"RKC" (space) message & send to 7575

کشمیر کا سپاہی

پاکستان میں اب کیفے کلچر متعارف ہو رہا ہے۔ پہلے چائے والے کھوکھے ہوتے تھے۔ پھر پتا چلا ان کا نام ڈھابہ پڑ چکا ہے۔ خیر پاکستان میں اب یہ نام عام ہے۔ اب یہ جو نئے کیفے ہیں‘ یہ عالمی برانڈز ہیں‘ جنہوں نے کلچر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ کہاں ہم کھوکھے پر چائے پی کر سمجھتے تھے کہ جیسے کسی فائیو سٹار ہوٹل سے طعام کر کے نکلے ہوں۔ ہمارے گاؤں کے قریب واقع اڈہ حافظ آباد پر چائے کے دو تین کھوکھے تھے‘ جہاں صبح سے شام تک گاؤں کے لوگ باہر چار پائیوں پر اینڈتے رہتے۔ پورے علاقے کی گپیں‘ میلے ٹھیلے ڈسکس ہوتے۔ دودھ پتی کے دور چلتے‘ چائے کو لکڑیوں پر خوب پکایا جاتا۔ کوئی زیادہ امیر ہوتا تو چائے کے ساتھ کیک رس بھی منگوا لیتا۔ کھوکھے پر اونچی آواز میں عطااللہ عیسیٰ خیلوی‘ منصور ملنگی یا بھارتی گانے چل رہے ہوتے۔ آج بھی وہ کھوکھے وہاں موجود ہیں‘ اگرچہ اڈے کی شکل بدل گئی ہے۔
اب شہروں میں کیفے کلچر نے نئی تفریح مہیا کر دی ہے۔ اب مہمانوںاور یار دوستوں کو گھر پرچائے پانی پلانے کے بجائے کیفے پر ہی مل لیا جاتا ہے۔ وہاں آپ کافی‘ چائے‘ ملک شیک‘ برگر یا پیزا جو چاہیں کھائیں۔ وائی فائی چل رہا ہوتا ہے‘ کسی کونے کھدرے میں آرام سے مزے کریں۔ میں بھی دوستوں کے ساتھ اکثر و بیشتر کیفے پر ہی پایا جاتا ہوں۔ پرانی عادت ہے‘ میں ایک ہی جگہ اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ لہٰذا بہت جلد وہاں کام کرنے والے ورکرز سے جان پہچان ہو جاتی ہے بلکہ اگر شہر میں کوئی نیا کیفے یا ریستوران کھلتا تو ہم دوست روزانہ وہیں پائے جاتے بلکہ اچھا خاصا بزنس انہیں روزانہ دیتے تھے۔ ہماری کوشش ہوتی تھی کہ ان کا کاروبار چلے‘ نوجوان بچوں کو نوکریاں ملی ہوئی ہیں۔ ارشد شریف اور میں اکثر بھاری بھرکم بل دیتے اور ساتھ میں تگڑی ٹپ۔ ارشد شریف کا دل بڑا تھا۔ دوستوں کو کھلا پلا اور ان پر خرچ کرکے خوش رہتا۔ حیران کن طور پر ہماری کوششوں کے بعد بھی اکثر کیفے یا ریستوران کاروبار بند کر جاتے۔ پھر ہم کسی اور کیفے پر جا بیٹھتے۔ وہ بے چارے ہمارے لیے رات کو کوئی لڑکا چھوڑ جاتے جو ہمیں دو تین بجے تک چائے پلاتا رہتا۔ ہم پانچ چھ دوستوں کا گروپ روز اکٹھا ہوتا۔ میری بیوی نے ایک دن کہا: ارشد بھائی اور تم سب دوست اپنا کیفے کیوں نہیں کھول لیتے‘ جتنا بزنس تم دوسروں کو دیتے ہو۔ میں نے کہا: پھر وہ فیلنگ نہیں رہے گی کہ ہم دوست سارا دن کام کے بعد آؤٹنگ کرتے ہیں۔
خیر ایف سِکس سپر مارکیٹ میں ایک نیا کیفے کھلا تو وہیں بیٹھنا شروع کر دیا۔ ان جدید کیفیز کی خوبی ہے کہ یہ اپنے ورکرز کو اچھی تنخواہ اور سہولتیں دیتے ہیں۔ لہٰذا اب یہاں پڑھے لکھے نوجوان لڑکے آپ کو کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ان لڑکوں سے عزت سے بات کرنی شروع کی تو وہ بھی دھیرے دھیرے عزت کرنا شروع ہوگئے۔ کیفے کے نوجوان مالک سے بھی دعا سلام ہوگئی جس نے ایک رائلٹی کارڈ بنا دیا کہ اس کارڈ سے چھ کافی پینے کے بعد ایک کافی مفت ملے گی۔ دو تین دفعہ اتفاقاً بٹوے میں پیسے نہ تھے تو یہ رائلٹی کارڈ کام آگیا۔ پہلے نوجوان لڑکے اس لیے بھی ہوٹلوں پر کام نہیں کرتے تھے کہ ہم سب نے ہوٹل پر کام کرنے والے ہر ایک کو ''اوئے چھوٹے‘‘ کا نک نیم دیا ہوا ہے۔ اب یہ لڑکے کالج یا یونیورسٹی پڑھتے اور ساتھ یہاں کام کرتے ہیں۔ اپنی فیسیں ادا کرتے اور گھر بھی پیسے بھیجتے ہیں۔
یہ سب پڑھے لکھے خوبصورت نوجوان ہیں۔ ایک دن اپنے پوٹھوہاری دوست راجہ لیاقت کے ساتھ اس کیفے پر موجود تھا تو ایک لڑکا کہنے لگا: مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ وہ اکثر مجھ سے سیاست پر باتیں کرتا تھا۔ راجہ لیاقت نے کہا: بیٹا میں تمہیں دے دوں گا۔ اگلے دن راجہ لیاقت اسے کتابیں خرید کر دے آیا۔ دو تین دن بعد گیا تو دیکھا وہ لڑکا کچھ اداس تھا۔ کہنے لگا: جس دن سے آپ نے کتابیں دی ہیں‘ دوسرے لڑکے مجھ سے بات نہیں کرتے۔ میں نے کہا: یہ کیا بات ہوئی۔ انہیں چاہئیں تو انہیں بھی دے دیتا ہوں۔ خیر‘ وہاں ایک چھ فٹ سے بھی اونچا لمبا خوبصورت نوجوان بھی تھا۔ ہمیشہ عزت اور احترام سے پیش آتا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ اس کا تعلق کشمیر کے کسی گائوں سے تھا‘ اس نے بی ایس کیا ہوا تھا۔ اکثر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتا۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم صحافی کوئی بھی کام کرا سکتے ہیں لہٰذا لوگ کوئی نہ کوئی کام کہتے رہتے ہیں۔ ایک دن وہ کہنے لگا: آپ ناراض نہ ہوں تو ایک کام کرا دیں۔ ایئرپورٹ پر اے ایس ایف کی جابز آئی ہیں۔ میں نے کہا: یار!کسی کو انٹرویو میں ہی کہا جا سکتا ہے۔ تحریری‘ فزیکل اورمیڈیکل ٹیسٹ تو پاس کرنا ہوتا ہے۔ وہ اعتماد سے بولا: سر ٹیسٹ پاس کر لوں گا۔ خیر‘ اس بیچارے نے ٹیسٹ دیے‘ پاس کیے مگر پھر انٹرویو سے پہلے مزید کارروائی رک گئی۔
دو‘ تین ماہ پہلے پھر مجھے کہنے لگا: سر اسلام آباد پولیس میں کانسٹیبل کی 1600نوکریاں آئی ہیں۔ میں بولنے لگا تو جلدی سے بولا: سر میں آپ کو صرف انٹرویو کے وقت زحمت دوں گا۔ اگر میں فیزکل‘ میڈیکل اور تحریری امتحان پاس کر گیا تو۔ پھر اسلام آباد میں ہزاروں نوجوانوں میں سے اس نے دوڑ پاس کی‘ فزیکل ٹیسٹ پاس کیا۔ میں شام کو گیا تو خوشی سے بتایا۔ پھر تحریری ٹیسٹ تھا۔ وہ پاس کیا۔ میڈیکل پاس کیا۔ مجھے پھر خوشی سے بتایا۔ انٹرویو دینے سے ایک دن پہلے مجھے میرا وعدہ یاد کرایا۔ میں نے نوجوان کو غور سے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور سوچا کہ اگر میں بطور ڈی آئی جی پولیس انٹرویو لے رہا ہوں تو کیا ایسے چھ فٹ کے دراز قد‘ سمارٹ اور سمجھدار نوجوان کو نہیں رکھوں گا جس نے سب ٹیسٹ پاس کر لیے ہوں؟ اس نوجوان کو کسی سفارش کی ضرورت نہیں۔ یہ خود ہی سلیکٹ ہو جائے گا۔ یہ سوچ کر اسے میں نے تسلی دی کہ فکر نہ کرو‘ کام ہو جائے گا۔ میرے سب اندازے غلط نکلے۔ چند دن بعد میں گیا تو اس کا منہ اترا ہوا تھا۔ کہنے لگا: سر جی میرا نام فائنل لسٹ میں نہیں آیا۔ دیکھیں‘ میں نے سب کچھ کلیئر کیا۔ اس نے مروتاً مجھے شکایت بھی نہیں کی کہ سر جی آپ نے کام نہیں کرایا۔ اس کا خیال تھا‘ میں نے سفارش کی تھی لیکن پولیس افسر نے کام نہیں کیا۔
مجھے اچانک اپنا آپ مجرم لگنے لگا۔ وہ بیچارہ میری امیدوں پر رہا کہ انٹرویو میں پاس کرا دوں گا لہٰذا اس نے ڈٹ کر محنت کی جبکہ میرا یقین تھا کہ وہ بچہ میرٹ پر خود بخود سلیکٹ ہو جائے گا۔ میرا دوست خاور اظہر بھی میرے ساتھ تھا۔ مجھ سے کچھ کھایا پیا نہ گیا۔ کیا فرق پڑتا‘ میں پولیس کے کسی افسر کو کہہ دیتا۔اس نوجوان کے چہرے پر پھیلی اداسی اور ناامیدی دیکھ کر دل ٹوٹ سا گیا۔ میں نے اسی وقت اسلام آباد پولیس کے ایک بڑے افسر کو فون کیا کہ اگر اس لڑکے جیسے نوجوان بھی پولیس کانسٹیبل بننے کے لائق نہیں تو کون اس کے لائق ہے۔ وہ افسر بولے کہ میں دیکھتا ہوں۔ اب ایک ماہ گزرنے کو ہے‘ اس بڑے افسر نے بھی کچھ نہیں کیا۔
ایک دفعہ کسی جاننے والے کا کام تھا۔ میں نے پورا زور لگایا‘ کچھ دوستوں نے بھی کوشش کی لیکن کام نہیں ہوا۔ مجھے شدید مایوس دیکھ کر ایک دوست نے کہا: دیکھو ہم سب نے کوشش کی لیکن اس کی قسمت میں نہ تھا۔ تم خدا نہ بنا کرو‘ کچھ کام خدا پر چھوڑ دو۔ تم کوشش ہی کر سکتے ہو۔ لیکن اب ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی افسوس اور دکھ کم نہیں ہو رہا کہ اپنے اس کشمیری نوجوان کے لیے میں نے کوشش بھی تو نہیں کی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ بھلا انٹرویو کرنے والا پولیس افسران کا پینل اس پڑھے لکھے‘ سمارٹ اور چھ فٹ دراز قد نوجوان کو کیسے نظر انداز کرے گا‘ جو باقی سب پراسیس میرٹ پر پورا کرکے اب صرف دو منٹ کا رسماً انٹرویو دینے آیا تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں