"FBC" (space) message & send to 7575

یومِ پاکستان پر غوروفکر

اس برس 23 مارچ زبردست شان و شوکت اور قوت (عسکری) کے مظاہرے کے ساتھ منایا گیا۔ سلیقے سے ترتیب دی گئیں سرگرمیاں دن بھر جاری رہیں جن کے ذریعے چار مختلف طرز کے پیغامات دیے گئے: 1) ہماری سرحدوں سے پرے تمام لوگوں کو... پاکستان مضبوط اور پھر سے جی اٹھنے والی قوم ہے جو اپنی علاقائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع کر سکتی ہے؛ 2) داخلی شورش پسندوں کو... پاکستان اتنا زورِِ بازو رکھتا ہے کہ (پہلے ہی ختم ہونے کے قریب) عسکریت پسندوں کے خطرے کو کچل سکتا ہے؛ 3) عوام کو... ''ریاست کا جہاز‘‘ طوفانوں سے بچ کر نکل آیا ہے اور پُرسکون سمندر میں داخل ہو رہا ہے؛ اور 4) ''مجھے کیوں نکالا‘‘ گینگ کو... قوم کی بقا اور ارتقا کے لیے نہ تو تم اور نہ ہی کوئی اور ناگزیر ہے۔
تاہم سلیقے سے تانے گئے پردے سے پرے اک نظر ڈالنے سے عیاں ہوا کہ مختلف اداروں کے سربراہوں کے مابین کشاکش جاری ہے (ان میں سے بیش تر اسلام آباد میں ایک ہی سٹیج پر موجود تھے)۔ جنرل، جنھیں ہر کسی کو بار بار یقین دلانا پڑتا ہے کہ وہ غیر جمہوری مہم جوئی میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ وزیرِ اعظم، جن کا ''دلوں کا وزیرِ اعظم‘‘ آزردہ تھا کہ وہ خود اس سٹیج پر موجود نہیں۔ اور ایک صدر... خوب، جو ہنوز اپنی سیاسی حرکتِ قلب کی جستجو میں ہے۔
بحالاتِ موجودہ اس 23 مارچ کے دن ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے عہدِ پاکستان کو یاد کرنا شاید اہم ہو، جو 1940ء میں بادشاہی مسجد کی دہلیز پر کیا گیا تھا، اور آج ہم جہاں ہیں اس سے اس کا موازنہ کریں۔ اس بات کا دوبارہ جائزہ لینا اہم ہے کہ ہم نے کیا بننا تھا اور ہم کیا بن گے۔ یہ جائزہ لینے کے لیے کہ ہم اس موڑ پر کس طرح پہنچے اور یہاں سے اپنے بادبان دوبارہ درست کرنے اور اپنی سمت کا تعین کرنے کے لیے۔
آئیے ہم عین ابتدا ہی میں واضح کر لیں: ہم ایسا معاشرہ اور ریاست تخلیق کرنے میں ناکام رہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ نہ تو علامہ اقبال اور نہ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور نہ ہی ان کی نسل کا کوئی اور فرد 70 سال کی بری حکمرانی پر ہماری کمر تھپکے گا۔ ہم نے بار بار فوجی مہم جوئی کی، جسے لچک دار عدالتی فیصلے نے سندِ قبولیت دی۔
ہم ادھورے جمہوری تجربے کر چکے ہیں، جن کا نتیجہ ایک بدعنوان حکمران اشرافیہ کی تخلیق کی صورت میں نکلا‘ جو آپ کو فوجی حکمرانی کی دعا مانگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہم نے اپنی سرزمین میں جنونیت کے بیج بوئے ہیں، جنھوں نے ہمارے وطن کو لہو سے داغ داغ کر دیا۔ ہم نے عبدالسلام جیسے افراد کو کافر قرار دے دیا اور لال مسجد کے ملاؤں کو ہیرو بنا دیا۔ ہم نے امیروں کو سونے کے محلات تعمیر کرنے دیے جبکہ دوسرے لوگ باہر فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔ ہم نے جمہوریت کو زوال پذیر پا کر وراثتی سیاست کا کھیل بننے دیا اور اداروں کی بجائے افراد کی اطاعت کا حلف اٹھانے دیا۔ ہم نے ایسے مشہور سیاسی راہنماؤں پر (ہوائی جہاز سے) گلابوں کی پتیاں نچھاور کیں، جنھوں نے اپنی گاڑیوں کے جلوس میں کچلے جانے والے لڑکے کے سوگوار خاندان سے افسوس تک کرنا گوارا نہیں کیا‘ اور جب ہمارے آئین کی سلطنت نے چور کو چور کہنے کی طاقت مجتمع کی تو ہم نے آئین کی حکمرانی کی بجائے بادشاہوں کی جاگیر کی اطاعت و فرماں برداری کا حلف اٹھانے کو ترجیح دی۔
ان ستّر برسوں میں ہم نے اپنے بچوں کو لازمی اور باکفایت تعلیم مہیا نہیں کی۔ ہم اب بھی عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کے مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہم اب جائزہ لے رہے ہیں کہ ہمارا صحتِ عامہ کا نظام اُس طرح کام کر رہا ہے جس طرح اسے کرنا چاہیے۔ ہم یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سارے جنگلات کی زمین کس نے ہتھیا لی۔ کس نے بچوں کے لیے پولیو کی دوا خریدنے کے لیے مختص کردہ فنڈ چرا لیا؟ کون زکوٰۃ کی رقم لے کر بھاگ گیا؟ چند دھیلے ٹیکس دینے والوں نے کس طرح ہیرے موتیوں کے محل تعمیر کر لیے؟ ہم ایک ایسا ملک کس طرح بن گئے جو اپنے قرض کی قسط بمشکل ادا کر سکتا ہے، جبکہ دو حکمران خاندان (صرف) پوری قوم کے قرض سے زیادہ اثاثوں کے مالک ہیں؟
اس پس منظر میں ایک نیا مباحثہ شروع ہو چکا ہے: کیا سپریم کورٹ (اور فوج)جیسے مؤقر اداروں کو ان مسائل و معاملات میں دخل دینا چاہیے جو بصورتِ دیگر انتظامیہ کے (خصوصی) دائرۂ کار میں آتے ہیں؟ سادہ تر الفاظ میں، کیا قابلِ احترام چیف جسٹس کو سرکاری ہسپتالوں کے دورے کرنا چاہئیں، میڈیکل سکولوں کی فیس کا تعین کرنا چاہیے اور صاف پانی کی فراہمی کے بارے میں تفتیش کرنا چاہیے؟ یا کیا آرمی چیف کو علاقائی سکیورٹی پالیسی طے کرنا چاہیے، غیر ملکی معززین سے ملاقاتین کرنا چاہئیں اور امریکی صدر کے بیانات کا جواب دینا چاہیے... جبکہ سویلین حکومت سوئی رہے؟
اس سوال کے ایک دوسرے سے یکسر الٹ (اور مخلصانہ ) جواب ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کی دلیل یہ ہے کہ نہ تو معزز عدالت اور نہ ہی فوج کو ایسے معاملات میں دخل دینا چاہیے اور سویلین حکومت کو پیش قدمی کرنے دینا چاہیے۔ اس نقطۂ نظر کے حامی یہ تسلیم کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے کہ سویلین سیاسی قیادت ناکام ہو چکی ہے... لیکن وہ کہتے ہیں کہ نظاموں کے تشکیل پانے میں وقت لگتا ہے۔ اگر فوج اور عدلیہ ایسے معاملات سے دور رہیں تو سویلین راہنماؤں کے پاس آگے بڑھنے کے سوا کوئی راستا نہیں ہو گا اور اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان کے عوام ایسی قیادت کو (انتخابات کے ذریعے) تبدیل کر کے نئی حکومت قائم کر دیں گے جو زیادہ ذمہ دار ہو گی۔ درحقیقت یہ کہا جاتا ہے کہ سویلین قیادت اسی باعث ان مسائل سے (بغیر کسی ارادی جوش کے) نبرد آزما ہونے کی اہل نہیں ہے کہ عدلیہ اور فوج نے انھیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ یہ بھی کہ ہمارے جمہوری فریم ورک کے طویل مدت میں مضبوط ہونے کا واحد دیرپا راستہ یہ ہے کہ ہم سب سیاسی قیادت کے حوالے سے صبر کریں۔
یہ کافی معقول بات ہے۔
دوسری طرف یہ تصور ہے کہ فطرت خلا کو پسند نہیں کرتی۔ چونکہ سیاسی قیادت نے ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھایا، اس لیے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ دوسرے ادارے حالات سدھارنے کا کام انجام دیں۔ یہ کہ جب پاکستان کے عوام کا دَم دھیرے دھیرے گھُٹ رہا ہو تو معزز سپریم کورٹ (اور فوج) خاموش تماشائیوں کی طرح محض تماشا نہیں دیکھ سکتے اور یہ انتظار نہیں کر سکتے کہ سیاسی قیادت پختہ ہو۔ یہ کہ پاکستان کے عوام کو صاف پانی کی ضرورت ہے، اور انھیں اس کی فوری ضرورت ہے۔ انھیں اصل دواؤں کی ضرور ہے، اور فوری ضرورت ہے۔ انھیں ہسپتالوں، سکولوں اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی قیادت... سرے محل اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے بیچ کہیں پھنسی... چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے نہیں اٹھے گی تو ریاست (کے ادارے) لازمی ایسا کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اب یہ آئینی حدود کامعاملہ نہیں رہا۔ یہ آئینی ذمہ داری کا معاملہ بن گیا ہے۔ اگر آپ آگ دیکھتے ہیں اور اسے بجھا سکتے ہیں تو آپ فائر بریگیڈ کے پہنچے کا انتظار نہیں کرتے۔ اگر آپ ایک آدمی کو ڈوبتا دیکھتے ہیں اور اسے بچا سکتے ہیں تو آپ لائف گارڈ کے پہنچنے کا انتظار نہیں کرتے۔
آئندہ انتخابات اور دکھائی دینے والا سیاسی مستقبل ان متضاد بیانیوں میں سے کسی ایک کے چناؤ سے متعلق ہوں گے۔ اگلے سال عوام کی اکثریت جو فیصلہ کر ے گی (انتخابات میں) وہی پاکستان کی لفظی اور وجودی قسمت کا فیصلہ ہو گا۔
یہ پاکستان کے لیے اہم ترین (انتخابی) سال ہے۔ یا تو یہ ایک سیاسی دور کا خاتمہ دیکھے گا (ان کا جنھیں 1980ء کے عشرے میں جنرل ضیا کے تحت سیاسی قوت ہاتھ لگ گئی تھی) یا پھر یہ ایک نئی قسم کے سیاسی کلچرکو جنم دے گا جو بادشاہ سے حلفیہ وفاداری پر پنپتا ہے۔
ان میں سے جو بھی وقوع پذیر ہو، ہمیں پاکستان کے لیے دعا کرنا چاہیے۔ ایک دعا یہ کہ... جاری آئینی کشتی میں کوئی بھی فتح یاب ہو... اگلے 23 مارچ کو پاکستان کے عوام کو صاف پانی، بجلی، اچھی تعلیم اور حفطانِ صحت کی بہترین سہولیات مل چکی ہوں۔ آمین۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں