"RS" (space) message & send to 7575

ٹرمپ اقدامات پر عمل درآمد کتنا آسان؟

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ امریکی عوام کی اکثریت ان کے اس مزاج کو پسند کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ عوام نے انہیں دوبارہ صدارت کیلئے منتخب کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد حلف اٹھانے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ پہلے دورِ حکومت کے دوران ادھورے رہ جانے والے منصوبوں کو پورا کریں گے۔ تجارتی پابندیاں‘ تارکینِ وطن اور امریکی شہریت کے حصول کے طریقہ کار میں تبدیلی کا انہوں نے عندیہ دیا۔ اب جبکہ وہ صدارت کا حلف اٹھا چکے ہیں تو دنیا کی نظریں ٹرمپ کے اقدامات پر مرکوز ہیں۔ جب دو ممالک آپس میں تجارت کرتے ہیں تو ایک ملک دوسرے سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر ٹیکس عائد کر سکتا ہے جسے ٹیرف کہتے ہیں۔ ٹیرف کا مقصد درآمد شدہ مصنوعات کو مہنگا کرنا ہوتا ہے تاکہ مقامی صنعتوں کو غیرملکی مقابلے سے بچایا جا سکے۔ مقامی صنعتوں کی حفاظت سے مقامی ملازمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مقامی صنعتوں کو ترقی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ٹیرف بڑھانے سے حکومت کو اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے‘ شاید صدر ٹرمپ کا یہی مقصد ہے‘ تاہم ٹیرف میں اضافے کے دوسرے رُخ کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اقدام دوطرفہ تجارت کو متاثر کرتا ہے۔ ٹیرف سے درآمد شدہ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ جس سے صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ٹیرف سے درآمدات اور برآمدات دونوں متاثر ہوتی ہیں کیونکہ ایک ملک ٹیرف لگاتا ہے تو دوسرا ملک بھی جوابی کارروائی کے طور پر ٹیرف لگانے کی کوشش کرتا ہے جس سے ٹیکس کی جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور دونوں ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
چند برس قبل امریکی ٹیکنالوجی کے دو بڑے نام ٹیسلا اور ایپل نے چین میں اپنے پیداواری یونٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے پیچھے کئی مقاصد کارفرما تھے۔ چین میں مزدوری کی لاگت بہت کم ہے‘ اس سے ٹیسلا اور ایپل کو اپنی مصنوعات کی تیاری کی لاگت کم کرنے میں مدد ملی۔ چین میں ٹیکنالوجی سے متعلق پارٹس کی فراہمی کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جس سے ان کمپنیوں کی سپلائی چین آسان اور لاگت کم ہو گئی۔ چین میں ماہر افرادی قوت کی بڑی تعداد موجود ہے جس سے بڑے پیمانے پر اور مؤثر پیداوار ممکن ہوئی۔ چین میں پائیدار انفراسٹرکچر اور لاجسٹک سسٹم موجود ہے‘ اس سے تیار شدہ مصنوعات کو آسانی سے مارکیٹ میں پہنچانے میں آسانی رہی۔ اس کے علاوہ چین دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے یوں ٹیسلا اور ایپل کو اپنی مصنوعات کو براہ راست چینی صارفین تک پہنچانے کا موقع ملا۔ چین میں مقامی یونٹس قائم کر کے ٹیسلا اور ایپل اپنی مصنوعات کو چینی صارفین کی پسند اور ضروریات کے مطابق ڈیزائن اور تیار کر رہے ہیں۔ چینی حکومت نے بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے کئی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔ ان پالیسیوں سے ٹیسلا اور ایپل کو چین میں اپنے بزنس کو بڑھانے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کے چین میں آٹو موبائل پلانٹ سے تیار کردہ گاڑیاں چین کے علاوہ یورپ اور دیگر ممالک کو بھی برآمد کی جاتی ہیں یوں چین نے ٹیسلا کو نہ صرف ایک بڑی مارکیٹ فراہم کی بلکہ اسے اپنی گاڑیاں مقامی طور پر تیار کرنے کا بھی موقع دیا۔ چین ٹیسلا کی عالمی آمدنی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور حالیہ اعداد و شمار کے مطابق چین سے آنے والی آمدن ٹیسلا کی کل آمدنی کا 20فیصد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح چین ایپل کی فروخت اور اس کی سپلائی چین کیلئے انتہائی اہم ہے۔ ایپل کی پیداوار چینی سپلائی چین پر انحصار کرتی ہے جبکہ چینی صارفین اس کی عالمی آمدنی کا تقریباً پانچواں حصہ ہیں۔ ایپل کے فون اور دیگر آلات کے بیشتر پارٹس چین میں تیار کیے جاتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ نے ایپل کی سپلائی چین کو متاثر کیا ہے۔ ٹیرف اور دیگر تجارتی پابندیوں سے ایپل کی مصنوعات کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایمازون اور میٹا کا بھی چین میں وسیع نیٹ ورک ہے۔ 2022ء میں چین اور امریکہ کا تجارتی حجم 750ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ اس وقت اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کیلئے ماضی جیسے سازگار حالات نہیں لیکن اب بھی دو طرفہ تجارت کا 650ارب ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ دوطرفہ سرمایہ کاری کا حجم 260ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ چین میں 70ہزار سے زائد امریکی کمپنیوں کا سالانہ منافع 50ارب ڈالر ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی حجم میں چین 500ارب ڈالر سے زیادہ کی مصنوعات امریکہ کو برآمد کرتا ہے جبکہ چین امریکہ سے 200ارب ڈالر سے کم کی مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ نومنتخب امریکی صدر کو لگتا ہے کہ چین نے امریکہ کی مارکیٹ پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اگر صدر ٹرمپ چینی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ کرکے چینی کمپنیوں کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں تو امریکہ کی بڑی کمپنیاں‘ جن کا انحصار چین پر ہے‘ ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کی تجارتی پابندیوں سے امریکہ کو خود بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ٹیرف بڑھنے سے چینی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا فطری ہے سو یہ واضح ہے کہ امریکہ میں مہنگائی بڑھ جائے گی‘ چینی برآمدات متاثر ہونے سے لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہو گا‘ عوامی ردعمل ہوگا جس کا سامنا کرنا صدر ٹرمپ کیلئے آسان نہ ہو گا۔
امریکہ کے نومنتخب صدر نے پاناما کینال کو امریکی تحویل میں لینے کا عندیہ بھی دیا ہے اور امریکی جہازوں سے لی جانے والی فیس کو ''لوٹ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاناما کینال ایک آبی گزرگاہ ہے جو بحر اوقیانوس کو بحر الکاہل سے ملاتی ہے۔ یہ نہر عالمی تجارت کیلئے بہت اہم ہے کہ اس سے سفر کا وقت اور لاگت دونوں میں کمی آتی ہے۔ پاناما کینال جیو پالیٹکس کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ یہ امریکہ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے اور ہر سال لاکھوں ٹن مال اس سے گزر کر دنیا کے مختلف حصوں میں جاتا ہے۔ پاناما کینال کی تعمیر 19ویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی اور 20ویں صدی کے آغاز میں مکمل ہوئی‘ تعمیر کے بعد امریکہ نے پاناما کینال اور اسکے اطراف کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1977ء میں امریکہ اور پاناما کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت پاناما کینال کا کنٹرول 1999ء میں پاناما کو واپس کر دیا گیا۔ یہ پاناما کی معیشت کیلئے ایک اہم ذریعۂ آمدن ہے۔ چین پاناما میں انفراسٹرکچر کے مختلف پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ امریکہ کو تشویش ہے کہ چین کی بڑھتی سرمایہ کاری سے اس علاقے میں چینی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا۔ امریکہ کو اس پر بھی تشویش ہے کہ چین پاناما کینال کو فوجی مقاصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ امریکہ پاناما کینال کو اپنے علاقائی اثر و رسوخ کا ایک اہم حصہ سمجھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ چین اس پر اپنا کنٹرول بڑھائے۔ دوسری جانب چین پاناما میں سرمایہ کاری کو 'بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ سمجھتا ہے جس کا مقصد عالمی تجارت اور انفراسٹرکچر کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ چین اس سے انکار کرتا ہے کہ وہ پاناما کینال کو کسی فوجی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے پہلے پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے جو اعلان کیے تھے‘ ان پر عمل کتنا آسان ہے اس کی ایک جھلک پیدائشی شہریت ختم کرنے کے حکم کے معاملے ہی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکی عدالت نے اس حکم پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ یعنی ایسا ممکن نہیں کہ ٹرمپ جو جاہیں گے کر گزریں گے۔ امریکی عوام سے کیے وعدے پورے کرنے سمیت ٹرمپ کو متعدد چیلنجز کاسامنا ہے۔ ان حالات میں جب ٹرمپ خود مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں کیا وہ پی ٹی آئی کیلئے کچھ کر پائیں گے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں