"RS" (space) message & send to 7575

بھارت افغان گٹھ جوڑ

بھارت کے سیکرٹری خارجہ وِکرم مشری کی افغان قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان اور افغانستان کے حالات کشیدہ ہیں۔ دراصل بھارت ہر اُس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جس سے پاکستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے حالانکہ 2021ء میں امریکی انخلا کے بعد بھارت نے بھی افغانستان سے فرار میں عافیت سمجھی تھی کیونکہ بھارت نے اشرف غنی حکومت پر جو سرمایہ کاری کی تھی‘ وہ مشکلات کا شکار ہوئی تو بھارت نے افغانستان سے جانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سابق افغان صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا اور ان کے ادوار میں بھارت نے افغانستان پر نوازشات بھی کیں۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ان نوازشات کا اصل ہدف پاکستان کو سفارتی سطح پر نقصان پہنچانا تھا۔ بھارت اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا کیونکہ یہی وہ دور تھا جب بھارت کو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کھل کر سازشیں کرنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اگست 2021ء میں جب افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو عمومی خیال یہی تھا کہ چونکہ افغان طالبان بھارت کے حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے ساتھ تعلقات سے بخوبی واقف ہیں‘ اس لیے افغانستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ رہیں گے مگر وِکرم مشری اور امیر خان متقی کی دبئی میں ہونے والی ملاقات اس تاثر کو زائل کرتی ہے۔ بھارت نے افغانستان پر ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے پر بھی زور دیا ہے۔
اس ملاقات کی دوسری وجہ بنگلہ دیش کے حالات ہیں جہاں بھارت نے پچھلے 50برسوں سے جو سرمایہ کاری کر رکھی تھی وہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے بعد رائیگاں ہو گئی ہے۔ بنگلہ دیش کی نئی قیادت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس اور وزیراعظم شہباز شریف کی مصر میں ڈی ایٹ ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ملاقات اور اگلے ماہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا متوقع دورۂ بنگلہ دیش بھارت کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں اندازہ تھا کہ بھارت مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ بھارت کو جب اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو افغان طالبان کے ساتھ روابط بڑھانا شروع کر دیے ہیں جس کا مقصد طالبان حکومت کے ساتھ تعاون سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ افغانستان بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں آزاد ہے‘ ظاہر ہے وہ اپنی ترجیحات کو فوقیت دے گا لیکن اگر ان تعلقات کی بنیاد پاکستان کے مفادات کو سبوتاژ کرنا ہے تو پاکستان کو اس گٹھ جوڑ پر اعتراض ہو گا۔
پچھلی دو دہائیاں شاہد ہیں کہ بھارت نے کھیل کے میدانوں سے لے کر ہر سطح پر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ اس کیلئے بھارت نے سفارت کاری کا سہارا لیا ہے تاکہ دنیا کے نظروں میں بھی اچھا بنا رہے اور اپنے مذموم اہداف بھی حاصل کرتا رہے۔ سفارت کاری کے ذریعے مخالف ملک کو شکست دینے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی جنگ یا فوجی کارروائی کے اس ملک کو سیاسی‘ اقتصادی اور عسکری میدانوں میں کمزور کر دیا جائے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں طاقت کے بجائے دماغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی جنگ میں بالعموم مذاکرات‘ دھمکی‘ اتحاد یا پروپیگنڈا جیسے طریقہ کار آزمائے جاتے ہیں۔ بھارت نے بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد حکومت کے ساتھ اتحاد کیا۔ کہنے کو یہ صرف تجارتی اتحاد تھا مگر یہاں سے پاکستان کے خلاف سازشیں تیار کی جاتی تھیں۔ شیخ حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان جو دوریاں پیدا ہوئیں اس کے پیچھے بھارتی سوچ کارفرما تھی۔ اسی طرح بھارت نے افغانستان میں اشرف غنی اور حامد کرزئی کو اپنا اتحادی ظاہر کیا مگر اس اتحاد کا مقصد افغانستان سے پاکستان کے خلاف سازشی منصوبوں کو کامیاب بنانا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں بھارت جن لوگوں پر انحصار کر رہا تھا‘ جب وہ نہ رہے تو بھارت کیلئے ان تعلقات کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ بھارت اور افغانستان کا اتحاد غیر فطری تھا جس نے ٹوٹنا ہی تھا کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ غیرفطری اتحاد طویل عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتے۔ چاہے خاندانی رشتے ہوں یا سیاسی اتحاد‘ ان کی بنیاد باہمی احترام‘ اعتماد اور مشترکہ مفادات پر نہ ہو تو ان کا انجام اکثر توقعات کے برعکس ہی نکلتا ہے۔ غیرفطری اتحاد عموماً کسی بیرونی دباؤ‘ ذاتی مفادات یا کسی ایک فریق کے دوسرے پر دباؤ کے تحت قائم ہوتے ہیں۔ ان میں خلوص کا فقدان ہوتا ہے اور رشتے کی بنیاد صرف ظاہری ہم آہنگی پر قائم ہوتی ہے۔ ایسے اتحادوں میں اعتماد کا فقدان‘ مسلسل شک و شبہ اور باہمی عدم اعتماد کا ماحول رہتا ہے۔ جیسے ہی بیرونی دباؤ کم ہوتا ہے یا کسی ایک فریق کو اپنا مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو اتحاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اختلافات کھل کر سامنے آتے ہیں اور اعتماد کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس صورتحال میں اتحاد کا ٹوٹنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحدوں سے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں ان سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان سے متصل علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں۔ ان علاقوں میں شدت پسند عناصر نے کچھ عرصہ سے سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کو اغوا کرنے کی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں بنوں کے علاقے بکا خیل میں سوئی ناردرن گیس کے ملازمین گاڑی میں ڈیزل لوڈ کر کے سیدگئی جا رہے تھے کہ انہیں مسلح افراد اغوا کر کے لے گئے۔ اغوا کاروں نے مغویوں کی وڈیو بھی جاری کی‘ جس میں مغویوں کو آہ و بکا کرتے سنا جا سکتا ہے۔ نومبر 2024ء میں بنوں کے دور افتادہ پہاڑی علاقے کے سب ڈویژن وزیر میں قائم چیک پوسٹ پر مسلح افراد نے دھاوا بولا اور پھر وہ سات اہلکاروں کو اسلحہ سمیت اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے جنہیں بعد ازاں علاقہ عمائدین کی کوششوں سے بازیاب کرایا گیا۔ اسی طرح چار روز قبل لکی مروت سے سولہ مزدوروں کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اٹامک انرجی کی سائٹ پر جا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق اغوا ہونے والے افراد معمول کے مطابق صبح کے وقت کمپنی کی گاڑی میں کام کی جگہ پر جا رہے تھے کہ مسلح افراد نے انہیں روک لیا اور اسلحے کی نوک پر اتار کر گاڑی کو آگ لگا دی۔ پولیس ابتدائی طور پر شبہ ظاہر کر رہی ہے کہ اغوا میں طالبان دہشت گرد ملوث ہو سکتے ہیں۔ پولیس کا خیال ہے کہ اغوا کار مغوی افراد کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے میں واقع جنگلات میں لے گئے ہیں جسے کالعدم ٹی ٹی پی کا گڑھ کہا جاتا ہے اور اس کے قریبی علاقوں میں اس وقت سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن بھی جاری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے سات اہلکاروں کو بازیاب کرا لیا ہے۔ گزشتہ برس بلوچستان میں ہونے والے مزدوروں کے قتل کے واقعات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جنہیں گاڑیوں سے اتار کر سفاکانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ دہشت گردوں کا کمزور ہدف کو نشانہ بنانا ایک بہت سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ وہ اس کے ذریعے خوف پھیلاتے ہیں‘ توجہ حاصل کرتے ہیں‘ مخالفین کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ مستحکم افغانستان کی بات کی ہے اور عملی طور پر اس کیلئے کوششیں بھی کی ہیں‘ اس کے جواب میں اگر افغانستان کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے تو پاکستان کو آنے والے دنوں میں اس گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی ابھی سے تیار کرنا ہو گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں