آخر کار حکومت نے نیا پیکا ایکٹ پاس کر کے نافذ کر دیا ہے جس کے تحت سکیورٹی اور دیگر اداروں کو بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ وہ جس کو چاہیں‘ اس قانون کے نام پر اٹھا لیں اور الزام لگا دیں کہ اس نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز دی ہے۔ جس طرح کا قانون بنایا گیا ہے اور ابھی اس کے جو رُولز بننے جا رہے ہیں اس کے بعد واضح ہے کہ اس کی زد میں وہ لوگ بھی آئیں گے جو ذمہ داری سے صحافت کرتے اور حکومت اور اداروں پر مناسب انداز میں تنقید کرتے ہیں۔ ہر حکومت اس طرح کے قوانین یہی کہتے ہوئے بناتی ہے کہ فیک نیوز کا تدارک کرنا ہے لیکن عموماً فیک نیوز کے نام پر مخالفین سے انتقام لیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں کون یہ کہے کہ فیک نیوز کے خلاف قانون نہ بنائیں‘ اگر کوئی کہے تو حکومت کی بات میں وزن آ جائے گاکہ یہ لوگ فیک نیوز کلچر چاہتے ہیں۔
اس قانون کے دو رُخ ہیں جن کو گہرائی میں جا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل کہ ان دو رُخوں کو دیکھیں‘ پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا گند شروع کیسے ہوا اور کس نے کیا؟اس ضمن میں پہلا نام تو قومی میڈیا کا لیا جائے گا کہ جناب دیکھیں‘ یہ اس بیماری کا موجب ہے‘ اگر قومی میڈیا آزاد نہ ہوتا تو سوشل میڈیا بھی ہاتھ سے نہ نکلتا۔ میڈیا کو آزادی دینے کا یہ انجام ہے کہ اب سوشل میڈیا ایک گٹر بن چکا ہے اور بقول زرتاج گل‘ اب سوشل میڈیا پر کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اب وہاں ورلڈ ریسلنگ کی طرز پر فری فار آل کھیلا جاتا ہے۔ جس طرح دل چاہے مخالف کی ناک رگڑ دو‘گرا کر مکے مارو‘ککس مارو‘ اس کا بھرکس نکال دو‘ آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا بلکہ آپ کو بہادر سمجھا جائے گا کہ یہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ وہ نوجوان بھی سوشل میڈیا پر گالیاں دے کر اِتراتا ہے جس کا ایک کانسٹیبل کو دیکھ کر خون خشک ہوجاتا تھا۔ اب وہ وزیراعظم‘ صدر‘ وزرا اور دیگر بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کو روز گالیاں نکالتا ہے اور اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ یا تو اسے کوئی جانتا نہیں کہ اسے کون ڈھونڈے گا‘ یا پھر جعلی اکائونٹ بنا کر اس نے گالیاں دینے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ وہ زندگی بھر کی ناکامیوں‘ حسرتوں اور شکایتوں کا بدلہ سوشل میڈیا پر لیتا ہے۔ وہ اُنہی اینکرز‘ یوٹیوبرز یا وی لاگرز کو سنتا ہے جو ہر روزتباہی و بربادی کی خبریں دیتے ہوں اور رات تک حکومت کو گرا کر سوتے ہوں۔ وہ نارمل انداز میں بات کرنے والے اینکرز یا سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو سننے کو تیار نہیں بلکہ انہیں وہ بزدل‘ گھٹیا‘بکائو اور لفافہ سمجھتا ہے جس میں ان لوگوں کو گالیاں دینے یا برا بھلا کہنے کی جرأت نہیں جنہیں وہ اپنے سب مسائل کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ یوں وی لاگرز اور یوٹیوبرز کی ایک نئی کلاس پیدا ہوئی جنہوں نے جھوٹ اور سچ کی تمیز ختم کر دی۔ اب مقابلہ شروع ہوگیا کہ کون زیادہ بڑی گالی دیتا ہے تاکہ لوگ اسے زیادہ سنیں۔ یوں زیادہ سے زیادہ ویوز لینے کی خاطر ایک نیا پاگل پن اس ملک کے کچھ افراد پر طاری ہوا۔اوپر سے سوشل میڈیا سائٹس نے ویوز کے بدلے ڈالرز دینا شروع کر دیے تو پھر چل سو چل۔ ذرا ٹک ٹاکرز کو دیکھیں‘ میرے جیسے پروگریسو لوگ بھی ان کو دیکھ کر اب کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہیں۔ اب تو دلہا دلہن اپنی شادی کو رِیلز پر دکھا رہے ہوتے ہیں تاکہ ویوز کے بدلے ڈالرز آئیں۔ابھی ایک دلہا اپنی دلہن کو گھر لا رہا تھا کہ اس نے گاڑی میں ہی لائیو وڈیو شروع کر دی۔ لوگوں نے اپنی بیویوں‘ بہنوں ‘ حتیٰ کہ ماں باپ تک کو کیمرے کے آگے بٹھا کر رِیلز اور وی لاگ شروع کر دیے ہیں۔وجہ وہی ڈالرز اور مشہوری ہے۔ اس کلچر کے بارے میں ایکس ؍ ٹویٹر کے مالک ایلون مسک کا کہنا ہے کہ اب سب صحافی ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباً پانچ ارب لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔جب آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ سب صحافی ہیں تو پھر ان سب کو خبریں‘ فالورز اور ویوز بھی تو درکار ہوں گے۔یہ وہ سب کہاں سے لائیں ؟ ایسے میں انہیں ایک ہی حل سمجھ آتا ہے کہ سارا دن جھوٹ پھیلائو‘ فیک نیوز چلائو‘ وی لاگز کے سنسنی خیز تھمب نیل بنائو کہ بس جونہی میرا وی لاگ ختم ہوگا‘ ساتھ ہی قیامت آجائے گی۔ لیکن کیوں آئے گی... اس کے لیے میرا یہ وی لاگ دیکھیں۔
اب ہر دوسرا گھر ڈالروں کے چکر میں اپنے خاندان کی خواتین اور بچوں سمیت سکرین پر آگیا ہے اور انتہائی بیہودہ قسم کا کانٹینٹ سوشل میڈیا پر آ رہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ یہی لوگ اب سوشل میڈیا ہیروز ہیں۔ یہی سیلیبرٹی ہیں اور اسی طریقے سے پیسہ کما کر امیر ہورہے ہیں۔یہی افراد اب نئی نسل کے رول ماڈل بن چکے ہیں۔ اب یہی لوگ بھگوان اور دیوتا ہیں جن کا لائف سٹائل دیکھ کر دوسروں کے منہ میں پانی آجاتا ہے۔دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کو بھی ایسے لوگوں کی تلاش تھی جو ان کے مخالفین کو سوشل میڈیا پر گالیاں دیں اور ان کا جینا حرام کر دیں۔یوں پہلے تحریک انصاف نے اپنے فالوورز کو لانچ کیا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر وہ دنگل کھیلا کہ توبہ۔ نواز شریف جب تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تب انہیں احساس ہوا کہ یہ بھی ایک میڈیا ہے جس کے ذریعے ان پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ وہ تب تک صرف روایتی میڈیا کے عادی تھے جنہیں پولیس‘ایف آئی اے‘ مقدمات‘ گرفتاریوں یا اشتہارات کی بندش سے قابو کیا جا سکتا تھا۔ وہ سب لوگ جو اخبار میں لکھ یا ٹی وی پر بول رہے تھے‘ ان کی ایک شناخت تھی‘ ایڈریس موجود تھا اور انہیں ٹریس کر کے حکمران سزائیں دلوا کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرسکتے تھے۔ لیکن یہ سوشل میڈیا ایک ایسی بلا تھی جس کی انہیں سمجھ نہیں تھی۔ آخرکار مریم نواز کو (ن) لیگ کا سوشل میڈیا سیل سنبھالنا پڑا اور انہوں نے مقابلے پر اپنی ٹیمیں اور اپنے بندے لانچ کر دیے۔ پہلے عمران خان اور ان کے حامی اکیلے سوشل میڈیا پر سواری کررہے تھے ‘پھر مریم نواز کی ٹیموں نے انہیں ٹکر دینا شروع کی لیکن عمران خان کو نواز شریف پر یوں برتری حاصل تھی کہ وہ نوجوانوں کو شریف خاندان کے خلاف ابھارنے میں کامیاب رہے۔ وہ جب اس خاندان کو ملک کی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہراتے تو لوگوں کو ان کی باتوں کا یقین آجاتا کہ یہ جنرل ضیا کے دور سے اقتدار میں تھے۔ نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بن چکے تھے‘شہباز شریف تیسری دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب بن چکے تھے‘نواز شریف دو‘ تین بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے تھے اور اب ان کے رشتہ دار اسحاق ڈار اور دیگر بھی کابینہ میں شامل تھے یعنی پورا خاندان اقتدار میں ۔ عمران خان تو اس وقت تک ایک دن بھی اقتدار میں نہیں آیا تھا کہ شریف خاندان اس پر ملک کی بدحالی کا الزام لگا سکتا۔ وہ تب تک بھٹو خاندان پر تبریٰ کر کے سیاست کرتے آ رہے تھے۔اب عمران خان نے ٹکر دی تو اسکی کمزوریاں اور سکینڈلز کو وہ 1990ء کے دہائی کے وسط میں‘ عمران خان کے سیاست میں آنے کے وقت سامنے لاچکے تھے۔ پاکستانی قوم کو البتہ ان سکینڈلز سے فرق نہ پڑا کیونکہ اس قوم کا مسئلہ اپنے لیڈروں کی ایمانداری اور اخلاقیات کبھی نہیں رہا‘ بس یہ ہے کہ لٹیرا مرضی کا ہو۔ عمران خان بارے وہ سب کچھ ہضم کر چکے تھے۔ یوں سوشل میڈیا پر عمران خان کی سپورٹ روز بروز بڑھنے لگی۔ گالی گلوچ‘ فیک نیوز اور جعلی تصاویر اور وڈیوز کا کلچر بھی پروموٹ ہورہا تھا۔ سوشل میڈیا نوجوانوں کو لگا کہ وہ جس کو چاہیں گالی دے سکتے ہیں۔ گالیوں کے اس مقابلے کا یہی اصول تھا کہ جو جیتا وہی سکندر۔نواز شریف کی حکومت کو سمجھ نہیں آرہی تھا کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو کیسے روکا جائے۔ آخرکار مریم نواز کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا جس سے عمران خان اور اس کے حامیوں کا سوشل میڈیا پر توڑ کیا جاسکتا تھا۔ اسے سُن کر سب واہ واہ کر اٹھے۔ اصل گیم تو اَب شروع ہورہی تھی۔ خان اور اس کے حامیوں کا توڑ کیا جارہا تھا۔ (جاری)