حتیٰ کہ خان صاحب نے خود بھی سپریم کورٹ میں یہی بیان دیا کہ کارکنان کو کنٹرول کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ نومئی کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں مگر خان صاحب اب بھی سمجھتے ہیں کہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کرکے حالات کا دھارا پلٹا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کیلئے عملی طور پر عوام کو باہر نکالنا اب کتنا مشکل ہے‘ یہ حالیہ جلسوں میں کارکنان کی تعداد کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو احساس ہونے لگا ہے کہ جو نوجوان مشکلات کے باوجود پارٹی کی ڈھال بنے ہوئے تھے وہ دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ نوجوان باہر نکل کر حالات کا دھارا بدل دیں گے‘ ایک مشقِ لاحاصل اور نوجوانوں کو تھکانے کے سوا کچھ نہیں۔
پی ٹی آئی کی قومی دھارے میں واپسی اور خان صاحب کو مقدمات سے ریلیف دینے کیلئے جو راستہ اپنایا جا رہا ہے اس راستے میں کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دفعتاً خیال آتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت حالات سے یکسر ناواقف ہے‘ جس جماعت کی اٹھان عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں پر ہوئی تھی وہ اقتدار میں آ کر سارے وعدے بھول گئی۔ اگلے چند دنوں میں اگر حکومت کو آئی ایم ایف سے پیکیج مل جاتا ہے تو اس سے دیگر غیرملکی قرضوں کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا‘ ملک میں سرمایہ کاری آئے گی‘ سی پیک اور چینی منصوبوں سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جلسے جلوس بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پختونخوا ساری توجہ اپنی ذمہ داریوں پر مرکوز کریں۔ صوبے میں دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے‘ آئے روز دہشت گردی کے ناخوشگوار واقعات پیش آ رہے ہیں۔ سوات میں سفارتکاروں کے قافلے میں شامل پولیس وین پر بم حملہ غیرمعمولی واقعہ ہے‘ حملے میں اگرچہ سفارت کار مکمل طور پر محفوظ رہے تاہم صوبے کے وزیراعلیٰ کے طور پر علی امین گنڈا پور کو جلسوں کے بجائے سکیورٹی کی فکر کرنی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں