"FBC" (space) message & send to 7575

بھاری دل کے ساتھ فیصلہ

معزز اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے ایک تین رکنی بینچ کے عدالتی فیصلے کے ذریعے پاکستان کے سابق وزیرِ دفاع و خارجہ خواجہ محمد آصف کی نااہلی بعد از پاناما مقدمہ کسی کے لیے اچنبھے کی بات نہیں۔
جو لوگ اس فیصلے کو گھما پھرا کر اسے پی ایم ایل (ن) کی حکومت ختم کرنے کی کسی پہلے سے سوچی سمجھی عدالتی سازش کی ''اگلی کڑی‘‘ کے بطور پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ یہ فیصلہ معزز سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017ء کو سنائے گئے فیصلے کے ذریعے جاری کی جانے والی عدالتی رائے کا مکرر اظہار (اور اطلاق) ہے: کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے (حلف اٹھا کر) کاغذاتِ نام زدگی پر غلط اظہار آرٹیکل 62 (1) (f) کے دائرے میں آتا ہے اور یوں (تا حیات) نااہلی کا باعث بنتا ہے۔
خواجہ آصف کے مقدمے سے متعلق حقائق نسبتاً سادہ ہیں۔ جیسا کہ آئی ایچ سی کے تشکیک و تنقید سے بالاتر استدلال میں کہا گیا ہے... جسے مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے تصنیف کیا ہے... ہمارے سابق وزیرِ خارجہ (جیسا کہ تسلیم کیا جاتا ہے) متحدہ عرب امارات کی انٹرنیشنل مکینیکل اینڈ الیکٹریکل کمپنی کے ملازم تھے اور ہر ماہ بھاری تنخواہ حاصل کر رہے تھے، جس کا ذکر انھوں نے 2013ء کے کاغذاتِ نام زدگی میں نہیں کیا تھا۔ درحقیقت جیسا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے، ملازمت کے اس معاہدے کے ''واضح الفاظ اور زبان‘‘ ''غیر مبہم طور سے عیاں کرتے ہیں کہ یہ کل وقتی بنیادوں پر ملازمت کے لیے تھا‘‘، جس کی تنخواہ 50,000 ماہانہ یو اے ای درہم ہے۔ معزز عدالت نے کہا کہ خواجہ آصف ''کوئی ایک بھی ایسی دستاویز نہیں دکھا سکے جو اشارۂ بعید ہی کر سکے کہ آجر سے وصول کی جانے والی آمدنی بطور تنخواہ [...] کاغذاتِ نام زدگی میں ظاہر کر دی گئی ہے۔‘‘ نیز یہ کہ، شرم ناک طور سے، ''کمپنی کے ملازمین کی فہرست میں، حتیٰ کہ آج تک،‘‘ کمپنی کے ملازمین کے روسٹر کے '' سیریل نمبر 303 پر [خواجہ آصف] کا نام شامل ہے۔‘‘
کسی عجیب وجہ سے وکیل صفائی نے دلیل دینے کی کوشش کی کہ خواجہ آصف اور یو اے ای کی کمپنی کے مابین ملازمت کے معاہدے ''فریقین کی نیت کی عکاسی نہیں کرتے‘‘ اور یہ کہ اس ''ملازمت‘‘ کا واحد مقصد صرف اقامہ (جسے 2013ء کے نام زدگی فارمز کے ساتھ لف کر دیا گیا تھا) حاصل کرنے کی غرض سے ''متحدہ عرب امارات کے لیبر قوانین کا تقاضا پورا‘‘ کرنا تھا۔ اس حوالے سے معزز عدالت تبصرہ کرتی ہے کہ خواجہ آصف نے جو ''مؤقف اختیار کیا ہے وہ اس اعتراف کے مترادف ہے کہ انھوں نے ایک اور خود مختار ملک کے قوانین کو دھوکا دینے کی نیت سے جعلی معاہدہ کیا‘‘، جو خود اپنی جگہ قانونی نتائج کا سبب ہے۔
معزز عدالت واضح کرتی ہے کہ محض یہ حقیقت کہ خواجہ آصف نے اپنا اقامہ افشا کیا ہے، زیرِ نظر معاملہ نہیں۔ در حقیقت پی ایم ایل (ن) کے راہنماؤں کی جانب سے غلط فیصلے کے ایک اور حملے (''مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ''اقامہ پہ نکال دیا‘‘ والی تقریر) کا اندازہ لگاتے ہوئے معزز عدالت واضح کرتی ہے کہ ''اقامہ امیگریشن کے دفتر کی جانب سے جاری کیا جانے والا محض قیام کا ویزا ہے۔ موجودہ مقدمے میں، ملازمت [...] اور اس کے تحت حاصل ہونے والی تنخواہ کے بارے میں ظاہر نہ کرنا زیرِ بحث ہے۔‘‘
ان حالات میں معزز جج صاحبان واضح تبصرہ کرتے ہیں کہ ''ہم نے گہرا غور و خوض کیا لیکن قائل نہیں ہو سکے کہ جان بوجھ کر اور ارادتاً ظاہر نہ کرنا واقعی یا دیانت دارانہ بھول چوک تھی‘‘ جو اس تبدیل نہ ہو سکنے والے نتیجے پر منتج ہوا کہ خواجہ آصف ''2013ء کے انتخاب میں این اے 110 سے حصہ لینے کے اہل نہیں تھے کیوں کہ انھوں نے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (f) میں بیان کردہ شرائط پوری نہیں کی تھیں‘‘، جیسا کہ معزز اعلیٰ عدالتوں کے اس سے پہلے کے فیصلوں میں تعبیر کی گئی ہے۔
جو قانونی سوال اٹھائے گئے ہیں ان کے لیے معزز عدالت کے استدلال، یا آئین کے آرٹیکل 62 (1) (f) کی سپریم کورٹ کی نظیر کی جس انداز سے تعبیر کی گئی اور اطلاق کیا گیا ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال معزز عدالت کے فیصلے کا زیادہ دل چسپ پہلو وہ لہجہ اور سوگ واری ہے جس سے یہ فیصلہ تصنیف کیا گیا ہے۔ یہ تقریباً ایسے ہے جیسے کہ معزز عدالت پیش بینی کر سکتی تھی کہ اس فیصلے کو تقریروں میں 'جمہوریت مخالف‘ قرار دیا جائے گا، اور اس تنقید سے پیشگی بچاؤ کی غرض سے عاجزی اور وقار و توازن اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
خاص طور سے فیصلے کے آخری چند پیراگرافوں میں ''بھاری دل‘‘ کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ''یہ کسی بھی عدالت کا خوش گوار فریضہ نہیں کہ اسے جانچنے اور عدالتی نظرِ ثانی کے اختیارات استعمال کرنے کے لیے پکارا جائے جس کا نتیجہ کسی منتخب نمائندے کی‘‘ پارلیمان سے ''نااہلی کی صورت میں نکل سکتا ہو۔‘‘ درحقیقت ایک پوچھے نہ گئے سوال (کیا عدلیہ پارلیمان کی مبینہ برتری پامال کر رہی ہے؟) کا جواب دیتے ہوئے معزز عدالت تبصرہ کرتی ہے کہ ''عدلیہ عدالتی نظرِ ثانی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے دوسرے اداروں پر برتری کا دعویٰ نہیں کرتی اور یہ کہ یہ دیکھنا عدالتوں کا فریضہ ہے کہ آئین برتر ہے۔‘‘ معزز عدالت تقریباً تأسف کے ساتھ واضح کرتی ہے کہ ''جب سیاسی طاقتیں جھگڑوں کا تصفیہ سیاسی فورموں، بالخصوص مجلسِ شوریٰ (پارلیمان) میں کرنے کی بجائے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں تو اس کے نتائج برآمد ہوتے ہیں، نا صرف اداروں کے لیے بلکہ مقدمے میں شامل عوام کے لیے بھی۔ سیاسی طاقتوں کا یہ رویّہ ایک طرف مقننہ پر عوام کا اعتماد گھٹا دیتا ہے تو دوسری طرف عدلیہ کے اداروں کو عداوتوں والی سیاست کے مناقشوں میں بھی ملوث کر دیتا ہے۔‘‘
معزز عدالت نصیحت کے لیے اضافہ کرتی ہے کہ ''سیاسی طاقتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف کے منتظر جائز مقدمے دائر کرنے والوں کا قیمتی وقت لینے کی بجائے اپنی شکایات سیاسی فورموں میں پیش کیا کریں۔‘‘ معزز عدالت پارلیمان کو ''فیڈریشن کی وحدت اور عوام کی رائے کی علامت‘‘ تسلیم کرتے ہوئے، جو ''انتہائی احترام کی حق دار ہے‘‘، تبصرہ کرتی ہے کہ ''ستم ظریفی ہے کہ پاکستان ایسے چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں مجلسِ شوریٰ (پارلیمان) اور کابینہ کے ارکان کے لیے باقاعدہ ضابطۂ اخلاق اس لیے تجویز نہیں کیا گیا کہ اداروں سے گریز کیا جائے جیسا کہ‘‘ خواجہ آصف کے مقدمے کے ''حقائق اور واقعات میں مشاہدہ کیا گیا ہے۔‘‘
ہماری عدلیہ جس شدید (اور بے جواز) تنقید کا سامنا کر رہی ہے، معزز عدالت کا یہ لہجہ اور قرینہ واضح طور سے اس کا ردِ عمل ہے۔ ایسے سیاسی بیانیے کے درمیان جس کا مقصد عدلیہ کو ایک جانب دار کھلاڑی ظاہر کرنا ہو، ایسا لہجہ اپنانے پر کوئی بھی معزز ججوں کو الزام نہیں دے سکتا۔ ان حالات میں جج صاحبان (جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہونے کے ناتے سیاسی بیان بازی اور میڈیا کی بیان بازی سے اثر پذیر ہوتے ہیں) اب اپنے جمہوری سندِ اعتبار دکھانے پر خود کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔ ان کے عوامی بیانات اور عدالتی فیصلے تواتر سے جمہوری عمل کی حلفیہ اطاعت کرتے ہیں۔ اداروں کی یہ ان کہی مجبوری... ایک واقعاتی تقاضا... حکمراں جماعت کی نعرے بازی (جس میں آئین اور عدلیہ 'ووٹ‘ کے دشمن ہیں) کا غم ناک نتیجہ ہے۔ 
کسی جمہوری معاشرے میں عدلیہ کی قیاسی غیر جانب داری عدالتی عمل کی واقعی غیر جانب داری جتنی ہی (اگر زیادہ نہیں تو) اہم ہے۔ سیاست دانوں سمیت تمام شہریوں کو اس اداراتی عقیدے کو لمحاتی سیاست کے جذبات میں بہا دیے جانے سے لازماً بچانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں