تقریباًچھ سال بعد الیکشن ہورہے تھے۔ امید تھی کچھ بہتری کی گنجائش نکلے گی لیکن ہمیشہ کی طرح غلط نکلے اور اب تو الیکشن کے بعد مزید حالات بگڑ گئے ہیں۔الیکشن سے پہلے جو منظرنامہ تھا اس سے زیادہ خطرناک صورت حال ہو چکی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینا ہر ایک کے ذہن میں اپنا اپنا نام ہوگا۔ سیاستدانوں سے بات کریں تو وہ اداروں پر الزام دھر دیتے ہیں۔ اداروں سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں اگر یہ خود اتنے قابل ہیں تو ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر کیوں وزیراعظم ہاؤس پہنچنا چاہتے ہیں؟ اپنی محنت کریں اور عوام کے بھروسے اپنے پائوں پر کھڑے ہو ں۔ سیاستدان کہتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے تو دھاندلی ہو جاتی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ہم سب برُی طرح پھنس چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جمہوریت کے لائق ہیں بھی ؟ آپ سب کہیں گے کیوں نہیں۔ اگر دنیا کے دیگر دو سو ملکوں میں جمہوریت چل رہی ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں۔ صرف اس سال 62 ملکوں میں الیکشن ہونے ہیں ۔ مزے کی بات ہے کہ کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کون جیتا ‘ کون ہارا۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں جتنے آزاد جیتے ہیں وہ سب پی ٹی آئی کے ہیں۔ نواز شریف نے وکٹری سپیچ دی تو اُس وقت اُن کے پاس 70 ‘80سیٹیں تھیں اور حکومت بنانے کیلئے 169 سیٹیں درکار ہیں۔ پیپلز پارٹی تو (ن) لیگ سے بھی پیچھے تھی اور زرداری صاحب نے کہہ دیا‘ بلاول وزیراعظم ہوگا۔ مزے کی بات ہے کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 100 سے زائدہے اور اگر انہیں آزادی کے ساتھ نئی پارٹی بنانے دی جائے اور انہیں خواتین کی مخصوص سیٹیں بھی مل جائیں تو وہ بغیر کسی کی مدد کے خود حکومت بنا سکتے ہیں۔ یوں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزاد امیدواروں نے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو بڑی لیڈ سے شکست دی ہے۔ اب اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ آزاد امیدواروں کو توڑ ا جائے ۔ ان میں سے اکثر (ن) لیگ کی طرف رخ کررہے ہیں۔ ان آزاد امیدواروں کو نظر آرہا ہے کہ حکومت نواز شریف کی پارٹی کی ہی بنے گی چاہے ان کے پاس ہاؤس میں پچاس سیٹیں ہی کیوں نہ ہوں۔ پیپلزپارٹی کا چانس تو بالکل نہیں ہے۔ ہاں زرداری کوشش کریں گے کہ وہ خود صدر بن جائیں‘ گیلانی صاحب یا راجہ پرویز اشرف کو چیئرمین سینیٹ اور سپیکر بنوا دیں‘ بلاول وزیرخارجہ لگ جائیں اور درجن بھر وزارتیں پیپلز پارٹی کے لوگوں کو مل جائیں گی۔ 40‘ 50 سیٹوں کے ساتھ اس سے بڑا سیاسی سودا کیا ہوسکتا ہے۔
میرا ہمیشہ سے ماننا رہا ہے کہ جو لوگ زرداری کی اس پالیسی پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے پنجاب میں پارٹی نواز شریف سے مصالحت کے چکر میں ڈبو دی وہ ایک اہم نکتے پر غور نہیں کرتے۔ زرداری صاحب نے 2008ء کے بعد یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب انہوں نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست نہیں کرنی۔ اگر بینظیر بھٹو کے قتل کے بعدبھی وہ صوبہ پنجاب میں ووٹ لے کر حکومت نہیں بنا سکے تھے تو پھر مان لیں کہ پارٹی اب پنجاب سے ختم ہوچکی۔ ہاں پنجاب میں چند پاکٹس ضرور تھیں جہاں سے کچھ پی پی پی امیدوار اپنے زور پر الیکشن جیت لیتے ہیں۔ زرداری ماڈل یہ تھا کہ اٹھارہویں ترمیم لائی جائے اور اس کے ذریعے صوبوں کو اتنا خودمختار کر دیا جائے کہ انہیں مرکز کی ضرورت نہ رہے۔ ہر صوبہ ایک طرح سے ملک کا درجہ رکھتا ہو۔ وہی ہوا جب 2010 ء میں ترمیم لائی گئی اور صوبوں کا این ایف سی شیئر بڑھایا گیا تو سندھ کو اوسطاً ایک ہزار ارب روپے ملنے لگے۔ پندرہ سالوں میں اوسطا ًبارہ سے پندرہ ہزار ارب سندھ لے چکا ہے۔ زرداری اور نواز شریف میں یہ ایک زبانی انڈرسٹینڈنگ ہے کہ سندھ آپ کا‘ پنجاب ہمارا۔ اس لیے نہ زرداری نے پنجاب میں پارٹی کو دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی نہ نواز شریف سندھ میں داخل ہوئے۔ ابھی دیکھ لیں بلاول نے لاہور کی حد تک شغل لگایا لیکن زرداری پنجاب سے دور رہے۔ نواز شریف بھی سندھ نہیں گئے‘ نہ وہاں جلسے کرنے کا ان کا دل کیا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب میں پارٹی ڈبونے سے زرداری کو کیا حاصل ہوا؟زرداری صاحب سمجھ چکے ہیں کہ اب انہوں نے وسیم اکرم کی طرح اپنا باؤلنگ ایکشن تبدیل کر کے‘ رَن اَپ شارٹ کر کے زیادہ نتائج حاصل کرنے ہیں۔ وقار یونس یا شعیب اختر کی طرح لمبا رَن اَپ لے کر زور لگا کر تیز بالیں کرنے کا فائدہ نہیں۔ شارٹ رَن اَپ کے ساتھ باؤلنگ میں بہتری کر کے سوئنگ کی مدد سے کام چلائو ۔ یہ فارمولہ وسیم اکرم کیلئے بھی کامیاب رہا تھا اور زرداری کیلئے بھی۔
زرداری اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سندھ سے انہیں 40 ‘50 ایم این اے کی سیٹیں مل جاتی ہیں۔ پنجاب سے اِکا دُکا رحیم یار خان اور مظفرگڑھ سے بھی مل جاتی ہے۔ گیلانی خاندان بھی ایک دو سیٹیں نکال لیتا ہے۔ پوٹھوہار میں سے راجہ پرویز اشرف سیٹ لے آتے ہیں۔ بس کافی ہے۔ زیادہ سیٹیں لے کر کیا کرنا۔ یوں 50‘55 سیٹوں کے ساتھ وہ اسمبلی پہنچتے ہیں جہاں اکثریتی پارٹی سو سے بھی کم سیٹیں لے کر بیٹھی ہوتی ہے‘ یوں حکومت بنانے کیلئے ان کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ وہ وہاں بارگین کرکے اچھی ڈیل مارلیتے ہیں۔ بس زیادہ کا لالچ نہیں کرنا‘ وزیراعظم کی پوسٹ نہیں لینی‘باقی سب کچھ مل سکتا ہے۔ پھربات یہیں نہیں رکتی۔ سینیٹ کی سندھ سے وہ پندرہ بیس سیٹیں نکال لیتے ہیں اور بلوچستان میں لین دین کر کے وہاں سے بھی ووٹ لینے کا سین پیدا ہوجاتا ہے۔ یوں وہ ایک دن اس پوزیشن میں آجاتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف عمران خان حکومت میں اسلام آباد کی سینیٹ سیٹ سے جتوا دیتے ہیں بلکہ گیلانی صاحب تقریباً ًچیئرمین سینیٹ بن گئے تھے‘ اگر آخری لمحے زرداری جنرل فیض کو خوش کرنے کی چکر میں اپنے ہی بندے کو آٹھ مشکوک ووٹوں سے نہ ہراتے۔
یوں زرداری کو کیا پڑی ہے کہ وہ پنجاب کی سیاست کریں۔ اگر وہ پنجاب کی سیاست کیے بغیر بیٹے کو وزیرخارجہ‘ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ‘ راجہ پرویز اشرف کو سپیکر قومی اسمبلی ‘ اپنی پارٹی کے درجن بھر ایم این ایز کو وزیر بنوا دیں اور خود صدرِ پاکستان کی سیٹ پر بیٹھ جائیں؟ ان حالات میں اپنا وزیراعظم لگوا کر کیا کرنا ہے؟ بلاول ابھی انتظار کر سکتے ہیں۔ ابھی دوبارہ شہباز شریف کو وزیراعظم اورڈار کو وزیرخزانہ بننے دیں۔ سعودی‘ چینی اور فوج بھی شہباز شریف کو پسند کرتی ہے۔ جب پاکستان تاریخ کی بدترین سیاسی اتھل پتھل اور انتشار کا شکار ہے‘ عمران خان جیل میں ہے‘ انکی پارٹی کا ووٹ بینک اورجیتی ہوئی سیٹیں چرائی جارہی ہیں اور ہر طرف سے نعرے وَج رہے ہیں تو وہ کیوں اپنا سر اوکھلی میں دیں؟ ابھی اسی سال پاکستان کو 27 ارب ڈالرز کی بیرونی امداد کا بندوبست کرنا ہے۔ اسحاق ڈار یہ کریں۔ ابھی عمران خان کے ایشو کو ہینڈل کرنا ہے‘ دھاندلی کے الزامات کا بھی سامنا کرنا ہے‘ 2014ء سے بھی بڑی سیاسی جنگ شروع ہونی ہے تو اس وقت بلاول کو ایک سائیڈ پر بیٹھ کر فارن آفس چلانا چاہئے۔ دنیا بھر کے دورے کریں۔ اداروں اور شہباز شریف کو عمران خان‘ پی ٹی آئی ووٹرز اور عدالتوں اور سب سے بڑھ کر عالمی برادری سے ڈیل کرنے دیں جنہوں نے الیکشن کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔زرداری صاحب یقینا پاپ کارن خرید کر یہ نیا سیاسی سرکس انجوائے کریں گے۔ سب اہم عہدے لے کر بھی وہ ناکامی کا الزام نواز شریف اور شہباز شریف پر دھر دیں گے‘ جیسے پہلے سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کے بعد دھر دیا تھا کہ یہ وزیراعظم شہباز شریف کی ناکامی تھی‘ پیپلز پارٹی کی نہیں۔زرداری نے شاید ہماری کرکٹ تاریخ کے بڑے باؤلر وسیم اکرم سے یہی سیکھا۔ شارٹ رَن اَپ اور باؤلنگ ٹیکنیک کے ساتھ شعیب اختر اور وقار یونس سے زیادہ خطرناک بن کر زیادہ وکٹیں لی جا سکتی ہیں۔