اسلام آباد کی احتساب عدالت نے190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے‘ جس میں بانی پی ٹی آئی کو 14سال قیداور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ بشریٰ بی بی کو سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ملزمان کے دفاع میں پیش کی گئی دستاویزی شہادتیں بے وقعت قرار پائی ہیں۔ فیصلے کے بعد بشریٰ بی بی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا جن کیلئے اڈیالہ جیل میں پہلے ہی سے سیل تیار تھا۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ اگرچہ دسمبر میں محفوظ کر لیا گیا تھا مگر یہ فیصلہ تین بار تاخیر کا شکار ہوا‘ اس دوران یہ تاثر قائم ہوا کہ شاید اندرون خانہ کوئی ڈیل چل رہی ہے مگر فیصلہ آ جانے کے بعد یہ تاثر زائل ہو گیا ہے۔ فیصلے میں تاخیر کی ایک وجہ خان صاحب اور ان کے وکلا کا عدم تعاون اور غیر موجودگی بھی بتائی جاتی ہے تاہم 17 جنوری کو خان صاحب اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی موجود تھے۔ فیصلہ سنائے جانے کے وقت کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے جب فیصلہ سنا تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ان کے ''ایکس‘‘ اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ''سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا‘ میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔خان صاحب کے چاہنے والوں نے احتساب عدالت کے فیصلے پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ خان صاحب کرپٹ نہیں ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنی ذات کیلئے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ۔ القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی قوم کا سرمایہ ہے پھر خان صاحب کو سزا کیوں دی گئی ہے؟
190 ملین پاؤنڈ کیس کی حقیقت کیا ہے؟کیا واقعی خان صاحب کسی غلطی کے مرتکب نہیں ہوئے‘ کیا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے؟ ذیل کی سطور میں 190 ملین کیس کا اجمالی جائزہ اور اس سے جڑے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خان صاحب 2018ء کے بعد پہلی بار حکومت میں آئے تو ان کے ذہن میں حکمرانی کا جو خاکہ تھا وہ بادشاہت سے ملتا جلتا تھا حالانکہ جمہوری نظام میں ہر کوئی جوابدہ ہوتا ہے۔ امورِ سلطنت سے ناواقفیت کا انہیں یہ نقصان ہوا کہ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے مسلسل غلطیاں کیں۔ پی ٹی آئی کے جو لوگ حکومتی عہدوں پر فائز تھے انہوں نے اپنے تئیں جو بہتر سمجھا کسی قاعدے قانون اور ضابطہ و اصول کی پروا کیے بغیر اسے کر گزرے۔ مشہورِ زمانہ فارن فنڈنگ کیس میں بنیادی غلطی یہ تھی کہ جو پیسہ باہر سے آیا اس کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں تھا۔ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے سیاسی جماعتیں اپنی فنڈنگ کا حساب دینے کی پابند ہیں۔ جب پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کے معاملے پر غلطیاں کر چکی اور بعد میں الیکشن کمیشن نے حساب مانگا تو اصولی جواب کے بجائے کہا گیا کہ دوسری پارٹیوں سے بھی فنڈنگ کا حساب مانگا جائے۔ وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کے معاملے میں غلطی کر چکی تھی اور دفاع میں کوئی معقول جواب نہیں تھا۔ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے ضمن میں ایسی ہی سادگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ غلطیاں قطعی معمولی نہیں کہلا سکتیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 208 ایک کے تحت انٹرا پارٹی الیکشنز پانچ سال میں نہیں کرائے۔ پی ٹی آئی کا انتظامی ڈھانچہ پانچ سال سے نہیں ہے‘ پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کی وجہ سے بہت نقصان ہوا حتیٰ کہ الیکشن سے چند روز پہلے پارٹی انتخابی نشان سے بھی محروم ہو گئی۔ بلے کے نشان کے بغیر الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور ہوئی جس کے اثرات آج بھی ایوان کے اندر اس شکل میں موجود ہیں کہ پارٹی سنی اتحاد کونسل کے ساتھ الحاق کر کے اپنی شناخت قائم رکھنے پر مجبور ہے۔
ایسی ہی غلطیاں 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بھی دہرائی گئی ہیں۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں خان صاحب اور بشریٰ بی بی کو کیسے سزا ہو گئی؟ خان صاحب سے کون سی غلطی ہوئی؟ اس کیس سے خان صاحب کا براہِ راست تعلق ہے یا اس میں کوئی واسطہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ دو دہائی قبل برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی بنیادی ذمہ داری منی لانڈرنگ اور دولت سے جڑے جرائم کی چھان بین ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی جائیدادوں کو ضبط کرنے کے لیے وسیع اختیارات رکھتی ہے۔ اگر این سی اے کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ کوئی جائیداد منی لانڈرنگ یا کرپشن سے حاصل کی گئی ہے تو وہ قانونی کارروائی کر کے اسے ضبط کر لیتی ہے اور ضبط کی گئی رقم کو متعلقہ ملک کو واپس کرنے کیلئے تدابیر کرتی ہے۔ دسمبر 2018ء کو پاکستان کے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا۔ ایک سال کے بعد یہ تحقیقات منطقی انجام کو پہنچ گئیں اور دسمبر 2019ء میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور پراپرٹی ٹائیکون کے درمیان منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم لوٹانے کے عوض تصفیہ طے پایا۔ تصفیہ نیشنل کرائم ایجنسی کی پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں عمل میں آیا اور فیصلہ ہوا کہ رقم اور اثاثے پاکستان کو لوٹا دیے جائیں۔ اس سے پہلے کہ یہ رقم پاکستان کو واپس کی جاتی پراپرٹی ٹائیکون کی کمپنی کا معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا اور سپریم کورٹ نے سرکاری زمین کی الاٹمنٹ میں خلاف ورزی پر جرمایہ عائد کیا جو 460 ارب روپے تھا ۔یوں دیکھا جائے تو 190 ملین پاؤنڈ کیس سے خان صاحب کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں بنتا مگر بجائے اس کے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس معاملے پر قانونی تقاضے پورے کرتی یہاں بھی فارن فنڈنگ کیس اور انٹرا پارٹی الیکشن جیسی غلطیاں دہرائی گئیں۔ شہزاد اکبر کا اس معاملے میں اہم کردار ہے جس نے پراپرٹی ٹائیکون کو یقین دہانی کرائی کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے آپ کی جو رقم ضبط کی ہے اسے جرمانے کی مد میں ایڈجسٹ کر لیا جائے گا۔ یہ معاملہ کابینہ کے علم میں لانے اور منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھا تو وہاں بھی حقائق کو چھپایا گیا اور کابینہ کو صرف ایک کاغذ دکھا کر منظوری لے لی گئی۔ نیب کا الزام ہے کہ خان صاحب نے پراپرٹی ٹائیکون کو فائدہ پہنچایا اور ضلع جہلم میں القادر ٹرسٹ کیلئے 458کنال زمین حاصل کی گئی۔ اس زمین کو عطیہ ظاہر کیا گیا حالانکہ یہ اس رقم کا عوض تھا جو برطانیہ سے ضبط کی گئی تھی۔ این سی اے کی طرف سے پاکستان کی ملکیت قرار دے کر پاکستان کو رقم لوٹائی گئی تاہم مبینہ طور پر اس وقت کے وزیر اعظم کی ہدایت پر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں چلی گئی جس میں پراپرٹی ٹائیکون کو عدالتی حکم پر460ارب روپے جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔ خان صاحب کے چاہنے والے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ خان صاحب نے اپنی ذات کیلئے کرپشن نہیں کی ہے لیکن یہ کہہ دینا کافی نہیں۔ پی ٹی آئی جسے سیاسی انتقام کا نام دے رہی ہے یہ دراصل وہ غلطیاں ہیں جو امورِ سلطنت سے ناواقفیت کی بنا پر پی ٹی آئی کرتی رہی ہے اور آج درحقیقت انہی غلطیوں کی قیمت چکا رہی ہے۔