"RS" (space) message & send to 7575

اپوزیشن کا گرینڈ الائنس

سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے منگل کی شب اپوزیشن رہنماؤں کو اپنی رہائش گاہ پر کھانے پہ مدعو کیا۔ عشائیے میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن‘ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی‘ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب‘ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر سمیت دیگر سیاسی رہنما شریک ہوئے۔ عشائیے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ فروری کا الیکشن دھاندلی زدہ تھا‘ اس حکومت کو مستعفی ہو کر ازسرنو انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے۔ اپوزیشن کے مشاورتی اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔ مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈرز کی ایک ملاقات پر حکومتی حلقوں میں تھرتھلی مچ گئی ہے۔اُن کے مطابق یہ بات حیران کن تھی کہ جب مولانا نے بھی یہ کہا کہ ملک میں ازسرنو انتخابات ہونے چاہئیں‘ یہ دھاندلی زدہ حکومت ہے۔ مولانا فضل الرحمن جب بھی الیکشن میں دھاندلی کی بات کریں گے تو یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ ان کا مینڈیٹ کس نے چوری کیا ہے؟ مولانا کو اپنی آبائی سیٹ سمیت اکثر اُن حلقوں سے شکست ہوئی جو جے یو آئی (ف) کا گڑھ سمجھے جاتے تھے‘ اور وہاں سے پی ٹی آئی کو کامیابی ملی۔ مولانا الیکشن میں دھاندلی کی بات کرتے ہیں مگر پی ٹی آئی کا نام لینے سے گریزاں ہیں‘ اب وہی پی ٹی آئی مولانا کی حلیف ہے۔
اپوزیشن اجلاس کے دو روز بعد وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کی اگرچہ تفصیل تو سامنے نہیں آئی تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ مولانا ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن کیلئے یکساں اہم ہو گئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کیے گئے وعدے چونکہ پورے نہیں ہوئے تو ان کا شکوہ اور اپوزیشن کی طرف جھکاؤ بجا ہے۔ صدرِ مملکت نے 29دسمبر 2024ء کو مدارس رجسٹریشن بل پر دستخط کیے تو اس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا گیا ہے لیکن ابھی آدھا کام ہوا ہے‘ صوبوں میں مدارس رجسٹریشن کا مسئلہ حل ہونا باقی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس مرحلے کو حکومت کے تعاون سے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے مولانا نے 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کی حمایت کی مگر مدارس رجسٹریشن کا مسئلہ صوبوں میں جوں کا توں ہے۔ تمام تر تحفظات کے باوجود مولانا چاہتے ہیں کہ وفاق کی طرح صوبوں میں بھی مدارس رجسٹریشن کا معاملہ حل ہو جائے۔
مولانا فضل الرحمن چونکہ سیاسی اسرار و رموز سے بخوبی آگاہ ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ کب کون سا پتہ کھیلنا ہے۔ اور انہیں اپنی اس خوبی کا ادراک ہے‘ تبھی تو حکومت کو متنبہ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس دوسرے کیمپ میں جانے کا آپشن بھی ہے‘ تاہم وزیراعظم ہرگز نہیں چاہیں گے کہ مولانا دوسرے کیمپ میں چلے جائیں۔اگلے کچھ دنوں میں کچھ اہم قانون سازی کیلئے حکومت کو دوبارہ مولانا کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ نجکاری کے حوالے سے قانون سازی پر حکومت کو مولانا کی فوری حمایت درکار ہو گی کیونکہ پیپلز پارٹی کو نجکاری کے حوالے سے قانون سازی پر تحفظات ہیں۔ اسی طرح اگرچہ صدر زرادری نے پیکا ایکٹ پر دستخط کر دیے ہیں تاہم پیکا ایکٹ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی خاموشی عدم اطمینان ظاہر کرتی ہے۔ بعض حلقوں کی طرف سے پیکا ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ہے‘ اس لیے اس بل کے دوبارہ پارلیمنٹ میں آنے کا امکان ہے جس پر حکومت کو پیپلزپارٹی کے عدم تعاون کی صورت میں دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی۔ سو وزیراعظم مولانا فضل الرحمن کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت یہ بھی نہیں چاہتی ہے کہ مولانا اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دیں کیونکہ اس صورت میں حکومت کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بات پی ٹی آئی بھی جانتی ہے کہ اگر مولانا اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ بنتے ہیں تو وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہو گی۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی ہے جس کے پاس قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبوں میں نمائندگی ہے لیکن اپوزیشن کرنی کیسے ہے وہ اس سے واقف نہیں اس لیے پی ٹی آئی مولانا کوساتھ ملا کر ان اہداف کو حاصل کرنا چاہے گی جن میں وہ اب تک ناکام ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے یکساں اہم ہیں‘ تاہم مولانا کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں سے کون اہم ہے‘ یہ صرف مولانا ہی جانتے ہیں۔
اپوزیشن کا اتحاد حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ اتحاد کئی طرح سے حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔ مختلف نظریات اور سیاسی قوتوں کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے سے اپوزیشن کی آواز میں وزن پیدا ہو جائے گا اور وہ زیادہ مؤثر طریقے سے حکومت کا مقابلہ کر سکے گی۔ پی ٹی آئی جب تک تنہا تھی اپنے وسائل اور سوچ کے مطابق اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی لیکن مختلف جماعتوں کے اکٹھا ہونے سے ان کے پاس وسائل اور عوامی حمایت بڑھ جائے گی جس سے اپوزیشن حکومت پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ اپوزیشن کا گرینڈ الائنس حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے ہر طرح کا حربہ استعمال کر سکتا ہے۔ متحد اپوزیشن کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرنے کا موقع مل جائے گا۔ پی ٹی آئی‘ جو اَب تک کامیاب جلسے اور منظم احتجاج کرنے میں ناکام تھی اپوزیشن اتحاد کی بدولت عوامی جلسے اور ریلیاں کر سکے گی۔ اس سے قبل پی ٹی آئی اپنے مقدمات سے بالا ہو کر سوچنے کیلئے تیار نہ تھی لیکن جب اپوزیشن میں دیگر جماعتیں بھی موجود ہوں گی تو اپوزیشن متبادل پالیسیاں پیش کر سکتی ہے اور یہ باور کرا سکتی ہے کہ ان کے پاس حکومت چلانے کا بہتر منصوبہ موجود ہے۔ اس اتحاد کے باوجود اپوزیشن کی کامیابی جن عوامل پر منحصر ہے ان میں سب سے اہم چیز اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتفاق کا ہونا ہے۔ اگر مختلف جماعتوں کے نظریات اور مفادات میں تضاد ہو گا تو یہ اتحاد زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ حکومت کے خلاف جب اپوزیشن جماعتیں متحد ہو جاتی ہیں تو حکومت کا برقرار رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ماضی قریب میں پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ اس کی واضح مثال ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ریلیاں نکالیں اور اسلام آباد میں ہزاروں کارکنان کے ہمراہ کئی روز تک دھرنا دیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو اُس دور میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ تب پی ٹی آئی کی حکومت اور مقتدرہ کے ایک پیج پر ہونے کا گہرا تاثر بھی تھا اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے دور دور تک امکانات نہ تھے لیکن اپوزیشن جماعتیں متحد ہو ئیں تو حکومت کا برقرار رہنا مشکل ہو گیا۔ موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے‘ حکومت تو یہی چاہے گی کہ کسی صورت یہ اتحاد قائم نہ ہو لیکن یہ طے ہے کہ اپوزیشن متحد ہو گئی تو حکومت کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں