پاکستانی بیوروکریٹس سے مجھے ایک شکایت رہی ہے کہ وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد کتابیں نہیں لکھتے۔ سیاستدان لکھتے تو ہیں لیکن بہت کم۔ آخری آٹو بائیوگرافی شاید عابدہ حسین نے برسوں پہلے لکھی تھی۔ ریٹائرڈ فوجی افسران تو بالکل کتابیں نہیں لکھتے۔ اگر کوئی لکھ بھی دے تو میڈیا سب سے پہلے لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتا ہے کہ اس وقت ہی کیوں لکھی۔ جنرل (ر) اسد درانی نے چند بہترین کتابیں لکھیں تو داد دینے کے بجائے اُلٹا ان کا کورٹ مارشل ہو گیا۔کتابوں کے حوالے سے اس مایوس کن صورتحال میں اب ملک کے سابق ٹاپ بیورو کریٹ سلمان فاروقی کی آٹو بائیوگرافی سامنے آئی ہے جس کا نام Dear Mr Jinnah ہے جبکہ ایک اور کتاب بھی چند دنوں تک سامنے آنے والی ہے‘ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کی خودنوشت ہے۔ دونوں اپنے اپنے دور میں بڑے افسران رہے ہیں اور کئی حکومتوں اور سربراہوں کے عروج و زوال کو قریب سے دیکھا ہے۔ سلمان فاروقی نے اگر میمو گیٹ سکینڈل کو ایوانِ صدر میں بیٹھ کر دیکھا اور بھگتا تو سعید مہدی نے 12 اکتوبر کی بغاوت اپنی آنکھوں سے دیکھی اور دو سال قید بھی رہے۔
سلمان فاروقی نے اپنی کتاب میں صدر آصف زرداری بارے تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ 2011ء میں جب میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا تو سلمان فاروقی ایوانِ صدر میں زرداری صاحب کے سیکرٹری جنرل تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میمو گیٹ صدر زرداری کو ہٹانے کیلئے لایا گیا تھا۔ میمو گیٹ میں یہ الزام تھا کہ حسین حقانی نے امریکی جنرل کو خط لکھا تھا کہ اگر فوجی بغاوت ہو تو آپ سول حکومت کو سپورٹ کریں۔ سلمان فاروقی کے مطابق ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ میمو گیٹ سکینڈل میں صدر زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ میمو گیٹ سکینڈل کو لے کر زرداری صاحب پر اتنا دباؤ تھا کہ ایک دن وہ ایوانِ صدر میں بے ہوش ہو گئے۔ پروٹوکول نے سلمان فاروقی کو فون کیا کہ صدر زرداری بے ہوش ہوگئے ہیں۔ سلمان فاروقی وہاں پہنچے تو سٹاف نے روک لیا۔پھر کافی دیر بعد اندر جانے کی اجازت ملی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمن ملک بھی پہنچے ہوئے تھے‘ جنہیں مشکل سے زرداری صاحب سے ملنے کی اجازت ملی۔ خرابیٔ طبیعت کے پیشِ نظر جنرل کیانی نے زرداری صاحب کیلئے سی ایم ایچ سے ایک نیورولوجسٹ کو بھیجا جس نے انہیں ہسپتال لے کر جانا تھا لیکن یوسف رضا گیلانی اور رحمن ملک نے کہا کہ زرداری صاحب کی فیملی انہیں دبئی یا لندن لے جانا چاہتی ہے۔ اگلی صبح ایوانِ صدر میں حسین حقانی بھی اپنا بیگ لیے تیار کھڑے تھے اور زرداری صاحب کو دبئی لے جانے کیلئے ایئر ایمبولینس آچکی تھی۔ تب زرداری صاحب نے کہا کہ حسین حقانی میرے ساتھ دبئی جائے گااور میرے ساتھ ہی واپس آئے گا‘ جنرل کیانی کو لکھ کر بتا دو۔
سلمان فاروقی نے صدر زرداری کو کہا کہ حسین حقانی کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں ہو گا۔ کسی نے لقمہ دیا کہ بحیثیتِ صدر‘ زرداری صاحب کی ضمانت پر کوئی شک نہیں کرے گا کہ حسین حقانی واپس نہیں آئے گا۔ سلمان فاروقی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف دیکھا تو وہ خاموش رہے۔ رحمن ملک سے جب یہ پوچھا کہ حسین حقانی کا نام ای سی ایل پر ہے یا نہیں‘ تو وہ کمرے سے نکل گئے۔ صدر زرداری سلمان فاروقی کی باتیں سن کر سخت ناخوش ہوئے۔ چند منٹ بعد ان کے سامنے ایک مراسلہ لایا گیا جس پر لکھا تھا کہ صدر کے حکم پر حسین حقانی ان کے ساتھ دبئی جائیں گے۔ سلمان فاروقی کو کہا گیا کہ صدر زرداری ان سے بہت ناراض ہیں‘ اس مراسلے پر دستخط سے وہ خوش ہو جائیں گے لیکن سلمان فاروقی نے دستخط کرنے سے انکار کردیا ۔خیر فیصلہ یہ ہوا کہ حسین حقانی صدر کے ساتھ دبئی نہیں جائیں گے۔ صدر زرداری کے دبئی جانے کے بعد حسین حقانی وزیراعظم ہاؤس شفٹ ہو گئے کیونکہ انہیں خدشہ لاحق تھا کہ کوئی انہیں جانی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چند دنوں بعد عدالت نے حسین حقانی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ صدر زرداری کی عدم موجودگی میں چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک قائم مقام صدر بن گئے تو اسی دوران سلمان فاروقی کے بارے میں افواہیں اُڑنے لگیں کہ انہیں فارغ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے فاروق ایچ نائیک سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ کچھ دن بعد جب چند اہم معاملات پیش آئے تو فاروق ایچ نائیک نے انہیں کہا کہ دبئی جائیں اور صدر زرداری سے ہدایات لے لیں۔ دراصل وہ سلمان فاروقی کو دبئی بھیج کر یہ جاننا چاہتے تھے کہ زرداری صاحب نے ان کو رکھنا ہے یا چھٹی کرانی ہے۔ جب سلمان فاروقی دبئی جانے کیلئے جہاز پر سوار ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ وزیراعظم ہاؤس سے فون آیا ہے کہ آپ کو جہاز سے اتار دیا جائے۔ سلمان فاروقی نے فاروق ایچ نائیک کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ دبئی جائیں‘ میں وزیراعظم گیلانی کو خود سمجھا دوں گا۔
دبئی میں زرداری صاحب کے ساتھ ڈاکٹر عاصم حسین بھی ہسپتال میں موجود تھے۔سلمان فاروقی کے پہنچنے پر عاصم حسین نے انہیں بتایا کہ صدر آج ڈسچارج ہو جائیں گے‘ آپ ان کو گھر آکر مل لینا لیکن سلمان فاروقی کو زرداری صاحب سے ملاقات کیلئے تین دن تک انتظار کرنا پڑا۔ زرداری صاحب نے کہا کہ آپ فوراً واپس جائیں اور فاروق ایچ نائیک کی مدد کریں۔ صدر زرداری نے ان سے حقانی والے معاملے پر ناراضی کا ذکر تک نہیں کیا۔ سلمان فاروقی کا کہنا ہے کہ اس پورے بحران میں صدر زرداری نے جنرل پاشا کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھا۔ ادھر جنرل کیانی کو سی ایم ایچ ہسپتال کے نیورولوجسٹ نے یقین دلایا تھا کہ صدر زرداری ایسی بیماری کا شکار ہیں کہ وہ ایوانِ صدر میں اپنی مدت پوری نہیں کر پائیں گے اور اللہ کا فیصلہ دیکھیں‘ تیرہ سال بعد زرداری صاحب دوبارہ صدر بن گئے ہیں۔
ایک دن سلمان فاروقی کو بتایا گیا کہ ان کا نام میموگیٹ کے مشکوک ملزمان میں شامل ہے۔ سلمان فاروقی نے تصدیق کے لیے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا سے رابطہ کیاتو انہوں نے کہا کہ مجھے علم ہے میموگیٹ کس نے لکھا تھا‘ آپ تسلی رکھیں‘ آپ نے میمو ڈرافٹ نہیں کیا۔ سلمان فاروقی نے جنرل کیانی کو بھی فون کیا‘ انہوں نے تسلی دی کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب میمو گیٹ سکینڈل منظر عام پر آیا تو وزیراعظم گیلانی نے حسین حقانی کو امریکہ سے بلایا تاکہ وہ صدر زرداری‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے سامنے پورا معاملہ کلیئر کریں۔ اس اجلاس میں حسین حقانی کو کہا گیا کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے۔ ان کی حفاظت کیلئے صدر زرداری نے انہیں ایوانِ صدر میں ٹھہرا لیا۔ اسی دوران صدر زرداری سے زبردستی استعفیٰ لیے جانے کی افواہیں بھی گردش کرنے لگیں مگر زرداری صاحب ڈٹ گئے اور کہا کہ مجھے زبردستی ایوانِ صدر سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو میں مزاحمت کروں گا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی پارلیمنٹ میں تقریر کر دی کہ ریاست کے اندر ریاست بنا دی گئی۔ دوسری جانب میمو گیٹ پر نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تاکہ زرداری صاحب‘ یوسف رضا گیلانی اور حسین حقانی کے خلاف کمیشن بنوا سکیں۔
صدر زرداری کی صحت پر ان تمام واقعات کا برا اثر پڑ رہا تھا۔ صدر زرداری کے سٹاف نے بتایا کہ اُن دنوں صدر کی گفتگو میں روانی نہیں رہی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی ہی سے دونوں‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا نے مدتِ ملازمت میں توسیع لی تھی۔