"RKC" (space) message & send to 7575

اندرا گاندھی‘ بینظیر بھٹو اور عمران خان… (4)

اندرا گاندھی کا یہ امریکہ کا پہلا دورہ تھا۔ اندرا کی کوشش تھی کہ کسی کو یہ نہ لگے کہ وہ ہندوستانی عوام کیلئے مانگنے جارہی ہیں۔ لیکن انہیں ڈالرز اور گندم چاہئے تھی۔ اندرا نے ایک بھارتی صحافی کو آف دی ریکارڈ بتایا کہ دورے کا مقصد یقینا امریکی امداد ہے لیکن اس انداز میں مانگنی ہے کہ یہ نہ لگے کہ ہندوستانی وزیراعظم امداد مانگنے آئی ہے۔امریکہ 1947 ء کے بعد سے پاکستان اور ہندوستان کو امداد دیتا چلا آرہا تھاجوکہ برسوں تک جاری رہی۔ ایک دن دونوں ملکوں نے‘ جو امریکی امداد پر پل رہے تھے‘ جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ 1965ء کی جنگ کے ساتھ ہی امریکہ نے دونوں ملکوں کی امداد بند کر دی۔ امریکہ نے بھی سوچا ہوگا کہ ایک طرف آپ لوگوں کی یہ حالت ہے کہ آپ کے پاس کھانے کے لیے گندم تک نہیں اور باہر سے خریدنے کے لیے ڈالرز نہیں‘ لیکن دونوں ملکوں کے پاس جنگ لڑنے کے لیے وسائل موجود ہیں۔ ایک دوسرے کو مارنے کے لیے آپ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں‘ تو پھر ہم کیوں آپ کو گندم مفت میں دیں؟ امریکہ نے جو پابندیاں لگائی تھیں وہ دونوں ملکوں پر تھیں۔ جنگ کے بعد دونوں ملک پھر امریکہ کے پاس پہنچ گئے کہ ہمیں گندم اور ڈالرز چاہئیں۔
اندرا دبائو کا شکار تھیں کیونکہ پاکستان تو کب سے امریکی کیمپ میں شامل تھا لیکن وزیراعظم نہرو نے روس اور امریکہ کے درمیان جاری سرد جنگ میں خود کو اپنے تئیں نیوٹرل رکھا ہوا تھا اور ہندوستان Non-Aligned Movement کا ایکٹو ممبر تھا۔ پتہ چلا کہ پاکستان کی طرح ہندوستان بھی دلوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اگرامریکی امداد نہ ملی تو ہندوستان میں قحط کی صورتحال کی وجہ سے فسادات پھیل جائیں گے‘ لہٰذا اندرا گاندھی کے پاس اپنی وزارتِ عظمیٰ بچانے کا یہی حل تھا کہ وہ امریکہ کا دورہ کرے اور صدر جانسن سے ڈالروں اور گندم کی ریکویسٹ کرے۔
1965ء کی جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان اور ہندوستان کی امداد بحال کرنے کیلئے سخت شرائط رکھ دی تھیں۔ اندرا گاندھی نے امریکہ سے ڈالر اور گندم مانگنے سے پہلے عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے قرضہ مانگا لیکن دونوں نے انکار کر دیا بلکہ آئی ایم ایف نے شرط رکھ دی کہ وہ اُس وقت بھارت کو قرضہ /بیل آئوٹ پیکیج دیں گے جب وہ پہلے اپنی روپے کو ڈی ویلیو کرے گا۔ اندرا گاندھی نے ایک کمیٹی بنا ئی کہ آئی ایم ایف کی ان شرائط پرہندوستان کو کیا کرنا چاہئے۔اس کمیٹی میں وزیرخزانہ سچن چوہدری‘ منصوبہ بندی وزیر اشوک مہتہ اور وزیرخوراک سبرامنیم شامل تھے۔اس کمیٹی کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہندوستان کو بحران سے بچنے کیلئے ڈالرز کے مقابلے میں اپنے روپے کو ڈی ویلیو کردینا چاہئے۔ اس سفارش کی سپورٹ اندرا گاندھی کے فرسٹ کزن B.K.Nehru نے بھی کی جو امریکہ میں ہندوستان کا سفیر تھا۔ اندرا گاندھی کے امریکہ جانے سے پہلے اس کمیٹی نے اپنی خفیہ رپورٹ تیار کی کہ وہ آئی ایم ایف کی ڈالرز کے مقابلے ہندوستانی روپے کو گرانے کی شرط کو پورا کرنے کیلئے تیار ہیں‘ تاہم عوامی ردِعمل سے بچنے کیلئے اس رپورٹ کو پبلک نہ کیا گیا۔جب اندرا گاندھی امریکہ پہنچی تو اس دورے کو بہت کامیاب سمجھا گیا۔ اس کی وجہ صدر جانسن تھے جنہیں اندرا گاندھی کی شخصیت نے بڑا متاثر کیا۔ اندرا نے بھی اپنا چارم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ پیچھے ہندوستان میں اس کی وزارتِ عظمیٰ دائو پر لگی ہوئی تھی۔ اندرا نے امریکہ جانے سے پہلے اپنے بالوں کا سٹائل تبدیل کرایا تاکہ اس کی لُکس میں بھرپور جوانی نظر آئے۔ اندرا کا شاندار میک اَپ کیا گیا اور ساتھ میں اندرا گاندھی نے روایتی ہندوستانی زیوارت بھی خود پر سجا لیے۔
اندرا گاندھی بھارت میں تو عام ہیر اسٹائل اور سادہ کاٹن کی ساڑھی پہنے رکھتی تھیں لیکن امریکہ پہنچتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ اب وہ اندرا مختلف تھی جو ہندوستان میں نظر آتی تھی۔ اندرا کا چارم اب سب کو متاثر کررہا تھا۔ کسی اور کو کررہا تھا یا نہیں لیکن امریکی صدر جانسن جس کا تعلق ٹیکساس سے تھا اور خاصی لمبی چوڑی جسامت کا حامل تھا وہ ضروراندرا سے متاثر ہوا۔ جانسن اندرا گاندھی سے اتنا متاثر ہوچکا تھا کہ جب امریکہ میں بھارتی سفیر بی کے نہرو کے گھر اس کی اندرا سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی تو جانسن وہیں رُکا رہا‘ وہ ملاقات کے بعد روانہ نہیں ہوا بلکہ کافی دیر تک اندرا سے گپیں مارتا رہا‘ جب تک کہ ڈنر پر مدعو مہمان نہیں آگئے۔ یہ امریکی صدر کا غیرمعمولی انداز تھا۔لگ رہا تھا کہ اندرا‘ جسے اس کی پھوپھی وجے لکشمی پنڈت بچپن سے ہی ''بدصورت اور بیوقوف‘‘ کہہ کر بلاتی تھی‘ اس کے چارم سے امریکی صدر متاثر ہوچکا تھا۔ اندرا کو ہمیشہ دکھ رہا کہ اس کی شخصیت کو اس کی پھوپھی نے بدصورت اور بیوقوف کہہ کہہ کر تباہ کر دیا اور اب یہاں امریکی صدر اس کی کمپنی چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں تھا۔ حالت یہ ہوگئی کہ مہمانوں کیلئے کھانا مزید تاخیر کا شکار نہیں ہوسکتا تھا اور پلان کے تحت جانسن اس ڈنر پر مدعو نہیں تھا۔ وہ ڈنر امریکہ میں بھارتی سفیر نے اندرا گاندھی کے اعزاز میں دیا ہوا تھا جس میں واشنگٹن کی اہم شخصیات مدعو تھیں۔ جب ڈنر لیٹ ہونے لگا تو اندرا گاندھی نے صدر جانسن کو کہا کہ آپ بھی ڈنر میں شریک ہوں۔ سب پروٹوکول کو نظر انداز کر کے جانسن نے وہ دعوت فورا ًقبول کر لی جبکہ اس کھانے کے مہمانِ خصوصی امریکی نائب صدر ہوبرٹ تھے۔ پروٹوکول کے تحت صدر اور نائب صدر ایک ساتھ کسی تقریب میں شریک نہیں ہو سکتے تھے لیکن صدر جانسن اندرا گاندھی کی کمپنی چاہتا تھا۔
اس دورے کا مقصد امریکہ سے مدد لینا تھا لیکن اندرا گاندھی امریکہ اور آئی ایم ایف کی اس شرط کو پورا کرنے پر راضی ہوگئیں کہ بھارتی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں گرایا جائے گا۔ اندرا نے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے ویت نام میں امریکی جنگ پر بھی زیادہ سخت پوزیشن نہیں لی۔ اس وقت اندرا کو اپنی وزارتِ عظمیٰ بچانے اور ہندوستانی عوام کیلئے مفت گندم درکار تھی۔ اس وقت وہ امریکہ کے عالمی سطح پر جاری محاذوں پر سخت بیان دے کر امریکی انتظامیہ کو ناخوش نہیں کرنا چاہتی تھی‘ لہٰذا اندرا نے ڈپلومیسی سے کام لے کر ایک جگہ تقریر میں کہا کہ بھارت کو ویت نام میں جاری امریکی مشکلات کا احساس ہے۔ اندرا نے امریکہ کی یہ شرط بھی مان لی کہ بھارت امریکہ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن بنائی جائے گی اور امریکہ جو امداد دے گا‘ اسے بھارت میں تعلیم عام کرنے اور ریسرچ پر خرچ کیا جائے گا۔ امریکہ کی آخری شرط کہ فاؤنڈیشن بنا کر تعلیم اور ریسرچ کو عام کیا جائے گا‘ کا مقصد یہ تھاکہ کانگریس کو مطمئن کیا جائے کہ بھارت کو پابندیوں کے باوجود کیوں اتنی بڑی مددکی جارہی ہے۔ اندرا گاندھی اس دورے میں امریکہ کی سب شرائط مان رہی تھی۔ ایک شام صدر جانسن نے اندر گاندھی کو وائٹ ہاؤس میں ڈنر پر دعوت دی۔ جب اندرا گاندھی پوری طرح تیار ہو کر وائٹ ہاؤس پہنچی تو امریکی صدر نے اندرا کو دعوت دی کہ چلیں میرے ساتھ ڈانس فلور پر رقص کریں۔
اندرا گاندھی کو جھٹکا لگا... وہ صدر جانسن کو دیکھ رہی تھی جو ہاتھ لمبا کر کے اُسے ڈانس فلور پر جانے کی دعوت دے رہا تھا۔ اندرا گاندھی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ امریکی صدر کی اس ڈرامائی ریکویسٹ کا کیا جواب دے۔ سب کے سامنے امریکی صدر کی ریکویسٹ کو مسترد کرنا اس کے دورے کی اب تک کی سب کامیابیوں کو تباہ کرسکتا تھا لیکن اگر اس نے ڈانس فلورپر امریکی صدر کی بانہوں میں رقص کر لیا اور اس کی تصویر ہندوستانی اخبارات میں چھپ گئی تو ہندوستانی عوام‘ میڈیااور اپوزیشن اسے بھون ڈالیں گے۔
اندرا گاندھی اپنی زندگی کے مشکل ترین لمحات سے گزر رہی تھی۔ چند لمحوں میں اُسے فیصلہ کرنا تھا۔ اسے امریکی مدد چاہئے تھی یا ہندوستانی عوام کے قہر سے بچنا تھا۔ امریکی صدر بے چینی سے اندرا گاندھی کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں