بلوچستان کا مسئلہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی پیدا ہوگیا تھا۔یہ ایک مختلف بحث ہے کہ اس میں کون حق پر تھا اور کون نہیں‘ لیکن بلوچ مزاج میں مزاحمت ہے اور سرنڈر کرنا آسان نہیں اس لیے اگر دیکھا جائے تو بھٹودور سے لے کر مشرف دور تک وہاں کئی آپریشن کیے گئے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ وقت کے ساتھ مزید بگڑا ہے۔ ریاست نے کوشش کی کہ ان عناصر کو اپنے ساتھ ملائے جو علیحدگی پسند عناصر سے دور رہے‘ یہ الگ بات کہ ریاست نواز سرداروں نے بھی ریاست کو خوب نچوڑا۔ انہیں علم تھا کہ ریاست کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا ماسوائے اس کے کہ وہ انہیں ہر قیمت پر پالتی رہے اور ان کے جرائم سے نظریں چراتی رہے۔ اس لیے ایسی قیادت بلوچستان کے حصے میں آئی جو آج تک بلوچستان کا مسئلہ حل نہ کرسکی بلکہ وقت گزرنے ساتھ مسئلہ سنگین تر ہوتا چلا گیا۔ شاید بلوچستان کے سرداروں کو بھی یہی سوٹ کرتا تھا کہ مسئلہ جوں کا توں رہے تاکہ ان کی اہمیت اور ضرورت کبھی ختم نہ ہو۔ صدر زرداری کے پیپلز پارٹی دور ِحکومت میں ہم نے دیکھا کہ کچھ اہم کوششیں کی گئیں کہ بلوچوں کو راضی کیا جائے‘ انہیں ان کے وسائل پر زیادہ کنٹرول اور پیسہ دیا جائے‘ نوکریوں میں ان کا حصہ بڑھایا جائے‘ ان کو عالمی معاہدوں میں زیادہ شیئر دیا جائے۔ ورنہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک غیر ملکی کمپنی کیساتھ معاہدے کے مطابق بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والی دھاتوں میں سے صرف دو فیصد بلوچستان کو ملتا تھاجبکہ 98 فیصد اسلام آباد اور غیرملکی کمپنی کو ملتا تھا۔ اس طرح بلوچستان کی گیس کی قیمت بلوچستان اور سندھ کے مقابلے میں اتنی کم رکھی گئی اور اس حساب سے صوبے کو ادائیگی کی گئی کہ حیرانی ہوتی ہے۔ ایک دور تو وہ بھی آیا کہ بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کو پچیس پچیس کروڑ روپے ترقیاتی گرانٹ کے نام پر بانٹے گئے۔ جس ذہنی صلاحیت کے سردار وہاں وزیراعلیٰ بنے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ ایک وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے ایک ارب روپے اپنی حکومت سے جرمانہ وصول کیا کہ ان کی ایک اور قبیلے سے دشمنی تھی جس میں ان کے گھروں اور فصلوں کو نقصان ہوا تھا‘ ریاست اس کی ادائیگی کرے اور وہ پیسے انہیں اور ان کے بھائی کو ان کی اپنی حکومت نے ادا کئے۔
مجھے یاد ہے مشرف دور میں دس ارب روپے لگا کر علاقہ غیر کو باقاعدہ شہری علاقے بنانے پر کام ہوا۔ جب سب کچھ خرچ ہوگیا اور پی پی پی حکومت آئی تو سب سرداروں نے کہا کہ ان علاقوں کو دوبارہ علاقہ غیر کا سٹیٹس دیا جائے جہاں ان کے اپنے بندے ریکروٹ تھے جو اُن کے محافظ کا کام کرتے تھے اور تنخواہ انہیں ریاست دیتی تھی۔ سرداروں نے کہا کہ وہ سب تنخواہوں کا پیسہ انہیں ملے گا اور وہ خود جسے چاہیں تنخواہ دیں۔ انکی یہ شرائط مانی گئیں۔ سب اصلاحات ختم کر دی گئیں۔ بلوچ عوام دوبارہ اس پرانے سسٹم کی طرف لوٹ گئے کہ حکومت سرداروں کو کروڑوں روپے دے گی اور وہ اپنی مرضی سے اپنی فورس میں تنخواہ کے نام پر وہ پیسے بانٹیں گے۔
سرداروں نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہیں باہر سے آنیوالوں نے لوٹا اور انکے وسائل پر قبضہ کیا۔ پہلے باہر سے پڑھے لکھے لوگوں کو بلوچستان بلوایا گیا تاکہ وہ صوبے کے عوام کو پڑھائیں۔ جب وہ سیٹل ہوگئے اور وہیں انکے بچے پیدا ہوئے‘ بڑے ہوئے تو اچانک ان سب کو خیال آیا کہ وہ تو انہیں لوٹ رہے ہیں اور یوں انہیں قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کی جائیدادوں پر قبضے ہوئے‘ انہیں صوبہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کی جگہ افغانستان سے آئے لوگوں نے لی۔ بلوچستان سے ہی ایک لیڈر پر الزام لگتا ہے کہ اس نے ان ہزاروں اجنبیوں کو شناختی کارڈ بنوا کر ووٹر بنا دیا تاکہ وہ الیکشن جیت سکیں۔ پھر پختونوں اور بلوچوں کے درمیان اختلافات ابھرے جس نے قوم پرستی کو مزید ہوا دی۔ بلوچوں کو لگا کہ پہلے کراچی، ڈیرہ غازی خان اور تونسہ سے آنے والوں نے ان کی جگہ لی تو اَب پشتونوں اور افغانوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بلوچ تیزی سے اپنی اکثریت اور شناخت کھوتے جارہے ہیں۔ یوں انہوں نے مزاحمت تیز کر دی اور پھر ظلم یہ ہوا کہ علیحدگی پسند عام اور معصوم اُردو سپیکنگ لوگوں، سرائیکیوںاور پنجابیوں کو چُن چُن کر قتل کرنے لگے۔ آج تک میں نہیں سمجھ سکا کہ خود کو مظلوم سمجھنے والا بندہ دوسرے مظلوم کو کیسے قتل کر سکتا ہے؟ یوں ریاست نے بلوچستان میں پشتونوں کے ساتھ الائنس بنا لیا۔ رہی سہی کسر مشرف پوری کر گئے جب اُن کے دور میں اکبر بگٹی مارے گئے۔
اگرچہ کوشش کی گئی کہ بلوچوں کو اسلام آباد میں بڑے عہدے دیے جائیں تاکہ وہ خود کو پاکستان کا حکمران سمجھیں محکوم نہیں۔ ظفراللہ جمالی سے لے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جان جمالی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ‘ نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی اور نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ تک بلوچستان کے لوگوں کو عہدے دیے گئے۔ اب جب اسلام آباد میں ایک طویل لانگ مارچ کے بعد خواتین اور بچے گم شدہ افراد کی تلاش میں آئے تو اُن کے ساتھ جو سلوک ہوا اسے کسی پاکستانی نے اچھا نہیں سمجھا۔ یہ بات مان بھی لی جائے کہ وہ سب خواتین بچے علیحدگی پسندوں کے ایجنڈے پر تھے تو آپ اس معاملے کو بہتر ہینڈل کرتے تاکہ سوشل میڈیا کے دور میں ان خواتین اور بچوں پر پولیس چڑھائی کے وڈیو کلپس نہ بنتے‘ جو وائرل ہوئے۔ شاید مقصد بھی کلپس بنوانا تھا۔ وہی کلپس اب بلوچستان میں ہر فون پر چل رہے ہوں گے کہ دیکھو اسلام آباد کی سڑکوں پر ہماری بچیوں کیساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ بلوچ ان معاملات میں بہت حساس ہیں‘ جس کا مظاہرہ ہم نے برسوں پہلے ڈاکٹر شازیہ کیس میں دیکھا تھا جب اکبر بگٹی اور انکے قبیلے نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ ان کلپس کے بعد نوجوان بلوچوں کی مزید ریکروٹمنٹ شروع ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس حساس معاملے کو کیسے ہینڈل کیا جاسکتا تھا؟ میرے خیال میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو پہل کرنی چاہئے تھے۔ انہیں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سرفراز بگٹی کیساتھ ان مظاہرین سے ملاقات کرنی چاہئے تھی۔ ان سب کو وزیراعظم ہاؤس بلانا چاہئے تھا۔ ان بلوچ بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھتے‘ انہیں عزت دیتے‘ ان کو اپنا اور ریاست کا مؤقف سمجھاتے اور جہاں تک ممکن تھا مدد کرتے۔ عزت کیساتھ انہیں لوٹاتے۔ خصوصی جہاز دے کر واپس کوئٹہ بھیجا جا سکتا تھا۔ اگر وزارتِ داخلہ کے ہیلی کاپٹر ماضی میں کراچی سے نہاری لانے کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں تو بلوچ بچیوں کیلئے بھی ہو سکتے تھے۔ کاکڑ صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ وہ بچے بچیاں غلط ہیں یا ٹھیک وہ آپ کے صوبے سے ہیں۔ کاکڑ صاحب کا انہیں اگنور کرنا زیادہ خطرناک ہے۔ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون تقسیم بہت گہری ہے۔ کاکڑ صاحب پشتون ہیں اور مظاہرین خواتین بلوچ ہیں‘ لہٰذا یہ سب پیغام ہی غلط گیا ہے کہ پہلے بلوچ خواتین پر پولیس فورس استعمال ہوئی اور پھربلوچستان سے پشتون وزیراعظم انہیں وزیراعظم ہاؤس بلا کر چائے تک نہ پلا سکا۔ ان تمام باتوں سے صرف ان کی مدد ہوئی ہے جو بقول آپ کے اس لانگ مارچ یا دھرنے کے سپانسر ہیں۔ آپ ان سپانسرز کو ناکام بنا سکتے تھے لیکن آپ بھی اپنی ضد اور اَنا کا شکار ہوئے اور ان کا کام آسان کیا۔ایک دفعہ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب میاں فاروق نذیر سے پوچھا کہ وہ درجنوں دفعہ جیلر رہے‘ انکے نزدیک کس قوم کا قیدی سب سے مشکل اور آسان قیدی کون تھا؟ وہ بلاجھجک بولے :بلوچ قیدی کو ہینڈل کرنا سب سے مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔میں نے پوچھا:وہ کیسے؟ بولے: بلوچ قیدی کو رام کرنا ہے، اسکا دل جیتنا ہے تو اسے عزت دو۔ وہ بچھ جائے گا‘ لیکن اس کو ذلیل کرو گے تو وہ جیل میں مر جائے گا آپکے آگے نہیں جھکے گا۔یہ آسان فارمولہ ریاست اور نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب بھی استعمال کر سکتے تھے۔