"FBC" (space) message & send to 7575

کم از کم اجرت کا الم انگیز مسئلہ

رمضان کے مقدس مہینے کی آمد آمد ہے۔ یہ بابرکت مہینہ رونقوں اور سماجی میل جول کی محفلوں کے ساتھ رحمتیں لے کر آتا ہے۔ کم از کم لاہور میں رمضان کا مہینہ بہت زیادہ پکوانوں اور حد درجہ فیشن کے ساتھ نمود و نمائش سے معمور افطاریوں کا تیس روزہ کلچر لے کر آتا ہے۔ افطاری روزانہ برپا ہونے والا جشن بن جاتی ہے۔ ہر روز دوست اور گھرانے کے افراد سورج غروب ہونے کے وقت گھروں اور ریستورانوں میں اکٹھے ہو کر اپنی نیکو کاری کا جشن مناتے ہیں جب کہ بچے پس منظر میں کھیل رہے ہوتے ہیں اور موسمِ گرما کی شام ہنسی کی گونج سے بھر جاتی ہے۔
کلک! کیا یہ کسی نیک، خوش اور پاک باز معاشرے کی تصویر نہیں؟
لیکن ذرا ٹھہریے! تصویر کو ذرا قریب سے دیکھتے ہیں ... وہ پس منظر میں کون ہے؟ گھریلو ملازمہ یا ''ملازم‘‘ جو بچوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے یا باورچی خانے اور کھانے کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے کے درمیان تیزی سے دوڑ رہا ہے! ریستورانوں میں آپ انھیں کسی الگ میز پر بیٹھے بچا کھچا کھانا کھاتے دیکھ سکتے ہیں۔ جلد ہی دن ڈھلتے ہی وہ گھر کے عقب میں اپنے چھوٹے سے ''سرونٹ کوارٹر‘‘ کو لوٹ جائیں گے اور گرمی اور مچھروں سے جس قدر ممکن ہو نیند چرانے کی کوشش کریں گے۔ ان کے دن کا آغاز جلد ہی ہو جائے گا، وہ بھاگ بھاگ کر سارے کام اور غسل خانوں کی صفائی کریں گے۔ وہ یہ سب کچھ مہینے کے آخر پر ملنے والی تھوڑی سے تنخواہ کے لیے کرتے ہیں۔
یہ انتظام ہم میں سے زیادہ تر کے لیے راحت بخش ہو سکتا ہے لیکن ہماری انسانیت کے حوالے سے چند بنیادی سوال اٹھاتا ہے۔ کیا ہم قوم کی حیثیت سے اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ سب انسان برابر نہیں؟ کیا ہم خاموشی سے (مگر یقینی طور سے) غیر طبقاتی معاشرے کے خواب سے دست بردار ہو چکے ہیں؟ کیا ہم یہ تصور قبول کر چکے ہیں کہ کسی کی زندگی جیسی بھی ہو وہ محض پیدائش کا حادثہ ہے؟ اور خاص طور سے (اپنے شہریوں کو تعلیم، حفظانِ صحت اور روزگار مہیا کرنے کی ریاست کی ذمہ داریوں سے قطعِ نظر) کیا کم از کم بنیادی ضروریات پوری کرنے کے وسائل ... رہائش، تنخواہ اور دوسری سہولیات ... اپنے ملازموں کو مہیا کرنا غیر سرکاری افراد کا فرض نہیں؟
''کم از کم بنیادی ضروریات پوری کرنے کے وسائل‘‘ کی بات کی جائے تو شاید ہمارے معاشرے میں کم از کم اجرت کی قانونی تعریف سے آغاز کرنا موزوں ہو گا۔ پاکستان میں اس شعبے میں دو قوانین رائج ہیں ... کم از کم اجرت کا آرڈی نینس مجریہ 1961ء اور غیر ہنر مند محنت کشوں کی کم از کم اجرت کا آرڈی نینس مجریہ 1969ئ۔ 1961ء والے آرڈی نینس کا اطلاق تمام ''صنعتی اداروں‘‘ کے ملازمین پر ہوتا ہے (خواہ وہ ہنر مند ہوں، غیر ہنر مند ہوں یا اپرنٹس ہوں، حتیٰ کہ ان میں گھریلو ملازم بھی شامل ہیں) لیکن اس کا اطلاق وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے ملازمین، کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ملازمین یا زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے لوگوں پر نہیں ہوتا۔ دوسری طرف 1969ء کا آرڈینینس (سیکشن 3 کی رو سے) تمام ''کاروباری یا صنعتی اداروں‘‘ کے مالکان پر قانوناً واجب قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے ہر ملازم کو کم از کم اجرت (جس کا تعین آرڈی نینس کے شیڈول میں کیا گیا ہے) ادا کریں گے۔ (اس سے ان اشخاص کو خارج کر دیا گیا ہے جو پاکستان کے لیے خدمات انجام دے رہے ہوں، دفاعی خدمات انجام دے رہے ہوں، بندرگاہوں، ریلویز، ٹیلی گراف و ٹیلی فون، ڈاک خانے، آگ بجھانے، بجلی، گیس، پانی کی فراہمی کے محکموں اور ہسپتالوں میں خدمات انجام دے رہے ہوں۔) مزید یہ کہ یہ آرڈی نینس بعض خاص رقوم کے حصول کی اجازت بھی دیتا ہے جو ملازم اپنی کم از کم اجرت میں سے لے سکتا ہے، اس صورت میں کہ آجر اتنا مہربان ہو کہ ملازموں کو ''رہائش‘‘ یا ''ٹرانسپورٹ‘‘ فراہم کرے۔
ان قوانین کے تحت حکومت (وفاقی اور صوبائی) کم از کم قابلِ ادائی اُجرت کا تعین کر چکی ہے۔ ابھی حال ہی میں گزشتہ بجٹ میں وفاقی حکومت نے کم از کم اجرت بڑھا کر 15,000 روپے ماہانہ کی ہے۔
یہ ہے صورتِ حال اور اب موجودہ مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں: اس تصور کے باوجود کہ 15,000 روپے پانچ افراد پر مشتمل کسی گھرانے کا خرچ چلانے والے اور بچوں کو تعلیم دلوانے کی کوشش کرنے والے شخص کے لیے بہت کم ہیں ، اس سے بھی گہرا مسئلہ یہ ہے کہ دیہاڑی دار محنت کشوں، نجی ملازموں اور گھریلو ''ملازموں (!)‘‘ کے لیے یہ اعداد بے معنی ہیں جنھیں مرسیڈیز ڈرائیو کرنے والے 'سیٹھ‘ کے ضمیر سے اپنی تنخواہ کے لیے مذاکرات کرنا پڑتے ہیں۔ حکومت، وفاقی یا صوبائی، کسی طور یقینی نہیں بنا سکتی کہ نجی ملازمین کو کم از کم اجرت ادا کی جا رہی ہے یا نہیں۔ حکومت کا دائرۂ اثر زیادہ سے زیادہ ایسے افراد تک محیط ہے جنھیں ریاست کے تحت چلائے جانے والے یا ریاست کے کنٹرول میں چلائے جانے والے اداروں میں ملازم رکھا گیا ہو۔
حکومت کی نااہلی اور سنجیدگی کا فقدان اس حقیقت سے عیاں ہے کہ (محکمۂ محنت کے اعداد و شمار کے مطابق) لاہور میں صرف 15 لیبر انسپکٹر ہیں۔ پورے صوبہ پنجاب میں محض 100 لیبر انسپکٹر ہیں!
کیا دس کروڑ آبادی ... اور ہزاروں چھوٹی صنعتوں، دکانوں اور کاروباری اداروں ... والے صوبے میں محض 100 لیبر انسپکٹر (بہت تھوڑے وسائل کے ساتھ) کم از کم اجرت کے قوانین نافذ کر سکتے ہیں؟ تو پھر کیا یہ سچ نہیں کہ اپنے معاشرے میں کم از کم اجرت (اور یوں وسیع معنوں میں زندگی بسر کرنے کی کم از کم بنیادی سہولیات) کا ''تعین‘‘ قوم کی حیثیت سے ہماری ترجیح نہیں؟
اگلا سوال؟ کیا اس کے لیے صرف حکومت پر الزام لگا دینا چاہیے یا ہم سب اس جرم میں شامل ہیں؟
آئیے لمحہ بھر کو یہ مان لیں کہ ہماری حکومت (وفاقی اور صوبائی) بدعنوان، نااہل اور بے رحم ہے۔ آئیے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کوئی بھی جماعت اقتدار میں آتی ہے (یا کوئی ڈکٹیٹر 'نجات دہندہ‘ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے) تو یہ معاملہ جوں کا توں رہتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری قوم کے دولت اور تعلیم کے اعتبار سے مراعات یافتہ افراد کا اس معاملے میں کوئی نفع نقصان نہیں؟ صرف اس باعث کہ حکومت کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کروانے سے قاصر ہے، ہمیں اپنے باورچی یا ڈرائیور یا جمعدار یا محافظ کو بس اتنی تھوڑی سی رقم ادا کرنا چاہیے کہ جس سے ان کی زندگی کی گاڑی چلتی رہے؟ کیا یہ لازمی ہے کہ ہم دولت کی نمائش کرنے والی ''کوٹھیاں‘‘ اور فارم ہاؤس تعمیر کرتے رہیں جب کہ اپنے پانچ محافظوں کے لیے خستہ حال ''سرونٹ کوارٹر‘‘ اور غیر معیاری غسل خانے بنوائیں؟ کیا یہ لازم ہے کہ ہم اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے لیے کام کرنے والے لوگوں کے بچے بھی ہیں‘ جن کی بنیادی تعلیم کو، جس پر ہمارے پسندیدہ ریستوران میں ایک مرتبہ کھانا کھانے سے زیادہ رقم خرچ نہیں ہوتی، نظر انداز کیا جا رہا ہے (زر کی ہوس میں)۔
یہ وقت ہے کہ ہم ''بنیادی حقوق کی عمودی تعبیر‘‘ (جس کے مطابق ہر شہری آئین کے تحت اپنے حقوق کا تقاضا صرف ریاست سے کرتا ہے) کی بجائے اپنے ضمیر کو ایک زیادہ ''افقی‘‘ سوچ کی طرف موڑیں (جس کے مطابق ریاست سے قطعِ نظر ہر شہری بنیادی حقوق کا تقاضا دوسروں سے کرتا ہے)۔ سب سے بڑھ کر اس سے ہماری روح کی جہت میں تبدیلی آتی ہے۔
آخرالامر تاریخ (اور معبود!) کسی معاشرے کے کردار کا فیصلہ کرتے ہیں، اس پیمانے پر کہ اس نے غریبوں، دھتکارے ہوئوں اور بے یار و مددگار انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا۔ فی الحال ہم... معاشرے کی حیثیت سے... گھریلو ملازمین کے ساتھ اپنے سلوک کے تناظر میں مجرم قرار پاتے ہیں۔ جب تک یہ صورتِ حال تبدیل نہیں ہوتی، تب تک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی کہ ہم نے کتنے روزے رکھے یا کتنی تروایح پڑھیں۔ صرف اپنے سے کم خوش نصیب لوگوں کے ساتھ اپنا سلوک تبدیل کر کے ہی ہم یہ عمیق اَسرار سمجھنا شروع کر سکتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا بننے کی آرزو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں