"FBC" (space) message & send to 7575

لودھراں الیکشن اور اس کے بعد

اس ہفتے لودھراں کے حلقے این اے 154 سے تحریک انصاف کے ہیوی ویٹ علی ترین (یعنی جہانگیر ترین) سید اقبال شاہ جیسے امیدوار سے الیکشن ہار گئے جو یہ الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہتے تھے‘ اور عین اسی دن جب لودھراں میں کاغذات نامزدگی داخل کیے جا رہے تھے‘ ان کا سیاسی لیڈر کرپشن کیسز میں نیب کے سامنے پیش ہو رہا تھا۔ اس الیکشن کو سیاسی اپ سیٹ کہنا شاید اتنا مناسب نہ ہو۔ آپ اس کی کوئی بھی توجیہہ پیش کریں دونوں جماعتوں کے لیے توقعات اور حقیقی نتائج میں موجود تضاد کی وضاحت ممکن نہیں ہے۔ اول: مسلم لیگ نون سمیت کسی کو سید اقبال شاہ کی کامیابی کی امید نہیں تھی۔ دوم: فوری ترقیاتی کاموں اور سرکاری امیدوار کے خلاف ضمنی الیکشن لڑنے کے نقصان سمیت اس کی کوئی بھی وجہ بیان کی جائے مگر کامیاب امیدوار اقبال شاہ (116,590) اور علی ترین کے (91230) ووٹوں کے فرق کی کوئی توجیہہ نہیں پیش کی جا سکتی۔
اس نتیجے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ لودھراں میں کیا ہوا؟ تحریک انصاف جہانگیر ترین جیسے مضبوط امیدوار کی چھوڑی ہوئی نشست کیوں ہار گئی؟ کیا نواز شریف کا مظلومیت کا نوحہ عوام میں مقبول ہو گیا یا تحریک انصاف کے اپنے موقف میں کوئی خامی اس شکست کی وجہ بنی؟ کیا پی ٹی آئی اپنی پے در پے غلطیوں کی اصلاح کر سکتی ہے؟ یا ہم 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی کامیابی کو ایک امر واقعہ سمجھ کر قبول کر لیں؟ یا ابھی تحریک انصاف کے پاس وقت ہے کہ وہ لودھراں کے الیکشن سے کوئی سبق سیکھ کر 2018ء کے الیکشن میں ان غلطیوں سے بچ سکے؟
چلیں پہلے اس مقبول وجہ کو دیکھ لیتے ہیں کہ یہ ایک ضمنی الیکشن تھا‘ نیز یہ کہ ایسے الیکشن میں حکومتی امیدوار کو ایک برتری حاصل ہوتی ہے۔ ہاں یہ بھی درست ہے کہ حلقے میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے حکومت کے پاس سرکاری تجوری ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف کا ''مجھے کیوں نکالا‘‘ والا نعرہ سیاسی طور پر مضحکہ خیز اور آئینی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود کچھ عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔
مگر ان میں سے کسی بات کو این اے 154 میں پی ٹی آئی کی شکست کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کو فراخدلی سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کی سیاسی حکمت عملی میں بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ موجودہ کارکردگی کے ساتھ آئندہ الیکشن کا معرکہ سر ہوتا نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف کی سیاسی مشینری میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے؟ مسلم لیگ نون کے بیانیے نے پی ٹی آئی کے سیاسی نعروں کو کیوں دھندلا دیا ہے؟ یا یوں کہہ لیں کہ تحریک انصاف کا سیاسی بیانیہ ہے کیا؟ اسے اچھا کہیں یا برا مگر ہم جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون عدلیہ کے اختیارات پر کلہاڑی چلانا چاہتی ہے‘ اور ساتھ ہی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندوں کو شاہانہ اختیارات دینے کی متمنی ہے۔ مگر اس ضمن میں پی ٹی آئی کا کیا موقف ہے؟ برسر اقتدار آ کر وہ کیا کرے گی؟ ووٹرز اپنی قسمت کے فیصلے عمران خان اور ان کے حواریوں کے ہاتھ میں کیوں دیں؟
حقیقت یہ ہے اور لودھراں کے الیکشن سے یہ مزید واضح ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف اپنا سیاسی پروگرام اور منشور عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے؟ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہم پی ٹی آئی کے بطور سیاسی جماعت ابھرنے مگر عوام کے ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم بات اکتوبر 2011ء میں مینار پاکستان کے تاریخی جلسے سے شروع کرتے ہیں (اسی دن عمران خان کی جماعت ایک سیاسی قوت بن کر سامنے آئی تھی) تحریک انصاف کا تعارف اس کی اصل حقیقت کے برعکس کروایا گیا۔ اس کا نعرہ تھا کہ ہمارے سوا باقی سب چور ہیں۔ دوسری جماعتوں کے لوگ اپنے اثاثے چھپاتے ہیں، بیرون ملک جائیدادیں رکھتے ہیں، ٹیکس چوری کرتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے ارکان یہ سب کچھ نہیں کرتے۔ دوسری سیاسی جماعتیں مالیاتی احتساب کے معاملے پر مصلحت کوشی کا شکار ہو جاتی ہیں (مثلاًبدنام زمانہ این آر او) جبکہ پی ٹی آئی ایسا نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کو ناکارہ اور گلے سڑے نظام یعنی سٹیٹس کو کی مخالف جماعت کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس تعارف نے مایوسیوں اور محرومیوں میں گھری اس نوجوان نسل میں امید کی ایک نئی جوت جگا دی جو تمام وسائل پر قابض ایک چھوٹے سے ٹولے سے شدید نفرت کرتی تھی۔
تاہم 2011ء کے اس تاریخی جلسے کے بعد پی ٹی آئی کو اس کی داخلی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل مہلک دھچکے لگ رہے ہیں۔ مشکوک وفاداریوں اور داغدار سیاسی ماضی کے حامل لوگوں نے تحریک انصاف میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ جب عمران خان نے ''الیکٹ ایبل‘‘ امیدواروں کو گرین سگنل دینا شروع کیا تو وہ بھی دھڑادھڑ ان کی جماعت میں شامل ہونے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف سٹیٹس کو کی دشمن جماعت ہونے کا بڑا دعویٰ کرنے کے قابل نہ رہی۔ اپنے دعووں کے برعکس رفتہ رفتہ عمران خان بھی انہی چہروں میں گھرے نظر آنے لگے۔ 
جب تحریک انصاف اپنی شناخت سے محروم ہو گئی تو اس کے مضبوط امیدوار بھی 2013ء کے الیکشن میں (قومی اسمبلی کی نشستوں کی صورت میں) خاطر خواہ قوت کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ چنانچہ مئی 2013ء میں عمران خان الیکشن بھی ہار گئے اور اپنی وہ سیاسی پہچان بھی کھو بیٹھے کہ ان کی جماعت میں صرف صاف شفاف لوگ ہیں‘ اور اس میں داغدار ماضی رکھنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ 
پہلے جنرل الیکشن میں ناکامی اور پھر دھاندلی الزامات کی تحقیقات کرنے والے جیوڈیشل کمیشن میں کیس ہارنے کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت نے مسلم لیگ نون سے مسابقت کا سلسلہ تقریباً ترک کرنا شروع کر دیا تھا کہ پانامہ لیکس میں ہونے والے انکشافات نے ہمارا پورا سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا‘ اور پس منظر میں جانے والی تحریک انصاف ایک دفعہ پھر کھیل میں واپس آ گئی۔
عمران خان کا نعرہ تھا کہ نواز شریف کرپٹ سیاستدان ہیں اس لیے انہیں حکومت چھوڑ دینی چاہیے۔ پانامہ لیکس نے ان کے اس الزام پر مہر تصدیق ثبت کر دی؛ چنانچہ عمران خان ایک مرتبہ پھر ''گو نواز گو‘‘ کا زوردار نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ پی ٹی آئی کا موقف تھا کہ وہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا کر ان پر کرپشن کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔
نعرہ بڑا زبردست تھا‘ جسے عوامی قبولیت ملی اور میڈیا بھی ان کا ہمنوا نظر آیا۔ یہ سب کچھ عمران خان کو سیاست کی بلندیوں پر لے جانے کے لیے کافی تھا۔ ہمیں پی ٹی آئی کی حمایت کیوں کرنی چاہیے؟ کیونکہ گو نواز گو! ہمیں عمران خان کے جلسے میں کیوں جانا چاہیے؟ کیونکہ گو نواز گو! عمران خان نے اپنی آج کی تقریر میں کیا کہا؟ گو نواز گو! اب تک کے پی کے حکومت کی کارکردگی کیسی رہی؟ کوئی خاص علم نہیں مگر گو نواز گو! کیا مسلم لیگ نون نے اپنے انتخابی وعدے پورے کیے؟ شاید‘ مگر گو نواز گو! اگلے الیکشن میں کیا ہوگا؟ گو نواز گو!
اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا اور نواز شریف چلے گئے۔ گو نواز گو کا نعرہ پورا ہو گیا۔ فتح نے عمران خان کے قدم چوم لیے تھے۔ اور اس کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کرنے کا کوئی جواز باقی نہ رہا۔ اب سامنے کوئی منزل نہ تھی جس کے لیے جدوجہد کی جاتی۔ عمران خان یقینا ایک بڑے لیڈر تھے مگر کس منزل کی طرف وہ اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کرتے۔
اب تحریک انصاف ایک ایسی جماعت بن کر رہ گئی جس کا نہ کوئی تعارف تھا اور نہ کوئی اجتماعی بیانیہ۔ اسی سیاسی بیانیے کے نہ ہونے کی ایک جھلک ہمیں این اے 154 کے الیکشن میں نظر آئی ہے۔ علی ترین یا اس کے والد محترم پر الزام تراشی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اسی طرح اقبال شاہ یا اس کی انتخابی حکمت عملی کے حق میں تعریفوں کے انبار لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے (سوائے نواز شریف کی مظلومیت کا کارڈ کیش کرانے کے) اگر کسی پر کوئی الزام دھرا جا سکتا ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے جس کے پاس کوئی بڑا انتخابی نعرہ نہیں تھا۔ یہ نعرہ ہی تو ہے جو ووٹرز کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔اگلا الیکشن قریب تر آتا جا رہا ہے۔ اور پی ٹی آئی کو ابھی تک شناخت کے بحران کا سامنا ہے۔ اگر وہ نواز شریف کے نعرے ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی طرح اپنے سیاسی بیانیے اور شناخت کے ساتھ انتخابی مہم میں نہیں جاتی تو الیکشن کے روز اسے سنگین نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاست میں دوسری پوزیشن سے کیا حاصل! اور فی الحال تحریک انصاف مجھے اسی سمت رواں لگتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں