اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کرنا یا انہیں کنٹرول کرنا انسانی تاریخ میں کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ اس کے لیے انسانوں نے کئی سسٹم بنائے‘ انہیں آزمایا اور ہر دفعہ پتا چلا کہ نہیں‘ یہ چیز بھی ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ ایک دور تھا جب جسمانی طور پر طاقتور بندہ سب لوگوں کا سردار یا چیف بن جاتا تھا۔ عام لوگ سمجھتے تھے کہ جسمانی طور پر طاقتور بندہ ان کا تحفظ کرے گا۔ اس طرح غیر معمولی صلاحیتوں کے لوگوں کو بھی انسان اپنا حکمران بناتے آئے ہیں۔ جو خوبیاں انسان اپنے اندر نہیں پاتے تھے وہ دوسروں میں دیکھ کر ان کے آگے جھک جاتے تھے۔ اس لیے آپ دیکھیں تو انسان ہمیشہ سے انسانی دیوتائوں سے لے کر سورج چاند تک کو بھی دیوتا مان کر ان کی پوجا کرتے رہے ہیں۔ ہر وہ چیز جو ان کے خیال سے بڑی تھی یا جو انہیں خوفزدہ کر دیتی تھی وہ اسے خدا مان لیتے تھے اور اس کی پوجا شروع کر دیتے تھے تاکہ دیوتا ان سے خوش رہیں۔
ابھی کچھ برس پہلے ہزاروں سال پرانے ایک غار سے ایک لڑکی کی لاش ملی جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ دیوتائوں کو پیش کی گئی تھی اور وہ غار میں خوف اور سردی سے سکڑ گئی تھی۔ اس خوفزدہ لڑکی کا سکڑا ہوا جسم صحیح سلامت ملا جس پر ریسرچ کی جا رہی ہے۔ انسان دیوتائوں کو دوشیزائوں کی قربانی پیش کرتے تھے۔ انسان نے آج کے جدید دور تک پہنچنے میں بڑی ذہنی اور جسمانی قربانیاں دی ہیں۔ سینکڑوں‘ ہزاروں انسانوں کا خون بہایا گیا تاکہ دیوتا راضی رہیں۔ دھیرے دھیرے انسان کا ذہن ترقی کرتا گیا اور اُن سب دیوتاؤں کے بت جو انسانوں نے اپنے ذہنوں میں تخلیق کر رکھے تھے‘ وہ پاش پاش ہوتے چلے گئے۔ انسان باشعور ہوتا چلا گیا اور سب نظریات چیلنج ہونے لگے۔ رہی سہی کسر یورپ میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے پوری کر دی جس نے کتابیں ہر طرف پھیلا دیں اور شعور بیدار ہونا شروع ہوا اور انسانوں کو بندوق اور تلوار کے زور پر قابو کرنا یا ان پر حکمرانی کرنا مشکل ہوتا چلا گیا۔
تحفظ اور خوشحالی کا خواب ہی دراصل انسانوں کو اس بات پر قائل کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے جیسے انسان کو خود پر حکمرانی کا حق دیں۔ اس لیے آپ اگر انسانی تاریخ کو دیکھیں تو یہی دو چیزیں ہیں جو انسان کو مجبور کرتی آئی ہیں کہ وہ دوسروں کو یہ حق دیں کہ وہ ان کی زندگی اور موت کے فیصلے کریں۔ اسی لیے لوگوں نے بادشاہت بھی قبول کی۔ اُس دور میں یہ قانون تھا کہ بادشاہ ایسی مخلوق ہے جس پر کوئی قانون قاعدہ لاگو نہیں ہوتا۔ بادشاہ اتنا طاقتور سمجھا جاتا تھا کہ رعایا یہ سمجھتی تھی کہ دیوتائوں کی طرح بادشاہ بھی کوئی غلطی نہیں کر سکتا‘ غلطی عام لوگ یا رعایا ہی کرتے ہیں اور سزا بھی انہی کو ملتی ہے۔ یوں بادشاہوں اور مذہبی لوگوں نے مل کر اتحاد کر لیا اور مقدس بن کر رعایا پر راج کیا۔
پرنٹنگ پریس کا پہلا بڑا نتیجہ انقلابِ فرانس کی شکل میں نکلا جب آزادی اور برابری کا نعرہ رومانس بن کر ابھرا اور فرانس کے بادشاہ‘ ملکہ اور ان کے خاندان کو اس طوفان میں بہا لے گیا۔ ملکہ اور بادشاہ‘ دونوں اس عوام کے ہاتھوں مارے گئے جو کبھی انہیں اپنا دیوتا مانتے تھے۔ اب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کون سا نیا نظام ہو جس سے اس شعور بھرے معاشرے پر حکومت کی جائے‘ اسی دوران نپولین نکلا جس نے پیرس کی گلیوں میں انقلابی بلوائیوں کو توپوں سے اڑا کر فوج کی کمان سنبھال لی اور پھر پورے یورپ کو جنگوں میں دھکیل دیا۔ آزادی اور فرانس کی برتری کے نام پر لاکھوں لوگ مارے گئے۔ یہی حال روس میں زار کے ساتھ ہوا‘ اُس کا خاندان بھی انقلابیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اور جب 1917ء میں انقلاب آیا تو اس کو لانے والوں نے پھر ایک دوسرے کو قتل کیا۔ لینن مرا تو اس کی جگہ لینے والوں کا برا حشر ہوا۔ سٹالن نے آگے بڑھ کر روس پر گرفت مضبوط کی تو سب سے بڑے انقلابی ٹراٹسکی کو کرائے کے قاتلوں سے مروا دیا گیا۔ ٹراٹسکی روس چھوڑ کر جا چکا تھا لیکن پھر بھی کرائے کے قاتل بھیج کر اس کا خاتمہ کیا گیا۔ لاکھوں لوگ سٹالن کے دور میں مارے گئے۔
آخرکار انگریزوں نے جمہوری نظام دیا جس کا مطلب تھا کہ آپس میں جنگیں لڑنے یا شاہی خاندان قتل کرنے کے بجائے ووٹ کے ذریعے بادشاہ ہی بدل دو۔ بادشاہ بھی اب عدالت کا سامنا کرے گا۔ اس کا بھی احتساب ہو گا۔ یہ نظام دنیا میں بڑی حد تک تسلیم کیا گیا اور اب دنیا میں دو سو ممالک میں رائج ہے۔ لیکن وہی بات کہ کچھ عرصہ بعد انسان ایک ہی قسم کی چیز سے بور ہو جاتا ہے‘ تھک جاتا ہے۔ اس کی طبیعت میں ایڈونچر ہے۔ بادشاہوں اور جنگوں سے تنگ آیا تو جمہوریت کی چھتری میں پناہ لی۔ اب جمہوریت سے بھی بور ہونے لگ گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک کتاب آئی تھی جس کا عنوان تھا: جمہوریت کیوں دم توڑ رہی ہے۔ اس کتاب میں کافی ریسرچ کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ جمہوریت ناکام ہونے کی وجہ بھی خود عوام کے لیڈرز ہیں جو ایک سٹیج پر مقبول ہو کر خود کو کسی کے آگے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ خود کو ایسی مخلوق سمجھ لیتے ہیں جو دوسروں پر حکمرانی کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ وہ کسی کو جواب دہ نہیں لیکن سب لوگ اس کو جواب دہ ہیں۔ جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ عدم برداشت سے ہے جب سیاسی پارٹیوں کے لیڈر برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے تو جمہوریت کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے لیڈر اس وقت قوم کو تقسیم کر دیتے ہیں جب وہ اپنے سیاسی مخالفین پر غداری کے الزام لگا کر عوام کو بھڑکانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ خود کو حب الوطن اور اپنے مخالف کو ملک دشمن قرار دے دیتے ہیں اور یوں جمہوریت ناکام ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب آپ اپنے مخالفین کا وجود برداشت نہیں کرتے تو جمہوریت کا قتل شروع ہو جاتا ہے۔ وہ لیڈر جب ریاست اور ریاستی اداروں سے بھی بڑا ہو جاتا ہے تو جمہوریت خطرے میں آ جاتی ہے۔ کتاب کے مصنفین نے اگرچہ موجودہ امریکی نظام کو اپنی ریسرچ کا موضوع بنایا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سیاسی لیڈر پاپولرازم کا سہارا لیتے ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے‘ اس سلسلے میں وہ ٹرمپ کی مثال دیتے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں وہ ریپبلکن پارٹی کی بات کرتے ہیں جو سفید فام برتری کا نعرہ مار کر ووٹر کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور یوں نسل‘ زبان یا احساسِ برتری پر کی گئی سیاست دراصل جمہوریت کی موت کا سبب بنتی ہے۔ لیڈرز جب ایشوز کے بجائے پاپولرازم کا سہارا لیتے ہیں تو جمہوریت اور جمہوری معاشرہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ایسے لیڈر‘ جو ہر وہ نعرہ لگاتے ہیں جس سے ووٹ لے سکتے ہیں‘ وہ دراصل خود ایک قسم کے ڈکٹیٹر بن کر ابھرتے ہیں۔ پھر ان کے خلاف بات کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں کے ایسے لیڈر دھیرے دھیرے ازمنہ وسطیٰ کے بادشاہوں کا سا روپ دھار لیتے ہیں جن پر کوئی تنقید نہیں ہو سکتی تھی اور جو کوئی تنقید کرتا تھا وہ قابلِ گردن زدنی قرار پاتا تھا۔ وہ باغی کہلاتا تھا جس کی سزا موت تھی۔ یوں آمریت یا بادشاہت کو شکست دے کر عوام جنہیں اپنا جمہوری لیڈر سمجھتے ہیں‘ انہیں مہان بنا کر تخت پر بٹھا کر ان کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔ کتاب میں وہ ٹرمپ اور کچھ اور ملکوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو اَب کلٹ بن چکے ہیں۔ وہ سیاسی پارٹی یا لیڈر نہیں رہے‘ ان کے فالورز انہیں دیوتا کا درجہ دے چکے ہیں اور یہی لیڈر جمہوریت کو ناکام کر رہے ہیں جو اپنے علاوہ سب کو غدار یا چور سمجھتے ہیں اور برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔