بشریٰ بی بی کی قیادت میں ہونے والے حالیہ ناکام احتجاج کے بعد عمومی تاثر یہ تھا کہ پی ٹی آئی کچھ عرصہ تک احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کرے گی مگر خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان کا بیان اس تاثر کو زائل کرتا ہے۔ علیمہ خان کے مطابق اب خان صاحب نے دو مطالبات پیش کیے ہیں جنہیں تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں پہلے مرحلے میں اوورسیز پاکستانیوں سے ملک میں پیسے نہ بھیجنے کی اپیل کی جائے گی۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی جائے جو نو مئی اور 26نومبر کے واقعات کی تحقیقات کرے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ جناح ایونیو آپریشن میں 150لاپتا لوگوں اور گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ اگر 14دسمبر تک یہ مطالبات نہ مانے گئے تو خان صاحب سول نافرمانی کی کال دے دیں گے۔ خان صاحب نے اپنے مطالبات میں نو مئی اور 26نومبر کے واقعات کا تو نمایاں طور پر ذکر کیا ہے لیکن خلافِ توقع اپنی رہائی کی شرط عائد نہیں کی ہے حالانکہ اس سے قبل پی ٹی آئی کے احتجاج کا بنیادی مقصد خان صاحب کی رہائی تھا۔ خان صاحب کے ایکس اکاؤنٹ سے بھی ان مطالبات کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے تمام تر تحقیقات کے بعد 150افراد کی گمشدگی کا دعویٰ کیا گیا ہے‘ مطلب یہ کہ اس سے قبل پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کی ہلاکت اور ہزاروں کارکنوں کی گمشدگی کے دعوے میں کوئی صداقت نہیں تھی۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سول نافرمانی کی کال ہی دراصل خان صاحب کا آخری کارڈ ہے جس کا انہوں نے چند روز قبل عندیہ دیا تھا۔ خان صاحب 2014ء میں بھی بجلی کے بلوں کو جلا کر سول نافرمانی کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ اُس وقت جب لوگوں کا جم غفیر ان کے ساتھ تھا اور انہیں مقتدرہ کی حمایت بھی حاصل تھی‘ سول نافرمانی کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تو اب جبکہ بیساکھیوں کا سہارا چھن چکا ہے اور خان صاحب خود جیل میں ہیں‘ سول نافرمانی کی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟
خان صاحب کو سول نافرمانی کا خیال بیٹھے بٹھائے نہیں آ گیا اس کی دو وجوہ ہیں‘ ایک یہ کہ پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا پر کچھ مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں‘ خان صاحب اس مہم سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دوسرایہ کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر معیشت کو سہارا دینے کے لیے بہت اہم ہیں‘ اور خان صاحب سمجھتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت پی ٹی آئی کی حامی ہے۔ اس لیے وہ ان سے ترسیلاتِ زر پاکستان نہ بھیجنے کی اپیل کریں گے تو فوراً اس پر عمل کریں گے۔وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ خان صاحب نے مزاحمتی سیاست کے نام پر بے موقع احتجاج‘ امریکی مداخلت کا بیانیہ‘ سائفر لہرانے اور نو مئی سمیت جتنے اقدامات اٹھائے ہیں‘ پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ سول نافرمانی بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اگر اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے ویسا رسپانس نہیں آتا جیسا خان صاحب توقع کر رہے ہیں تو پی ٹی آئی کو اس کی بھی قیمت چکانا پڑے گی اور خان صاحب کا آخری کارڈ بھی بے کار چلا جائے گا۔
سیاسی مخالفین پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا کی پارٹی قرار دیتے ہیں۔ یہ بات اُس وقت حقیقت لگنے لگتی ہے جب پارٹی کے فیصلے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ اب پارٹی کے اندر دو گروپ کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ پارٹی اور خان صاحب کو اس نہج تک پہنچانے میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کا بنیادی کردار ہے۔ یہ گروپ سمجھتا ہے کہ باہر بیٹھی شعلے اگلتی زبانیں خود تو محفوظ ہیں مگر پاکستان میں موجود قیادت کو باہر بیٹھے لوگوں کے کیے کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اس گروپ کی نظر میں سوشل میڈیا کے مبالغہ آرائی پر مبنی اعداد و شمار نے 26نومبر کے مضبوط کیس کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا دوسرا گروپ اب بھی سوشل میڈیا کو اپنی اصل طاقت قرار دیتا ہے حتیٰ کہ خان صاحب خود بھی سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کے معترف ہیں۔
دیکھا جائے تو سوشل میڈیا تمام سیاسی فریقوں کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں بیک وقت اس سے پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ آرمی چیف نے گزشتہ دنوں اسی چیلنج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سوشل میڈیا پر شرانگیزی پھیلانے والوں کے خلاف سخت قوانین بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ زہر اگلنے‘ جھوٹ بولنے اور تقسیم کے بیج بونے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کے بے لاگ اور غیراخلاقی استعمال کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور ضوابط نافذ کیے جائیں اور ان پر عملدرآمد کرایا جائے۔ لیکن کیا محض سخت قوانین بنانے سے اس چیلنج پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں‘ جو معاشرے کی فضا کو زہریلا کر رہی ہیں۔ یہ جھوٹی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیلتی ہیں اور لوگوں کو مغالطہ کا شکار بناتی ہیں۔ ان جھوٹی خبروں کا اثر اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات‘ نظریات اور فیصلوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس طرح یہ جھوٹی خبریں معاشرے کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور سماجی انتشار کا باعث بنتی ہیں۔
قوم میں شعوری سطح بلند کیے بغیر جھوٹی خبروں پر قابو پانا آسان نہیں ہو گا۔ عام شہریوں کے لیے جھوٹی اور حقیقی خبروں میں فرق کرنا مشکل اس لیے بھی ہے کہ ان کے پاس خبر کی صداقت کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے اس درجے کا شعور‘ ضروری وسائل اور مہارت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر سوشل میڈیا کی خبروں کو حقیقی سمجھ کر ان پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ اکثر اپنی پسندیدہ رائے کی تائید کرنے والی خبروں کو زیادہ سچ سمجھتے ہیں اور مخالف رائے کی خبروں کو جھوٹی قرار دے دیتے ہیں۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈا کی بات کریں تو پی ٹی آئی سب سے آگے دکھائی دیتی ہے‘ مگر اس چیلنج نے اب پی ٹی آئی کے گھر کی راہ بھی دیکھ لی ہے اور وہ اپنے ہی جال میں پھنستی دکھائی دے رہی ہے۔
جھوٹی خبریں پھیلنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں سرفہرست مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ جب لوگ جھوٹی خبریں پڑھتے اور سنتے ہیں تو انہیں حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے ان کی کسی پر بھی اعتماد کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جھوٹی خبریں سماجی انتشار کا باعث بنتی ہیں۔ جب لوگ جھوٹی خبریں پڑھتے ہیں تو وہ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان میں نفرت‘ تعصب اور تشدد کی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے کندھوں پر فیک نیوز کے ساتھ ساتھ سول نافرمانی اور کئی سیاسی غلطیوں کا بوجھ بھی ہے۔ پی ٹی آئی حالات کا مقابلہ کرکے اس بحران سے کیسے باہر نکلتی ہے‘ یہ اہم ہو گا۔