"FBC" (space) message & send to 7575

’’مجھے کیوں نکالا‘‘کو ایک عدالتی جواب

28 جولائی 2017ء کو نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے قریب ایک سال کے سخت انتظار کے بعد 'فاضل احتساب عدالت اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہوئی ہے‘ جس کے سحر میں ہماری سیاست ان دنوں گرفتار ہے‘ اور وہ ہے کہ ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اور یہ جواب خفیہ مالی لین دین کی مجرمانہ تاریخ، آف شور اثاثوں کی ملکیت اور متعلقہ عدالت میں خود ساختہ دستاویزات حلفاً جمع کروائے جانے کا احاطہ کرتا ہے۔
نتیجے کے طور پر فاضل احتساب عدالت نے جمعے کے روز 174 صفحات پر مشتمل فیصلے میں نواز شریف، ان کی بیٹی اور داماد کو قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کی قابلِ اطلاق دفعات کے تحت سزا سنائی ہے۔
پیش کی گئی شہادتوں کا تفصلی تجزیہ کرنے کے بعد‘ {جو 150 صفحات پر پھیلا ہوا ہے، فاضل احتساب عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ نواز شریف کا ''قصور‘‘ احتساب آرڈیننس کی شق 9 کے تحت ثابت ہوتا ہے، لہٰذا سابق وزیر اعظم کو ''مجرم گردانتے ہوئے 10 سال قیدِ بامشقت کے ساتھ 80 لاکھ پائونڈ جرمانے کی سزا دی جاتی ہے‘‘، ''نیب شیڈول کی فہرست نمبر2 میں بیان کئے گئے جرائم میں ایک سال کی سزا کے علاوہ‘‘ فاضل عدالت کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ''مریم نواز کی جانب سے پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈز بھی جعلی ثابت ہوئیں‘‘، اور یہ کہ ''مریم نواز، اپنے والد کی جائیداد چھپانے میں آلہ کار تھی‘‘، اور اس طرح ''اس نے اپنے والد''جو کہ عوامی عہدے پر بھی فائز تھا‘ کے ساتھ سازش میں سازباز اور مجرمانہ اعانت کی‘‘۔ نتیجتاً مریم نواز کو ''مجرم قرار دیتے ہوئے سات سال قید بامشقت، 20 لاکھ پائونڈ جرمانہ اور نیب شیڈول کی فہرست نمبر2 میں بیان کئے گئے جرائم میں ایک سال کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔
مزید برآں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر‘ جس نے ''ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کئے ہیں‘‘، اور ملزمان نواز شریف و مریم نواز کے ساتھ سازش میں سازباز اور مجرمانہ اعانت کی ہے ''کو مجرم ثابت ہونے پر ایک سال قید بامشقت اور نیب شیڈول کی فہرست نمبر2 میں بیان کئے گئے جرائم میں مزید ایک سال کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ 
آخر میں یہ مجرمان ''انتخابات لڑنے یا سرکاری عہدہ لینے سے بھی دس سال کے لیے نااہل ہوں گے۔ یہ عرصہ ان کی سزا مکمل ہونے کے بعد سے شروع تصور کیا جائے گا‘ نیز یہ کہ ان کے مجرم قرار پانے کے بعد عرصہ دس سال تک انہیں قرض کی درخواست دینے کی اجازت بھی نہیں ہو گی‘‘، جیسا کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 15 میں بیان کیا گیا ہے۔ 
اس کے علاوہ نواز شریف کے دونوں فرزند حسن نواز اور حسین نواز کو ''اشتہاری‘‘ قرار دے دیا گیا ہے اور ان کو گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے، ان کے ''ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری‘‘ جاری کر دئیے گئے ہیں۔ 
بغیر کسی شک و شبے کے، فاضل احتساب عدالت کا فیصلہ شاید حالیہ تاریخ میں کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو بد عنوانی اور وسائل سے زائد اثاثے بنانے پر دی جانے والی سب سے کڑی سزا ہے۔ قومی سطح پر یہ مستقبل بعید تک نواز شریف خاندان کی سیاست کے خاتمے کی نشاندہی ہے۔ اگر پنجاب میں چلنے والی تحقیقات اور فواد حسن فواد کے گرفتاری کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ مسلم لیگ نون کی ساکھ اور سیاست پر گہرے سائے مرتب کرتا ہے۔
نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت اس خوفناک دھچکے سے اگر بحال ہو سکتے ہیں تو کیسے؟ سابق وزیر اعظم کے پاس قانونی اور سیاسی ترکش میں کون سے تیر باقی رہ گئے ہیں؟ کیا اسے اداروں کے مابین تصادم، از قسم مریم کی طرزِ سیاست، کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہیے؟ یا اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سیاست کوئی ایسی چیز نہیں جسے قانون کے ساتھ تصادم کی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہو؟ شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کی بقیہ قیادت آنے والے انتخابات اور بعد کے عرصے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں؟
ان سوالوں کے جواب دینے سے قبل ایک سادہ اصول مدِ نظر رہے کہ قانونی مقدمات‘ قانونی دلائل کی بنیاد پر جیتے یا ہارے جاتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی یا عوام کی تحریک کی دھمکی ٹرائل کے دوران قانونی دلائل کی کمزوری یا عدم دستیابی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ ووٹ لینا ارتکابِ جرم میں دفاع کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست قانون کے دائرۂ اثر سے باہر نہیں۔ نواز شریف اور ان کا خاندان، پہلے دن سے جب ان کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی، قانونی نوعیت کے مقدمے کو سیاسی حکمت کے ساتھ لڑنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ آنرایبل سپریم کورٹ کے سامنے یہ ایک غلطی تھی اور یہ فاضل احتساب عدالت میں ثابت ہو گیا کہ واقعی یہ ایک بڑی غلطی تھی۔ 
قانونی نقطہ نظر سے نواز شریف اور ان کے خاندان کو فاضل احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔ نیب آرڈیننس کی سیکشن 32 کی رو سے یہ اپیل متعلقہ ہائی کورٹ میں ''10 روز کے اندر‘‘ کی جا سکتی ہے اور اس کے بعد ہائی کورٹ مذکورہ اگر ضرورہ سمجھے تو مقدمے کا از سر نو تفصیلی جائزہ لے اور جملہ شہادتوں اور عدالتی مواد پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔ 
تاہم اس دوران گرفتاری کی کارروائی سے بچائو کی کوئی قابل عمل صورت نظر نہیں آتی۔ قید سے بچائو کے ممکنہ طور پر صرف دو طریقے یہ ہو سکتے ہیں کہ اول ضمانت حاصل کر لی جائے یا یہ کہ سزا پر عمل معطل کروانے کے احکام جاری ہو جائیں۔ ضمانت دینے کا اصول قانون تو پہلے ہی طے ہو چکا ہے یعنی قبل از درخواست ضمانت مجرم کو قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں اور عدلیہ کے سامنے خود کو پیش کرنا ہوتا ہے‘ تبھی جا کر اس کی درخواست پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ احتساب عدالت کے سزا یافتہ مجرم کو خود عدالت میں پیش ہوئے بغیر ضمانت دے دی گئی ہو۔ سزا کی معطلی کا بھی اسی طرح کا اصول قانون ہے، کہ سزا کی معطلی کی درخواست سے پیشتر مجرم عدالت میں پیش ہو گا۔ ہر دو صورتوں میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری ناگزیز معلوم ہوتی ہے۔
یہ نکتہ بھی وضاحت کا متقاضی ہے کہ سزا کی معطلی فردِ جرم کو ختم نہیں کر دے گی۔ باالفاظ دیگر اپیل کے دوران سزا کی معطلی اور نواز شریف وغیرہ کی گرفتاری نہ ہونے کے باوجود ان پر جرم کے ارتکاب کا حکم نافذ رہے گا، جس کی بنا پر وہ انتخابات میں حصہ یا کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ فاضل وفاقی وزیر قانون نے میڈیا کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویوز میں کہا ہے کہ اگر سزا معطل کر دی گئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر آنے والے انتخابات میں حصہ لے سکیں گے، حالانکہ آنرایبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد احکامات اس رائے سے قطعی متصادم ہیں۔ سزا کی معطلی کا حکم جاری ہونے کی صورت میں بھی یہ حکم سزا کے ساتھ نافذ ہونے والی نااہلی کو ختم نہیں کرے گا۔ سزا مکمل اسی صورت بے اثر ہو سکتی ہے اگر فاضل احتساب عدالت کا پورا فیصلہ معطل یا بالآخر ختم کر دیا جائے ۔ 
یہ پاکستانی سیاست کے لیے مشکل ایام ہیں۔ کسی اور وجہ سے نہیں تو اس سے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی صورت میں بدعنوانی کے کلچر کا ایک دور اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کی لڑائی نہیں، ذاتی دولت، جو کہ ریاست سے بھی طاقتور ہو چکی ہے، کے تحفظ کی لڑائی ہے۔ اس دوران، سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے، سمجھدار افراد کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کس کے لیے ہے: نواز شریف کو مروجہ قانونی طریقے کے مطابق چلنے والے کرپشن کے مقدمے میں سزا ہوئی ہے‘ اور دوسرے جو وقتی طور پر سزا سے استثنا کا سہارا لیے ہوئے ہیں، وہ بھی ان کے پیچھے آنے والے ہیں۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اپنے قیام کا مقصد پورا کر سکے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں