اقتدار کانٹوں کی سیج کی مانند ہے‘ یہ کہاوت صدیوں سے حکمرانوں اور حکمرانی کے خواہشمندوں کے لیے ایک اہم سبق رہی ہے۔ یہ کہاوت نہ صرف اقتدار کی پیچیدگیوں کو بیان کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ وابستہ چیلنجوں اور ذمہ داریوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنا تو آسان ہے لیکن اسے برقرار رکھنا اور اس کا مؤثر استعمال ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکمرانوں کو ہر وقت مختلف مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں عوام کی توقعات پوری کرنا ہوتی ہیں‘ معاشی نظام کو مستحکم رکھنا ہوتا ہے‘ بیرونی دبائو کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور داخلی طور پر سیاسی مخالفین سے نمٹنا ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داریاں ایک ساتھ ادا کرنا آسان کام نہیں ۔ حکومت بظاہر پی ٹی آئی کے احتجاج سے باہر آ چکی ہے مگر اسے اب ایک دوسری مشکل کا سامنا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مدارس بل پر صدرِ مملکت کے دستخط نہ ہونے پر حکومت سے سخت نالاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے فوری طور پر مدارس بل منظور کرنے کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر وہ احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ مدارس بل کیا ہے‘ رکاوٹ کہاں ہے اور مولانا فضل الرحمن کا احتجاج پی ٹی آئی سے کس قدر مختلف ہو گا اور اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کے لیے کون سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں؟ ذیل کی سطور میں ان امور کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان کشمکش کا مرکزی نقطہ ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ان کی رجسٹریشن ضروری ہے۔ دوسری جانب اہلِ مدارس کا کہنا ہے کہ حکومت ان کی خود مختاری کو محدود کرنے کے لیے رجسٹریشن کا بہانہ بنا رہی ہے۔ مدارس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ رجسٹریشن کا طریقہ ان کی دینی تعلیم اور ثقافت کے خلاف ہے۔ اہلِ مدارس کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ وہ ایک آزاد ادارہ ہیں اور انہیں اپنی تعلیمی پالیسیاں خود طے کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ حکومت کی جانب سے کسی طرح کے دبائو یا مداخلت کو برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ اہلِ مدارس کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے لیے مفید کام کر رہے ہیں اور انہوں نے ملک کے لیے بہت سے قابل لوگ پیدا کیے ہیں۔ حکومت یکساں نصاب کا نفاذ کرنا چاہتی ہے‘ جس پر مدارس کا مؤقف ہے کہ وہ عصری تعلیم کے مخالف نہیں لیکن یکساں نصاب کے نفاذ میں دیگر تعلیمی ادارے بھی رکاوٹ ہیں۔ اہلِ مدارس کا کہنا ہے کہ وہ عصری نصاب کو اپنی ضرورت کے مطابق نافذ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ حکومت عالمی دبائو میں آ کر مدارس کے خلاف پالیسیاں بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ مغربی ممالک اور عالمی تنظیمیں دینی مدارس کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت پر دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ حکومت کو یہ تشویش ہے کہ کچھ دینی مدارس میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ مدارس میں جدید تعلیم کی کمی ہے اور یہ طلبہ کو روزگار کے قابل نہیں بنا رہے۔
اس سلسلے میں متعارف کرائے جانے والے مدارس رجسٹریشن بل کا مقصد مذہبی اداروں کو شفافیت‘ جوابدہی اور نگرانی کے دائرے میں لانا ہے‘ تاہم اس بل کو مختلف قانونی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ بل سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر اہم مذہبی رہنمائوں اور حکومتی اتحادیوں کو کرائی گئی یقین دہانیوں کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ اس میں مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے مالی حسابات کو ریگولیٹ کرنے کی تجاویز شامل ہیں جس پر مختلف مذہبی گروہوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ صدر آصف علی زرداری نے اس بل پر لگ بھگ آٹھ قانونی اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس کی قانونی حیثیت کے حوالے سے ابہام کا ذکر کیا ہے۔ خاص طور پر رجسٹریشن کے دائرہ کار کے حوالے سے غیر واضح نکات اور یہ کہ آیا یہ بل موجودہ قوانین کو مسترد کرے گا یا ان کے ساتھ ضم ہو گا‘ اہم مسائل میں شامل ہیں۔
پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن صوبائی وزارتِ تعلیم کے تحت آتی ہے اور بل میں یہ وضاحت شامل نہیں کہ وہ موجودہ صوبائی قوانین کو کیسے متاثر کرے گا۔ اسلام آباد میں مدارس کی رجسٹریشن کے لیے پہلے سے دو قوانین موجود ہیں لیکن نیا بل ان قوانین کے ساتھ مطابقت یا ان کی جگہ لینے کے بارے میں خاموش ہے۔ صدر زرداری نے ان اعتراضات کی بنیاد پر بل وزیراعظم آفس واپس بھیج دیا اور دستخط سے انکار کر دیا‘ جس سے مزید پیشرفت رُک گئی۔ بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری مل چکی ہے لیکن اس کے نافذ ہونے کے لیے صوبائی اسمبلیوں کی منظوری بھی ضروری ہے۔ یہ بل مذہبی گروہوں کو مطمئن کرنے کے سیاسی سمجھوتے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن صدر زرداری کی جانب سے اعتراضات نے واضح کر دیا کہ اس بل کو آگے بڑھانے کے لیے مزید ترامیم اور پارلیمانی کارروائی درکار ہے۔ بل کی اہم شقوں میں مدارس کی لازمی رجسٹریشن‘ ان کے مالیاتی اور تعلیمی امور کی نگرانی‘ نصاب میں جدید مضامین جیسے ریاضی‘ سائنس‘ اور انگریزی کی شمولیت اور مدارس کی مالی شفافیت اور نصاب کے لیے مخصوص رہنما اصولوں کی تعمیل شامل ہیں۔ یہ بل صوبائی سطح پر منظوری کے بغیر مؤثر نہیں ہو سکتا اور موجودہ صوبائی قوانین کے ساتھ اس کی ہم آہنگی پر سوالات موجود ہیں۔ انہی مسائل کی وجہ سے صدر زرداری نے بل کو مزید قانونی جائزے کے لیے واپس بھیجا ہے۔
مدارس رجسٹریشن بل کا مقصد مذہبی اداروں کو جدید تعلیمی اور قانونی نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے تاہم قانونی ابہام‘ صوبائی خودمختاری اور موجودہ قوانین کے ساتھ مطابقت کے مسائل نے اس کی منظوری کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بل کی کامیابی اس کی ترامیم اور سیاسی و قانونی مسائل کے حل پر منحصر ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا مؤقف ہے کہ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا اس وقت ساتھ دیا جب حکومت کو ان کے ووٹ کی اشد ضرورت تھی‘ اب جبکہ حکومت کا مقصد پورا ہو چکا ہے تو ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو رہے۔ میرا خیال ہے کہ حکمران جماعت اور اتحادیوں کو مدارس بل پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اعتراض کسی اور کو ہے اور یہ بات مولانا بھی بخوبی جانتے ہیں‘ مولانا چونکہ صاحبِ بصیرت اور سیاست کی پیچیدہ راہداریوں سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے وہ احتجاج سے پہلے حجت پوری کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے پاس احتجاج کا ٹھوس جواز موجود ہو کہ ان کے لیے جب کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا تو وہ احتجاج پر مجبور ہوئے۔
قوی امکان ہے کہ مدارس بل کا معاملہ احتجاج سے پہلے پُرامن طریقے سے حل ہو جائے گا لیکن اگر حکمت عملی سے مدارس بل کے اہم مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو احتجاج کی نوبت ضرور آئے گی اور جے یو آئی کا احتجاج پی ٹی آئی کے احتجاج سے مختلف ہو گا۔ جے یو آئی متعدد بار احتجاج سے یہ ثابت کر چکی ہے کہ ان کے پاس بھرپور سٹریٹ پاور ہے۔ ان کے لوگ کمیٹڈ ہیں اور احتجاج منظم ہوتا ہے۔ یوں حکومت ایک مشکل کے بعد اس سے کہیں بڑی مشکل کا شکار نظر آ رہی ہے۔ اس معاملے کو پُرامن طریقے سے حل کرنا ہی دانشمندی ہو گی۔