اعتزاز احسن سے پہلا تعارف راولپنڈی ایئرپورٹ پر ہوا تھا جب میں ڈان میں رپورٹر تھا۔ ان کے ساتھ مریم نواز بھی تھیں۔نواز شریف جیل میں تھے۔شریف فیملی کا کیس لینے کے لیے کوئی وکیل تیار نہ تھا۔اعتزاز احسن سے رابطہ کیا گیا۔ وہ بینظیر بھٹو کی اجازت سے شریف خاندان کے وکیل بننے پر راضی ہو گئے۔شریف خاندان سمجھدار ہے کہ کب کون استعمال کیا جاسکتا ہے ۔جیسے 1996ء میں سیدہ عابدہ حسین کو مری بلا کر میاں شریف نے کہا وہ اگر فاروق لغاری سے صلح کرا کے بینظیر بھٹو کی چھٹی کرا دیں تو پورا خاندان ان کا عمر بھر احسان مند رہے گا۔جب عابدہ حسین نے سب کچھ کرا دیا تو جو حشر عابدہ حسین اور لغاری کے ساتھ ہوا وہ ان کی کتاب: Power Failureمیں پڑھنے اور آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔آنیوالے برسوں میں اعتزاز احسن کے ساتھ بھی عابدہ حسین اور فاروق لغاری جیسا ہی ہوا۔
پرویز مشرف کو لگتا تھا کہ نواز شریف نے نہ صرف انہیں آرمی چیف کے عہدے سے ہٹایا بلکہ جب فیول ختم ہونیوالا تھا‘ طیارے کو کراچی اترنے کی اجازت نہ دے کر ان کی جان لینے کی کوشش بھی کی تھی۔ ان کیساتھ دو سو سے زائد اور بھی مسافرتھے۔یوں نواز شریف پر دہشت گردی اور طیارہ اغوا کیس کے مقدمے بنائے گئے‘ جن کی سزا موت تھی۔ بھٹو کی پھانسی کا زخم ابھی تازہ تھا اور حالات مشرف اور شریف میں بھی وہی ہوچکے تھے جو ضیااور بھٹو میں ہوگئے تھے۔ان حالات میں اعتزاز احسن کا وکیل بننا مشکل فیصلہ تھا۔
لاہور سے اعتزاز احسن الیکشن جیت کر اسمبلی آئے تو انہیں نواز لیگ کی حمایت حاصل تھی۔اعتزاز احسن ان چند کرداروں میں سے ہیں جو عمدہ تقریر اور گفتگو کرسکتے ہیں۔ اعتزاز نے بلاشبہ پرویز مشرف دور میں اسمبلی میں شاندار تقریریں کیں جو سیاسی ادبی شاہکار کہلا سکتی ہیں۔جب پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیاتو اعتزاز احسن کو ایک ایسا موقع ملا کہ وہ قوم کے ہیرو بن کر ابھریں۔ انہوں نے اپنی تقریروں سے موقع خوب کیش کرایا۔ لوگ مشرف سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ ملک میں لیڈرشپ نہ تھی۔بینظیر بھٹو اور نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے۔لوگوں کو لگتا تھا کہ کوئی ایک بھی ایسا نہیں بچا جو مشرف کو ٹف ٹائم دے سکے۔ سیاسی لیڈروں کے کمپرومائز نے سب کو مایوس کیا تھا‘لہٰذا جب انہوں نے دیکھا کہ چیف جسٹس نے مشرف کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار کر دیا تو قوم کو لگا کہ ایک نیا ہیرو جنم لے چکا ہے۔ لوگوں کو ہر دور میں ایک ہیرو چاہیے ہوتا ہے۔ اب کی دفعہ ہیرو سیاسی نہیں بلکہ ایک جج تھا ۔اعتزاز احسن اور علی احمد کرد کی تقریروں نے پورے ملک میں آگ لگا دی اور وکیلوں کی نوجوان فورس ان کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔اعتزاز احسن نے پہلے عوام میں افتخار چوہدری کا مقدمہ جیتاپھر عدالت میں۔انہی دنوں کہا جاتا تھا کہ اعتزاز احسن کو مشرف نے ڈیل کی آفر بھی کی تھی کہ وہ وزیراعظم بن جائیں لیکن اعتزاز احسن بہت آگے جاچکے تھے لہٰذا واپس آنے کا سوال تقریبا ًناممکن تھا۔
جب اعتزاز احسن اگست 2007 ء میں لندن آئے تو میں بھی وہیں رپورٹنگ کیلئے موجود تھا۔ اعتزاز احسن کو سب سے زیادہ ویلکم نواز شریف کیمپ میں مل رہا تھا۔ انہیں بینظیر بھٹو سے زیادہ استقبال نہ ملا۔ لگ رہا تھا اعتزاز اس وقت بینظیر بھٹو سے زیادہ نواز شریف کے قریب تھے جیسے وہ اُس وقت تھے جب انہوں نے ان کے مقدمات لڑے تھے۔نواز شریف کو بھی اس وقت اعتزاز احسن کی ضرورت تھی کیونکہ مشرف کو گرانے کیلئے جو وکلا تحریک شروع ہوئی تھی اسے کامیابی تک اعتزاز ہی پہنچا سکتے تھے لہٰذا انہیں پروٹوکول دیا گیا۔ لیکن لگ رہا تھا کہ بینظیر بھٹو اعتزازاحسن سے خوش نہ تھیں۔اعتزاز زیادہ پروا بھی نہیں کررہے تھے۔وہ اب سمجھ رہے تھے کہ وہ بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اب وہ خود وزیراعظم میٹریل تھے۔ اورپھر وہی ہوا جب اعتزاز احسن نواز شریف کے ساتھ لانگ مارچ کیلئے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے تو چیف جسٹس بحال ہونے کا فون آچکا تھا۔
جس دن چیف جسٹس بحال ہوئے اس دن کے بعد شریفوں کی نظر میں اعتزاز اپنی اہمیت کھو چکے تھے۔ اعتزاز احسن کی چیف جسٹس سے قربت کی وجہ سے جیسے نواز شریف نے انہیں قریب کیا تھا ایسے ہی آصف زرداری نے بھی اعتزاز کو اپنے قریب کر لیا کیونکہ اب زرداری کو ان کی ضرورت تھی۔ یوں بابر اعوان صاحب کو ہٹا کر اعتزاز احسن کو آگے لایا گیا۔ بابر اعوان کی قربانی دی گئی۔ سیاست ہوتی ہی بے رحم ہے کہ جب کسی کی ضرورت ہو پائوں پڑ جائیں‘ کام نکل جائے تو گریبان پکڑ لیں۔ یوں اعتزاز احسن زرداری کے وکیل بنے اور بدلے میں سینیٹر بنا دیے گئے۔ اعتزاز احسن کا خیال تھا کہ جیسے انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کرایا اسی طرح وہ یوسف رضا گیلانی کو بھی نااہل ہونے سے بچا لیں گے اور بلے بلے ہو جائے گی لیکن افتخار چوہدری نے ''احسان‘‘ کا بدلہ نہ دیا۔ اب اعتزاز افتخار چوہدری کے بھی کسی کام کے نہ تھے۔ اعتزاز احسن کی افتخار محمد چوہدری سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہو سکیں اور پھر ایک دن اعتزاز احسن اپنے اس عمل پر پچھتاتے پائے گئے کہ انہوں نے کبھی افتخار چوہدری کو بحال کرایا اور تحریک چلائی اور لوگوں کو یقین دلایا کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی۔ لوگوں نے کہا بس اب وہ منزل مل گئی جس کی تلاش تھی‘ پھر ایک دن اعتزاز احسن نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے اس تحریک کا کچا چٹھا یہ کہہ کر کھول دیا کہ جن بڑے وکیلوں نے ججوں کی بحالی تحریک میں حصہ لیا انہوں نے چیف جسٹس کے نام پر کروڑوں کمائے تھے۔ان وکلانے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہو کر کروڑوں کی فیسیں کھری کیں۔اس دوران ان کی نواز لیگ سے اَن بن ہوگئی جب ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں۔سینیٹ میں سعد رفیق نے ان کا پوسٹ مارٹم کیا کہ کیسے وہ دراصل مافیا کے وکیل رہے ہیں۔جس پر اعتزاز نے ہنستے ہوئے کہا: میں تو نواز شریف کا وکیل بھی رہا ہوں۔
اس دوران افتخار چوہدری سے انہوں نے دوری اختیار کر لی اور پھر کبھی ہم نے نہ سنا کیا بنا۔ عوام تو اعتزاز احسن کی باتوں پر ریاست کو ماں کا درجہ دے بیٹھے تھے اور کئی نوجوان وکیل جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اعتزاز ہی ضامن تھے کہ اگر افتخار چوہدری بحال ہوگئے تو ریاست ماں کے جیسے بن جائے گی۔ پھر ہم نے اعتزاز احسن اور علی احمد کرد کی وہ جوشیلی تقریریں نہ سنیں بلکہ ٹی وی شوز میں افتخار چوہدری سے ناخوش ہی پائے گئے۔اعتزاز احسن ان کے ناقد بن گئے۔ارسلان افتخار کے سکینڈل نے رہا سہا اعتماد ختم کر دیا۔ دھیرے دھیرے اعتزاز احسن کو احساس ہونا شروع ہوا کہ پیپلز پارٹی پنجاب سے فارغ ہوچکی لہٰذا بہت سے پرانے پیپلیوں نے ادھر ادھر دیگر پارٹیوں کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ سب پرانے پی پی پی والوں کی نظر عمران خان پر پڑی۔ایک دور تھا کہ اعتزاز نواز شریف کا دفاع کرتے تھے‘ پھر ان کے بڑے ناقد بن کر ابھرے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ڈرائیور اور وکیل بنے اور پھر ان سے ناراض ہوئے۔اب اعتزاز احسن نے موجودہ چیف جسٹس بندیال صاحب پر جاری تنقید پرایک دھمکی نما بیان جاری کیا ہے کہ وہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہیں۔کبھی افتخار چوہدری ریڈ لائن تھے اور اب بندیال صاحب ان کی نئی ریڈ لائن ہیں۔اعتزاز کی ایک کے بعد ایک نئی ریڈ لائن بنتی رہی لیکن ریاست ماں کے جیسی نہ بن سکی ‘جو اعتزاز کا نعرہ تھا۔ ریاست صرف ججز بحالی تحریک کے بڑے وکیلوں یا ججوں کے بچوں کی اکلوتی ماں بنی جنہوں نے بقول اعتزاز احسن سابق چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہو کر تعلقات کے نام پر کروڑوں کمائے۔دیکھتے ہیں اب اعتزاز احسن کی نئی ریڈ لائن سے کیا برآمد ہوتا ہے۔