"FBC" (space) message & send to 7575

ایک نسل کی ناکامی

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان میں جمہوری عمل اپنی دوسری مسلسل میعاد (دس سال) مکمل کر چکا ہے۔ ماضی میں یعنی جمہوری حکمرانی کے ان دس برسوں کی کارکردگی پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی عیاں ہو جائے گا کہ ہمارے جمہوری عمل کے عین قلب میں کوئی نہایت مضطرب کر دینے والی خرابی موجود ہے۔
خشک ہوتے آبی ذخائر، خالی خزانہ، بڑھتا ہوا افراطِ زر (مہنگائی)، عام ہوتی بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے تاسف انگیز و شرم ناک معیارات اور تحفظِ عامہ کا کمزور احساس عیاں کر رہا ہے کہ ہماری جمہوری حکومت جس انداز سے کام کرتی ہے، اس میں کوئی بہت بڑا نقص موجود ہے۔ وہ نقص ہے کیا؟ اس سوال کا سادہ سا جواب ہے: کرپشن!
بہرکیف سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ''ہم اس صورتِ حال تک کیسے پہنچے؟‘‘ اور ''اس اندھیر نگری چوپٹ راج سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟‘‘
آئیے کرپٹ سیاست دان، دائمی جہالت، قلیل وسائل اور غیر مربوط پالیسیاں‘ جیسے بہانوں کی دلدل سے گزرتے ہوئے مسئلہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں: جس نسل نے ہماری قوم کو اس صورتِ حال تک پہنچایا ہے، وہ ہماری توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔ خواہ وہ انتہائی نااہل بیوروکریسی ہو، مہم جو جرنیل ہوں، سب سے مقدس جج ہوں یا اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاست دان... یہ نسل ''نسلِ مایوس‘‘ ہی رہی ہے! اور یہ ناکامی اس باعث بھی خصوصاً الم انگیز ہے کہ انھوں نے اس دوران ملنے والے تمام مواقع بھی برباد کر ڈالے۔
تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ یہ وہ نسل تھی، جس سے توقع تھی کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے گی۔ اس نسل کے لوگ چنیدہ لوگ تھے۔ وہ ایسے والدین کی اولاد تھے، جنھوں نے پاکستان کی معجزاتی تخلیق کے لیے سخت جدوجہد کی تھی۔ یہ نسل ایوب خان کے ''عشرۂ ترقی‘‘ کے دوران پلی بڑھی تھی، جب پاکستان ایک ابھرتا ہوا، ترقی پسند اور پُر امن ملک تھا۔ یہ وہ نوجوان تھے، جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پورے ملک کے لا تعداد گرد آلود میدانوں میں جلوس نکالے تھے۔ انھوں نے مطلق اقتدار کا طوق گلے سے اتار پھینکنے اور اس کی جگہ جمہوریت کو گلے لگانے کا کارِ نیک سیکھا۔ ان کے تشکیلی سال سوشلزم کے جذبات سے معمور رومان سے بھرے عہد کے دوران ''روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے اکسیر سے مخمور تھے۔ وہ چو این لائی کے سوشلزم کے پیغام کے شاہد تھے۔ انھوں نے چی گویرا اور ماؤ زے تنگ کی قیادت میں غیر طبقاتی معاشرے کی تخلیق کے لیے جدوجہد کی تھی۔ وہ فیض صاحب کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور حبیب جالب سے سیکھتے تھے۔
اور پھر ضیا الحق آ گئے۔
عدم رواداری اور بنیاد پرستی کے کوڑوں کے ساتھ ضیا کے فوجی بوٹ مارچ کرتے سٹیج پر آئے تو یہ نسل خوف کی شکار ہو کر شکست کھا گئی۔ ایسا نہیں کہ انھوں نے انتہا پسندی کی قوتوں اور کرپشن کے کلچر کے خلاف جدوجہد کی اور ہار گئے۔ اس کی بجائے انھوں نے لڑے بغیر شرم ناک انداز میں ہتھیار ڈال دیے تھے۔ شہری آزادیوں کی جگہ قدامت پسندی کی زنجیروں نے لے لی۔ جمہوری آدرشوں کی جگہ قومی سلامتی کی مسخ شدہ تعبیرات نے لے لی۔ ترقی پسندانہ حکمرانی کے معیارات کی جگہ بد عنوان حکمران اشرافیہ کی کج رَوِی نے لے لی۔
اُس نسل کے بعض افراد (بہت سے ایسے افراد بھی ان میں شامل ہیں جو آج بھی پاکستان کی سیاست میں سرگرم ہیں) موقع ملنے پر ضیا کی صفوں اور پارلیمان میں شامل ہو گئے تھے اور آخر تک کامل وفاداری سے ان کا ساتھ دیتے رہے تھے۔ مٹھی بھر افراد نے ضیا کے دور میں جدوجہد کی تھی لیکن جلد وہ بھی ما بعدِ ضیا دور میں اپنی راہ کھو بیٹھے۔ جب یہ نسل قیادت والی صفوں میں پہنچی تو وہ 1990ء کے عشرے کی پست سیاست کا حصہ بن گئی۔ اجتماعی قومی بہتری کے لیے کام کرنے کی بجائے اس نسل کے افراد ذاتی مفادات کے حصول میں ملوث ہو گئے۔ تقریباً راتوں رات انتہائی دولت مند اشرافیہ کا '' سٹیٹس کو‘‘ نمودار ہو گیا۔ شوگر ملوں کے مالکان، ٹیکسٹائل کے کاروبار سے کھرب پتی بننے والوں اور زمینوں پر قبضے کرنے والے نے مل کر ایک ایسا جمہوری تانا بانا بُنا، جس سے صرف انھیں فائدہ پہنچتا تھا۔ جہاں تک ''عام آدمی‘‘ یعنی ہماری آئینی جمہوریت کے حقیقی مالک کا تعلق ہے تو وہ اس کرپٹ مافیا کے دستر خوان کے ریزوں کی بھیک مانگنے کے لیے رہ گیا۔
تاریخ نے یہ تاریک ورثہ ایک نئی نسل ... آج کے نوجوانوں ... کی دہلیز پر دھر دیا ہے۔ وہ نسل، جسے ارضِ موعودہ کا دشوار گزار سفر کرنے کے لیے لازماً جرأت سے کام لیتے ہوئے اپنے بڑوں کے نقشِ قدم سے ہٹ کر چلنا ہو گا۔ مایوسی کی آوازوں کے باوجود ... جو ہم سے کہہ رہی ہیں ''یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا‘‘ ... اس ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کی جا سکتی۔
ہمیں کہاں سے آغاز کرنا ہے؟ ایک اچھا مقامِ آغاز شاید یہ ہو کہ ہم اپنے حالات کی اہمیت پہچانیں، ماضی کی غلطیاں قبول کریں اور دشمن کو کھل کر دشمن کہیں۔ کرپٹ سیاست دان ہمارے ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ چبائے ہوئے الفاظ اور کھوکھلے اشاروں کا وقت ... اگر کوئی وقت تھا تو ... اب گزر چکا ہے۔ جیسا کہ دانتے الیگیری (جو صرف دانتے کے نام سے معروف ہیں) نے ایک مرتبہ کہا تھا، ''جہنم کے تاریک ترین مقامات ان لوگوں کے لیے مختص ہیں، جو اخلاقی بحران کے دوران غیر جانب داری برقرار رکھتے ہیں۔‘‘
اگرچہ یہ نئی نسل (ابھی تک) ہماری قوم کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھی لیکن پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اس پر پہلے ہی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے۔ اگر راہنماؤں نے ہر قدم پر مالی احتساب کی مزاحمت کا فیصلہ کیا تو ہمیں انھیں اس سے لازماً روکنا ہو گا! اپنے قول سے، اپنے عمل ... اور اپنے ووٹ سے! اس پختہ یقین کے ساتھ کہ آزادی کے دفاع کے لیے انتہا پسندی برائی نہیں ہے! انصاف کے حصول کی جدوجہد میں جھجکنا نیکی نہیں!
تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر ہماری قسمت ہمارا اپنا انتخاب نہیں۔ ہم نے ریاست کے سیاسی ڈھانچے کی فرسودگی قبل از وقت نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی ہم نے اس کے لیے تیاری کی تھی۔ ہم نے کرپشن کی برائی کے ساتھ تصادم کی نہ تو توقع کی تھی اور نہ ہی ہم نے اس کی دعوت دی تھی لیکن اب جب کہ ہمیں اس کا سامنا ہے تو ہمیں لازماً اس لمحے کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے اٹھنا ہو گا۔ آگے بڑھنا ہو گا۔
اگرچہ یہ کام بہت دشوار ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ ایک نسل کے اخلاص اور عزم نے قوموں کی تقدیر کی صورت گری کی ہے (حتیٰ کہ تقدیر دوبارہ لکھی ہے) ... ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ایف ڈی آر نسل، چین میں ماؤ کی نسل اور ملائیشیا میں مہاتیر محمد کی نسل۔
اب واحد سوال یہ ہے کہ کیا ہم وہ نسل ہیں؟ اور اگر ہم وہ نسل ہیں تو آئندہ انتخابات میں ہمارے فیصلے کو اس عزم کا عکاس ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں