پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریسی کی بدولت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی پچھلے برسوں میں چاندی ہوگئی تھی۔ ایسے معاہدے کیے گئے جن کا فائدہ ان غیرملکی سرمایہ کاروں کو ہوا۔ یقینا کوئی بھی بزنس مین اپنا فائدہ دیکھ کر ہی پاکستان آئے گا اور اپنا سرمایہ لگائے گا۔ایسا کنٹریکٹ کیوں بنایا جاتا ہے کہ ہر دفعہ وہ سرمایہ کار پاکستان کو عالمی عدالت یا لندن میں لے جا کر اربوں ڈالرز کی سزا دلوا دیتے ہیں۔ تین بڑے معاہدے ذہن میں آتے ہیں جن میں پاکستان کو بڑے جرمانے ہوئے۔ نیب کے پہلے چیئرمین جنرل امجد کا براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ‘ ترکی کا کرائے کا بجلی گھر جہاز اور ریکوڈیک کا معاہدہ‘ جن پر اربوں ڈالرز کے جرمانے ہوئے۔ براڈشیٹ سکینڈل تو اپنی نوعیت کا واحد سکینڈل تھا جس میں دو دفعہ جرمانے بھرے گئے۔ پہلے جس بندے کو ادائیگی کی گئی وہ فراڈیا نکلا۔ دوسرے نے لندن کی عدالت میں کیس کیا جس پر ایرانی نژاد موسوی کو وزیراعظم عمران خان کے دور میں ستر ملین ڈالر ادا کیے گئے۔ یہ تھا ہماری حکمرانوں اور بیوروکریسی کا کارنامہ۔ کچھ معاہدے پاکستانی عدالتوں نے ختم کیے‘ جن پر عالمی عدالت سے جرمانے ہوئے لیکن عدالتوں سے زیادہ ہماری بیوروکریسی نے ان معاہدوں میں ایسی کلاز ڈالیں جن سے صاف پتا لگتا تھا کہ وہ اس ڈیل میں حصہ دار ہیں۔
ترکی کے بجلی گھر کے سکینڈل میں اپنے پاکستانیوں نے ترکوں کیساتھ مل کر ہمیں لوٹا۔ وہی بات کہ ہمیں اپنوں نے لوٹا ‘ غیروں میں کہاں دم تھا۔ واٹر اینڈ پاور کے فیڈرل سیکرٹری شاہد رفیع نے اس کیس میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کی۔ اس ڈیل میں اُس نے لمبا مال کمایا تھا۔ صرف چار کروڑ دے کر باقی ہضم کر گیا۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر کا بیٹا اس ترک فرم کا پاکستان میں کنٹری منیجر تھا‘اُس وقت کے وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں سے رشتہ داری تھی۔اس فرم کو پانچ‘ چھ سو ملین ڈالرز کا کنٹریکٹ دیا گیا۔ایڈوانس ادائیگی کی گئی۔ اس بجلی گھر نے چند میگا واٹ بجلی تک پیدا نہ کی اور ایڈوانس لے گیا جو بعد میں پتا چلا کہ سب نے بانٹ کر کھایا تھا۔ جب عدالت نے وہ معاہدہ کینسل کیا تو اس کمپنی کو نیب سے بھی کلیئرنس چٹ انہی افسران نے لے کر دی‘اس کی بنیاد پر اس کمپنی نے لندن کی عدالت سے پاکستان کو سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کرا کے بیرونِ ملک پاکستانی جائیدادوں کو بکوانے کیلئے وہاں مقامی عدالتوں میں مقدمے بھی کر دیے۔ اس فرم کی اپنی چوری کیسے پکڑی گئی وہ الگ کہانی ہے‘ جس سے وہ سوا ارب ڈالرز بچے جو ہمارے سیاسی حکمرانوں اور بابوز نے آپس میں باٹنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ ایسی کئی کہانیاں ہیں کہ بیوروکریسی کی نالائقی کی قیمت اس قوم نے ڈالروں کی شکل میں ادا کی۔
آپ پاک ایران گیس پائپ لائن ڈیل کو ہی دیکھ لیں۔ آج سے 14برس قبل صدر زرداری ایران گئے اور یہ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت بھی ایران سے اسی پائپ لائن کے ذریعے گیس پاکستان کے راستے امپورٹ کرنا چاہ رہا تھا۔ ان دنوں سب کو علم تھا کہ امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں اور اس معاہدے پر انہیں اعتراضات ہوں گے۔ خیر ہم نے اپنا مفاد دیکھا اور ہمارا مفاد اس میں تھا کہ ہم ایران سے گیس خریدیں۔ ایران جو عالمی سطح پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار تھا اس کیلئے اچھا موقع تھا کہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرے۔ دیکھا جائے تو پاکستان ایران کے ساتھ اس دور میں بزنس ڈیل کر کے ایران کو سپورٹ دے رہا تھا جیسے اب ایرانی صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت دے کر کی ہے جب ایران اور اسرائیل اور ان کے یورپی اتحادیوں کے درمیان بڑا فائر ورک ہوا ہے۔ ایرانی صدر کی اس وقت پاکستان میں موجودگی سے یقینا کچھ طاقتیں خوش نہیں ہوں گی جو پاکستان کیلئے فیٹف یا آئی ایم ایف ڈیل کے موقع پر مسئلہ پیدا کرسکتی ہیں۔ خود ایران اور پاکستان نے ڈھائی‘ تین ماہ پہلے ایک دوسرے پر میزائل حملے کیے تھے۔
اس وقت زرداری صاحب نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے تحت اگر پاکستان نے کچھ سالوں بعد گیس لینا شروع نہ کی تو پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ یہ وہ شق ہے جس کے تحت اب ایران تقریباً سترہ ارب ڈالرز کا بل پاکستان کے خلاف بنا چکا ہے۔ یقینا ایران کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ کیا زرداری صاحب یا ہمارے سرکاری بابوز کو علم نہ تھا کہ امریکہ پاکستان کو وہ گیس پائپ لائن نہیں بنانے دے گا؟یا تو پہلے امریکہ سے بات کر لی جاتی اور پھر معاہدہ ہوتا‘ لیکن زرداری صاحب بھی خود کوامریکی صدر سے کم نہیں سمجھتے‘ انہوں نے ڈیل سائن کی اور ساتھ جرمانے کی کلاز بھی رکھوا لی۔ ایران نے پاکستان کو گیس بھی مہنگی دی حالانکہ انہی دنوں سینٹرل ایشیاکے ایک ملک کو پاکستان سے سستا ریٹ دیا گیا یا پھر اس ملک کے صدر نے پاکستان کے صدر زرداری سے زیادہ بہتر ڈیل کی ہو گی۔ اب حالت یہ ہے کہ 14 برس میں پاکستان وہ پائپ لائن نہیں بچھا سکا۔ یقینا سب کہیں گے ہمارا قصور ہے۔ بالکل‘ ایسا ہی ہے۔ جب ہمیں علم تھا کہ ہم امریکی دبائو کا سامنا نہیں کر سکتے تو اس ڈیل کو سائن کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بھارت سیانا نکلا‘ جب امریکہ نے اسے کہا کہ اس ڈیل سے نکل جائو تو بھارت نے کہا پھر ہماری انرجی ضروریات کیسے پوری ہوں گی‘ امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کر لیا جس پر پاکستان نے بڑا شور ڈالا کہ ہمارے ساتھ بھی یہی کرو لیکن امریکہ نے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان نے چینی بینک سے پانچ سو ملین ڈالرز قرضہ مانگا تاکہ پائپ لائن بچھائیں‘ امریکہ نے چین کو بھی خبردار کیا تو چین بھی پیچھے ہٹ گیا۔ پھر فیصلہ ہوا کہ ٹیکس لگا کر یہ پیسہ اکٹھا کیا جائے اور پائپ لائن بچھائی جائے۔ اس پر آپ کو یاد ہوگا کہ پیپلز پارٹی دور میں ہی GIDC کے نام سے ٹیکس کا اضافہ کیا گیا جو کسانوں‘ شہریوں‘ گیس سے بجلی بنانے والے بجلی گھروں‘ سی این جی سٹیشنز پر گیس ڈالوانے والوں سے وصول ہونا شروع ہوا۔ اس مد میں کل 700 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہوا لیکن بڑے کاروباریوں نے حکومت کو یہ ٹیکس دینے سے انکار کر دیا اور عدالتوں سے سٹے لے لیا۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو ان کاروباریوں سے ڈیل کی کہ تین سو ارب آپ رکھ لیں اور تین سو ارب ہمیں دے دیں۔ اندازہ کریں لوگوں سے اکٹھا کیا گیا ٹیکس ان بزنس مینوں کو معاف کر دیا گیا جن میں خان صاحب کے اپنے ڈونر بزنس مین بھی شامل تھے۔ جب رولا ڈالا گیا اور میں نے سٹوری بریک کی تو اس پر عمران خان نے وہ ایشو سپریم کورٹ کو بھیج دیا۔ عمران خان کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر حکم دیا کہ ان کاروباریوں سے سات سو ارب روپے ریکور کرائیں‘ وہ ٹیکس منی ہے‘ لوگوں سے پیسہ لیا جا چکا ہے‘ کوئی بھی وزیراعظم بھلا کیسے اربوں روپے اپنے ڈونرز یا بزنس مینوں کو معاف کرسکتا ہے۔ عمران خان اس پر خوش نہ تھے کہ ان کا فیصلہ سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا‘ لہٰذا ریکوری روک دی گئی۔ آج تک پتا نہیں چلا کہ اس سات سو ارب روپے کا کیا بنا۔ اندازہ کریں 14 برس گزر گئے‘ ایرانی گیس کا ایک کیوبک فٹ تک ہمیں نہیں ملا اور ایران اس معاہدے کے تحت سترہ ارب ڈالرز کا جرمانہ تیار کیے بیٹھا ہے اور جس نے یہ متنازع کنڑیکٹ کیا تھا‘ یہ جانتے ہوئے کہ امریکہ ایسا نہیں ہونے دے گا‘ وہ اس دوران ایف آئی اے میں 40 ارب منی لانڈرنگ الزامات پر کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد دو بارہ ملک کا صدر بن کر ایرانی صدر کا استقبال کررہا ہے۔
داد دیں ہمیں کہ ہم نے ایرانی گیس سے ایک چولہا تک نہیں جلایا اور سترہ ارب ڈالرز کا جرمانہ تیار ہے‘ اور جو عوام پر ٹیکس لگا کر 700 ارب روپے اس گیس پائپ لائن کیلئے اکھٹے کیے تھے ان کی کوئی خبر نہیں کہ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔